سردار اختر مینگل: ’حکومت کو اب پہاڑوں پر موجود بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے بات کرنا ہو گی‘

سحر بلوچ - بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


BBC
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اگر حکومت بلوچستان میں معاملات کے حل کے لیے بات کرنا چاہتی ہے تو اب اسے اُن عناصر سے بات کرنا پڑے گی جو بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔

تین ستمبر کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے والے بلوچ سردار نے بی بی سی اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں صوبے کے بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں عسکریت پسندی آج جس مقام پر پہنچ چکی ہے وہ صوبے میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’آج جو بلوچ عسکریت پسندی عروج پر پہنچ چکی ہے یہ اُن فوجی آپریشنز کا نتیجہ ہے، جو ہم بھگت رہے ہیں۔ اب حکومت کو پہاڑوں پر موجود بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے بات کرنا ہو گی۔‘

اپنے استعفے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے معاملات میں مستقل مداخلت اور سیاسی جوڑ توڑ ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کے دیگر حصوں میں تو (سیاست میں مداخلت) اب ہوئی ہے، لیکن بلوچستان میں تو روزِ اوّل سے یہی حال ہے اور اسی قسم کی مداخلت ہے۔ بلوچستان میں مداخلت کے نتیجے میں جب وہاں کے عوام نے آواز اٹھائی تو اُن کی آواز کو دبانے کے لیے بلوچستان میں فوجی آپریشن کیے گئے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مختلف مسائل ہیں جن کی بنیاد پر میں نے استعفیٰ دیا ہے۔ جب میں ریاست کا نام لیتا ہوں تو پھر اس میں وہ تمام ادارے آ جاتے ہیں جن میں پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور عدلیہ اور میڈیا بھی شامل ہیں۔ میں نے ان سب کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ ان تمام اداروں کی نظر اندازی اور بلوچستان پر ہونے والے مظالم نے مجھے (مستعفیٰ ہونے پر) مجبور کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی ریاست کو بھی بلوچستان کے عوام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کو وہاں کے وسائل، چاہیے اس میں سوئی گیس ہو، ریکو ڈِک ہو، سیندک ہو، یا پھر بلوچستان کا ساحل جسے بنیاد بنا کر پاک چین اقتصادی راہداری لائی گئی، اس سے غرض ہے۔‘

بلوچستان میں حالیہ دنوں میں شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے عسکری تنصیبات کے علاوہ عام شہریوں پر بھی حملوں کے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں افراد مارے گئے، جس کے بعد اختر مینگل کی جماعت بی این پی سمیت قوم پرست جماعتیں صوبے کے مسائل مؤثر انداز میں نہ اٹھانے پر تنقید کی زد میں رہی ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا عسکریت پسند صوبے میں وہ خلا پُر کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جو قوم پرست جماعتوں کی جانب سے چھوڑ دیا گیا ہے، بلوچ رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عسکریت پسندوں کے لیے جگہ پیدا کرنے یا انھیں جمع کرنے میں اتنا کردار ادا نہیں کیا جتنا کہ ریاست کے ظلم و ستم نے کیا ہے۔ ریاست نے اپنی زیادتیوں، اپنی ناانصافیوں کے ذریعے لوگوں کو مشتعل کیا ہے۔‘

اختر مینگل کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تین ادوار میں عسکری مزاحمت ہوئی ہیں۔ ’ایک فوجی آمر ایوب خان کے دور میں جب عام معافی کا اعلان کیا گیا اور جو لوگ پہاڑوں پر تھے ان لوگوں نے مرکزی سیاست میں حصہ لے کر 1970 کے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی، جس کی بدولت بلوچستان کی پہلی حکومت تشکیل دی گئی۔ بعد میں جو جمہوری حکومتیں آئیں انھوں نے مرہم رکھنے کے بجائے بلوچستان کے زخموں کو کھرچنے کی کوشش کی۔‘

’ہم انھیں سمجھاتے رہے کہ ایسا نہ کریں بلوچستان کا نوجوان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور آج یہ نوبت ہے کہ جو پہاڑوں پر جاتا ہے وہ اپنے والدین کی رضامندی سے نہیں جاتا۔ جب وہ اہنے خاندان کی نہیں سنتا تو اب وہ میری یا کسی اور کی بات کس طرح سنے گا۔ اب بات ہمارے ہاتھوں سے بھی نکل چکی ہے۔‘

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہ لوگ اور تنظیمیں جو پاکستان کے فریم ورک میں رہ کر بات کرنا چاہتی ہیں انھیں حکومتی رویوں سے مایوسی ہی ہوئی ہے۔

’اب نہ ہی ڈاکٹر ماہ رنگ کے پاس کوئی بات ہے کیونکہ ماہ رنگ بھی پاکستان کے فریم ورک میں رہ کر بات کرنا چاہ رہی ہیں، ہم بھی پاکستان کے فریم ورک میں رہ کر بات کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں تو مایوسی ہوئی۔‘

خیال رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خاتون رہنما ماہ رنگ بلوچ نے حال ہی میں صوبے میں ایک مؤثر تحریک چلائی جس میں بڑی تعداد میں بلوچ عوام شامل ہوئے لیکن حکومت کی جانب اس تحریک سے مؤثر مذاکرات کی کوشش دیکھنے میں نہیں آ سکی۔

Getty Images

اختر مینگل کے استعفیٰ کا بلوچستان کی صورتحال پر کیا اثر ڈالے گا؟

اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں کہ اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا ہو اور اس مرتبہ بھی حکومت یہ کوشش کر کرہی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اختر مینگل کے استعفیٰ دینے سے پاکستان اور خاص طور سے بلوچستان کی سیاست اور پارلیمان میں نمائندگی پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

بلوچستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار کیئا بلوچ کا کہنا تھا کہ ’اختر مینگل اس استعفے سے کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے استعفے سے حکومتِ پاکستان نے بلوچستان سے اٹھنے والی ایک سمجھ دار اور مضبوط آواز کھو دی ہے۔‘

ان کے مطابق ’ریاست اور وفاق کے پاس نادر موقع تھا کہ اختر مینگل جیسے فرد کو بلوچستان اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتے خلا کو کم کرنے کے لیے استعمال کرتے۔‘

کئیا بلوچ کہتے ہیں کہ ’اختر مینگل کا استعفیٰ دینا مزاحمت کی علامت ہے اور لگ رہا ہے کہ انھیں اب یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ بلوچستان کا نوجوان پارلیمانی سیاست سے مایوس ہو چکا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ بات حال ہی میں گوادر میں ہونے والے راجی مُچّی سے ظاہر ہوئی کہ عوام میں غصہ بہت بڑھ چکا ہے اور معاملات اب ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔

’ان حالات کے بعد اب ان کا استعفیٰ دینا اس بات کی علامت ہے کہ ’یہ ان کی بلوچستان کے نوجوانوں کے سامنے اپنا مثبت چہرہ دکھانے اور اپنی سیاسی اہمیت کو برقرار رکھنے کی آخری کوشش ہے۔‘

خیال رہے کہ اختر مینگل خضدار سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ صوبے کے سابق وزیراعلیٰ عطا اللہ مینگل کے صاحبزادے سردار اختر مینگل سنہ 1988 سے سیاست میں ہیں۔ وہ خود بھی 1997 سے 1998 کے درمیان بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ رہے جس کے بعد ان کی حکومت کو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے ہٹاتے ہوئے جان محمد جمالی کو ان کی جگہ وزیرِ اعلی منتخب کیا تھا۔ اس کے بعد 2013 کے الیکشن میں اختر مینگل تقریباً 13 سال کے وقفے کے بعد بلوچستان اسمبلی واپس لوٹے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33820 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments