سعودی عرب کا کفالہ نظام
حالیہ دنوں سوشل میڈیا میں ایک فلم گوٹ لائف کے متعلق بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور اس پر مختلف تبصرے بھی ہو رہے ہیں۔ یہ فلم سعودی عرب کے کفالہ نظام کے پس منظر میں تیار کی گئی ہے جس میں اس نظام کے غیر قانونی پہلوؤں اور ظلم و نا انصافی کو بہت واضح انداز میں پردہ سیمیں پر دکھایا گیا ہے۔
فلم کی مختصر کہانی کے مطابق ہندوستان سے ایک شخص نجیب ملازمت کرنے سعودی عرب جاتا ہے۔ وہاں وہ اپنی کمپنی کی بجائے کسی دوسرے سعودی شہری کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اس کو صحرا میں قائم شدہ اپنے اونٹوں اور بکریوں کے طویلے میں لے جاکر اس سے بیگار لیتا ہے۔ اونٹوں اور بکریوں کی دن رات دیکھ بھال کے عوض اسے ایک دو وقت کا نہایت ہی بد ذائقہ کھانا دیتا ہے اور اکثر اوقات اس کو کچھ بھی کھانے کو نہیں ملتا ہے۔ اس کو کہیں باہر جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی ہے۔
وہ سعودی اس شخص پر بہت ظلم و ستم کرتا ہے۔ اکثر اوقات اسے گالی گلوچ کرتا ہے اور مار پیٹ بھی کرتا ہے۔ وہ انڈین اس سعودی شخص کے طویلے میں دو سال تک سخت غلامی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس دوران وہ اپنی زبان بھی بھول جاتا ہے اور جانوروں کی انسیت میں ان ہی کی آوازیں نکالنا شروع کر دیتا ہے۔ ایک دن وہ انڈین تنگ آ کر اس سعودی کے سر پر لوہے کا ڈنڈا مار دیتا ہے جس کے باعث سعودی شخص ہلاک ہو جاتا ہے۔ انڈین وہاں سے بھاگ نکلتا ہے اور سعودی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔
عدالت مجرم کو ایک لاکھ چھہتر ہزار ریال بطور دیت دینے کا حکم دیتی ہے اور پانچ برس کی سزائے قید بھی۔ انڈین کے پاس ایک ریال تک نہیں ہوتا ہے۔ لوگوں تک اس واقعے کی خبر پہنچتی ہے تو وہ اس کے لیے مذکورہ رقم جمع کرتے ہیں۔ عدالت کے حکم کے مطابق مقتول کے بیٹے کو جیل میں بلایا جاتا ہے۔ مقتول کا بیٹا مجرم سے کہتا ہے تم نے میرے والد کو قتل کیا ہے، مجھے اس کا دکھ اور رنج تو بہت ہے، لیکن تمہارے ساتھ بھی میرے والد نے دو برس تک ظلم اور زیادتی کی ہے۔ اس لیے میں تمہیں اپنے والد کا خون معاف کرتا ہوں اور دیت کی رقم بھی تمہیں دیتا ہوں۔ مجرم سعودی مسلمانوں کے اس طرز عمل کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتا ہے۔
یہ فلم سعودی عرب میں دکھانا ممنوع ہے۔ سعودی عرب میں اس فلم کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر تنقید و تبصرے ہو رہے ہیں۔ فلم ساز نے فلم کے آغاز میں بیان کیا ہے کہ اس فلم کا مقصد کسی شخص یا ملک کی دل آزاری نہیں ہے۔ اس فلم نے سعودی نظام کفالہ کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اور اس نے شہزادہ محمد بن سلیمان کے ترقی یافتہ سعودی عرب اور اس کی ابھرتی ہوئی معیشت کے تصور کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس فلم میں جہاں سعودی عرب کے کفالہ نظام کی برائیوں کو واضح کیا گیا ہے وہاں سعودی مسلمانوں کے ایثار و قربانی کو بھی مثبت انداز میں دکھایا گیا ہے۔
سعودی عرب میں پچھلی سات دہائیوں سے کفالہ کا نظام جاری ہے۔ ارد گرد کی خلیجی اور عرب ریاستوں میں بھی یہ نظام ابھی تک جاری ہے۔ کفالہ نظام کے مطابق سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں میں جو تارکین وطن بطور کارکن آتے ہیں، چاہے وہ کسی کمپنی کے ملازم ہوں یا کسی سعودی کے گھر یا دفتر میں ملازم ہوں وہ کفالہ نظام کے تحت ہی کام کرتے ہیں۔ ایک سعودی شہری اس کارکن کی کفالت کرے گا اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو برداشت کرے گا۔
وہ اس ضمن میں سعودی حکومت اور کارکن بھرتی کرنے والی کمپنی کو معاوضہ بھی ادا کرتا ہے۔ اس نظام کے تحت اس کارکن کا جواز السفر اور تمام دوسری شناختی دستاویزات اس سعودی شہری کے قبضے میں آجاتی ہیں۔ وہ اس کارکن کی رہائش، ملازمت اور تنخواہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ کفیل کے زیر کفالت شخص ایک طرح سے اس سعودی شہری کا زر خرید غلام بن جاتا ہے۔ وہ نہ اپنی مرضی کا کام کر سکتا ہے اور نہ کہیں ادھر ادھر جا سکتا ہے۔ اپنے وطن واپس جانے کے لیے بھی اسے اپنے سعودی کفیل کی اجازت درکار ہوتی ہے جو بہت مشکل سے ملتی ہے اور کئی بار مہینوں تک سعودی کفیل ملتا ہی نہیں ہے، چاہے اس کے اپنے وطن میں کوئی فوتگی، بیماری، شادی یا کوئی اور ہنگامی حالت درپیش آ جائے اور کئی بار ہفتوں تک یہ ہی جواب ملتا ہے، ’ھوا سافر‘ (وہ سفر پر گیا ہوا ہے)۔
سعودی کفیل اپنے کارکنان کی تنخواہیں بھی بروقت ادا نہیں کرتے اور اکثر اوقات کم بھی دیتے ہیں۔ ان کارکنان کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوتی ہے۔ عدالتیں بھی ان کی داد رسی نہیں کرتی ہیں۔ کفالہ نظام دراصل پرانے دور غلامی کی جدید شکل ہے۔ حجاج کرام کو بھی مختلف سعودی کفیلوں میں بانٹ دیا جاتا جو ان کے جواز السفر اور دوسری شناختی دستاویزات ان کے واپس جانے تک اپنے پاس رکھتے ہیں۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے اس کفالہ نظام کے متعلق بہت تنقید ہو رہی ہے اور اسے حقوقِ انسانی کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت سعودی عرب میں ایک کروڑ سے زائد خارجی کارکن کام کر رہے ہیں۔ 2021 سے سعودی حکومت اس کفالہ نظام کو تبدیل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ سعودی حکومت اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے تیل کے ساتھ ساتھ دوسرے ذرائع پر بھی انحصار کر رہی ہے۔ جی 20 کے سربراہی اجلاس کا میزبان بھی سعودی عرب بن رہا ہے جس سے پہلے اسے اپنا کفالہ نظام تبدیل کرنے کے لیے دنیا کے دباؤ کا سامنا ہے۔ امید ہے کہ سعودی حکومت غلامی نما اس کفالہ نظام کو یکسر تبدیل کر کے حقوق انسانی کے جدید تقاضوں کے مطابق اجر اور اجیر کا بین الاقوامی اور انصاف پر مبنی نظام اپنائے گی۔
- بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان - 28/09/2024
- پاکستان قائم رہے گا - 26/09/2024
- ملکہ ترنم نور جہاں: گلوکارہ، اداکارہ اور فلم ساز - 24/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).