ریحان سکول: اپنی نوعیت کا منفرد سکول


ایک ایسا تعلیمی ادارہ جہاں آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور فری لانسنگ کی بدولت اسٹوڈنٹس کو مستقبل کی قیادت کے لئے تیار کیا جا رہے ہے۔

گزشتہ دنوں اپنے اسلام آباد کے دورے کے دوران میری ملاقات مختلف اداروں کے سربراہان سے ہوئی۔ ان میں ایک منفرد ملاقات ایک ایسے استاد اور ٹیکنالوجی کی دُنیا کے منفرد نام جناب ریحان اللہ والا سے ریحان فاؤنڈیشن کے سکول بارہ کہو، اسلام آباد میں ہوئی۔ اس ملاقات کا مقصد ریحان سکول کی اپروچ کے بارے میں جاننا، اور اس کے روح رواں جناب ریحان اللہ والا کے ویژن کو سمجھنا مقصد تھا۔ اس ضمن میں میں نے ریحان اللہ والا کا انٹرویو کیا جس کا خلاصہ اس مضمون میں پیش کر رہا ہوں۔ ریحان اسکول ایک منفرد ویژن اور سوچ کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ جس کی اب تک کراچی اور اسلام آباد میں چند برانچ شروع ہو چکی ہیں۔

جناب ریحان اللہ والا نے بتایا کہ اُن کے سکول کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ اس ملک کو دیکھیں تو ہمیں نظر نہیں آتا کہ کراچی میں پانی کا مسئلہ کون حل کرے گا؟
سٹرکیں کون ٹھیک کرے گا؟ لوگ آتے ہیں اور صرف وعدے کر کے چلے جاتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ ایدھی صاحب آئے، انہوں نے ایک مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ امجد ثاقب آئے، انہوں نے ایک اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ہم کرکٹر بنا رہے ہیں، ڈاکٹر بنا رہے ہیں، لیکن لیڈر نہیں بنا رہے، اور آج بھی اگر ہم کسی کو کہیں کہ یہ مسائل کون حل کرے گا؟ تو کوئی بھی انسان نظر نہیں آ رہا ہے، اس لئے ہم مستقبل کے لیڈر تیار کرنے کا ایک فارمولا ڈھونڈ رہے ہیں، جیسے ایلون مسک، تھامس ایڈیسن، اسٹیو جابز اور بل گیٹس لوگ ہیں، اس طرح کے لوگ بائی ایکسیڈنٹ نظر آ جاتے ہیں، لیکن بائے ٹریننگ نظر نہیں آتے ہیں،

جو لوگ سسٹم سے گزر کر آتے ہیں یا وہ ماسٹرز کی ڈگری لے کر اوپر آتے ہیں، تب تک وہ بندہ ویسے ہی چلا ہوا کارتوس بن چکا ہو تا ہے۔ ہم نے پانچ سال کی عمر سے پڑھانا شروع کیا، اگر آپ نے کوئی اچھا کرکٹر لینا ہے تو وہ بچپن سے کھیل رہا ہوتا ہے۔ والٹ ڈزنی کو ہی لے لیں وہ سات سال کی عمر سے وہ کام کر رہا تھا۔
تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک ایسا سسٹم ایجاد کیا جائے، جہاں بچہ ان، لیڈر آؤٹ،میرا گول یہ ہے کہ میں ایک ہزار لیڈر تیار کروں۔ جو کہ کم ازکم ایک بچہ 10 بلین لوگوں پر امپیکٹ لا سکے جو کہ ٹوٹل آٹھ بلین کی آبادی ہے جو سب پہ ڈائریکٹ امپیکٹ وہ تمام ہزار بچے لے کر آ سکتے ہیں۔

میرے سوال

پاکستان کے معاشی حالات ایسے ہیں جہاں بہت رونا دھونا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کس طرح سے آئی ٹی ہمارے بہت سارے جو معاشی مسائل ہیں لوگوں کے بھی معاشرے کی خاندانوں کے اور ملک کو حل کر سکتے ہیں؟ ”

ریحان اللہ والا نے کہا دیکھیں، رونا دھونا تو ہمارا ہر وقت لگا رہتا ہے، اس لئے کہ ہماری پریکٹس بہت زیادہ ہے، کیونکہ ہمارا ٹی وی، ہمارا اخبار مسلسل رونا دھونا کرتا ہے، گٹر کا ڈھکنا نہیں ہے وہ بتاتے ہیں، گڑ کا ڈھکنا جو لگا رہا ہے، اُس کا نہیں بتاتے ہیں۔22 ہزار بچہ ایک گھنٹے میں پیدا ہوتا ہے، اس کی خبر نہیں آتی ہے، جو ایک مر جاتا ہے اُسکی خبر بتاتے ہیں۔

سو دراصل ہمارے ملک میں زیادہ چیزیں اچھی ہیں کچھ چیزیں خراب ہیں، لیکن جب (Analaysis) کر نے بیٹھتے ہیں تو انسان کا دماغ سمجھتے ہیں تو اس کے اندر ایک کذا اتلا کہتے ہیں جو کہ چھوٹی سی خراب چیز کو بہت ایمپلیفائی کر کے دکھاتا ہے، تو ہم ڈر جاتے ہیں۔ اگر ہلکا سا بھی سائرن بجے گا تو ہم سارے اُٹھ کہ پیچھے بھاگے جائیں گے، کہ کیا ہوا ہے، اگر نہیں بجے گا تو کوئی بھی پریشان نہیں ہو گا، سب کچھ صحیح چلا رہا ہے۔ تو یہ ڈیزائن با ڈیزائن ہے، بائیولوجی کا حصہ ہے کہ انسان چھوٹی سی خراب خبر پر ڈر جاتا ہے۔

آئی ٹی اس ملک کے اندر بہترین ٹول ہے جس کی مدد سے ہم اپنے جتنے مسائل ہیں ان کا حل نکال سکتے ہیں، چاہیے ہم نے ایجوکیشن نہیں حاصل کی۔ 40 پرسنٹ لوگ اپنا نام نہیں لکھ سکتے تو 40 پرسنٹ پاپولیشن اگر لگا لیں تقریباً 80 ملین بچے بن جاتے ہیں، وہ اپنا نام نہیں لکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف چیٹ جی پی ٹی اردو میں بات کرتی ہے، سندھی بولتی ہے، پشتو بولتی ہے، پنجابی بولتی ہے، اس سے بات کر لیں، علم آپ کی جیب میں، سیکھا نہیں ہے۔

ریحان اللہ والا اُن کا مزید کہنا تھا کہ دُنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے، اور ہم ابھی تک اپنے ویلج کو سمجھ نہیں پائے۔ انٹرنیٹ پاکستان میں بہت سستا ہے، موبائل یہاں پر سستا ہے، لیب ٹاپ یہاں بہت سستا ہے، دیگر ممالک کی نسبت تو ہمیں کم از کم ہر گھر میں ایک لیب ٹاپ، ہما رے گھر میں ہو نا چا ہے۔ جب لیب ٹاپ گھر پر ہو گا تو آپ سیکھیں گے۔ استعمال کرتے کرتے انسان سیکھ جا تا ہے۔

میں اگر آج یہاں بیٹھا ہوں تو میرے والد نے مجھے بارہ سال کی عمر میں لیب ٹاپ لے کر دیا تھا، جسے میں چلا چلا کر سیکھ گیا ہوں، آج اگر ہم نے اپنی غربت کا خاتمہ کرنا ہے اور ترقی کرنی ہے تو پھر آئی ٹی ہمارے لئے سب سے بہترین آپشن ہے۔ اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments