بنام جناب سردار علی شاہ، وزیر تعلیم سندھ، سندھ حکومت


جناب اعلی گزارش ہے کہ آپ دو ہزار تیرہ میں پہلی دفعہ صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اور دو ہزار سولہ سے اب تک آپ تین منتخب مسلسل سندھ کابینہ کا حصہ ہیں۔ آپ نے سندھ کابینہ میں بیک وقت دو دو وزارتیں ساتھ رکھنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اور تیسری بار وزیر تعلیم بھی بنائے گئے ہیں۔

کابینہ میں شمولیت سے پہلے بھی آپ اسمبلی میں شعلہ بیانی کی وجہ سے مشہور رہے تو وزارت میں آنے کے بعد بھی آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا، تب سے اب تک میڈیا کے بادشاہ سمجھے جاتے رہے ہیں۔

چونکہ آپ کہ پہلی وجہ شہرت آپ کا شاعر اور کالم نگار ہونا تھا، لہذا یہ کہنا غلط ہو گا کہ آپ کی مقبولیت صرف حکومت سندھ کا حصہ بننے کی وجہ سے ہے۔ اب بھی آپ کے مداح، فین، اور آپ کے دوست و احباب وہی ہی ہیں جو وزارت میں آنے کے بعد اپ کے اور قریب بھی ہوئے۔ اپ ایک مخصوص حلقہ میں پہلے بھی مقبولیت رکھتے تھے۔ البتہ وزارت میں آنے کے بعد آپ کئی دفعہ اپنے بیانات اور سلپ آف ٹنگ کی وجہ سے میڈیا اور متعلقہ حلقوں میں متنازع بھی سمجھے گئے اور اس طرح شہرت کے ساتھ آپ بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بنے۔

شعبہ تعلیم میں جس قسم کی سنجیدگی اور مستقل مزاجی درکار تھی، وہاں پہ سنجیدہ حلقوں میں آپ پہ غیر سنجیدگی اور غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے تنقید بھی ہوئی اور ماہرین تعلیم کی جانب سے یہ تنقید بھی بجا تھی۔ عمومی طور پہ تعلیمی شعبے میں کسی مستقل پالیسی نہ بنا پانے اور نئی شارٹ ٹرم پالیسیوں میں عدم تسلسل اور متعلقہ شعبے کے ماہرین سے مشاورت نہ کرنے پہ ایک سنجیدہ حلقہ بھی آپ کا حقیقی نقاد ہے

عوامی حکومت آنے کے بعد سندھ میں یہ فیشن بھی عام ہوا کہ جب بھی سندھ میں تعلیم کی تنزلی پہ بات ہو تو صرف استاد کو ہی اس پورے نظام سے الگ کھڑا کر کے گالی دی جائے۔ اساتذہ کو تذلیل کی حد تک نیچا دکھانے میں باقاعدہ فنڈڈ پراجیکٹ کے تحت بھی کام کیا گیا تاکہ پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے پرائمری سے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا ٹھٹھا اڑا کر، ان کی تذلیل کر کے نجی شعبے میں بزنس کیمونٹی کے ہاتھوں چلنے والے تعلیمی اداروں کے منافع خور بزنس کی راہ ہموار کی جا سکے۔

افسوس کی بات یہ رہی کہ آپ بھی پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے اساتذہ کو گالی دینے والے اس فیشن کا شکار ہوئے اور پورے نظام کی درستگی والا مشکل اور کٹھن کام کرنے کی بجائے آپ نے بھی کمزور سیکشن کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماضی کی طرح اساتذہ کی بنیادی ٹریننگ کے ساتھ شعبے سے وابستہ کرپٹ ترین بیورو کریسی کو بھی شعبے سے ناجائز طریقوں سے کمانے کے بجائے تعلیم کے خواہشمند غریب عوام کی امید پہ پورا اترنے کے لیے ان کو کام کو خدمت سمجھ کر، خدمت گزاری پہ قائل کرنے کی کوشش کرتے اور پورے نظام کی درستگی کی طرف قدم بڑھاتے۔

اس سے زیادہ افسوسناک مقام یہ تھا کہ آپ کی طرف سے تعلیمی شعبے میں کسی بھی نئی پالیسی بناتے وقت ماہر تعلیم یا متعلقہ شعبوں سے منسلک افراد کو نظرانداز کر کے اس کی جگہ غیر متعلقہ یا کرپٹ افسر شاہی سے مشاورت کی جاتی رہی۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کریکولم ریفارم کمیٹیوں میں بھی متعلقہ شعبہ جات کی بجائے ذاتی تعلقات کی بنیاد پہ سول سوسائٹی کے غیر متعلقہ لوگوں کو شامل کیا جاتا رہا۔

میرا اس تمام تمہید باندھنے کا مقصد جس بنیادی مسئلے کی طرف آپ کا دھیان مبذول کروانا ہے، وہ یہ ہے کہ وزیر تعلیم ہونے کی حیثیت میں اور تیسری مرتبہ اس انتہائی اہم وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد آپ کا اس امر سے واقف ہونا ضروری تھا کہ اس وقت کالجوں میں متعلقہ شعبہ جات کے اساتذہ کی کمی کا نوٹس لیتے اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتے مگر آپ نے تین دفعہ وزارت تعلیم ہا قلمدان اپنے پاس رکھتے ہوئے بھی اپ اس امر سے ناواقف رہے کہ سندھ کے تمام کالجوں میں شعبہ فلسفہ کے اساتذہ غیر موجود ہیں۔ گزشتہ تیس سالوں سے ان کی تقرری نہیں کی گئی۔

اس خط تحریر ہونے تک، نہ آپ نے سندھ کے کالجوں میں شعبہ فلسفہ کے اساتذہ کی عدم موجودگی کا نوٹس لیا اور نہ ہی وہ کمی پوری کرنے کی کوشش کی۔

میں اپ کو یاد دلاتی چلوں کہ نہ صرف فلسفہ پڑھانے کے کیے سندھ کے کالجوں کے اندر اساتذہ کی موجودگی ضروری تھی، مگر قومی تعلیمی پالیسی 2017 کے مطابق غیر مسلم شاگردوں کو اسلامیات کے بدلے اخلاقیات لازمی مضمون کے طور پہ پڑھایا جائے گا۔

پالیسی میں صاف صاف لکھا گیا ہے کہ

”پرائمری سے کے کر اعلی تعلیمی سطح تک اخلاقیات ایک علیحدہ مضمون کے طور پہ پڑھایا جائے گا۔“ (سیکشن 5.3.3 )

وہ مضمون کون پڑھائے گا تعلیمی پالیسی میں اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔ کہ ہائر ایجوکیشن میں فلسفہ کے استاد ہی اس کو پڑھائیں گے۔

”Philosophy teachers will be responsible for teaching Ethics at the higher education level.“ (Section 5.2.3)

جبکہ پرائمری سطح پہ وہ استاد پڑھائیں گے جو باقاعدہ (اس مضمون) اخلاقیات میں تربیت یافتہ ہوں۔

”Trained teachers with expertise in Ethics will be appointed to teach the subject at all levels.“ (Section 5.2.3)

سردار شاہ صاحب،

وزارت تعلیم کا قلمدان تیسری مرتبہ آپ کے پاس ہے، ۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سندھ میں غیر مسلم کی لازمی مضمون اخلاقیات پڑھانے کی طرف ابھی تک آپ کی وزارت و افسرشاہی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی مجھے اس ضمن میں کوئی پیش قدمی نظر نہیں اتی کہ کالجوں میں اخلاقیات پڑھانے لے لیے شعبہ فلسفہ کے اساتذہ کی مقرری کی گئی ہو یا اسکولوں میں اخلاقیات پڑھانے کے لیے شعبہ فلسفہ کے اساتذہ سے کوئی تربیتی ورکشاپ وغیرہ کا کام لیا گیا ہو

آپ کو شاید متعلقہ افسرہ شاہی میں سے کسی نے نشاندہی کر کے نہ بتایا ہو کہ اس وقت صوبہ سندھ کے پبلک سیکٹر کے کسی بھی کالج میں فلسفہ کا کوئی استاد موجود نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ تیس سال سے شعبہ تعلیم نے فلسفہ کے استاد کی مقرری کے لیے کوئی اشتہار نہیں دیا۔

یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ خالص حکومت سندھ کی ذمے داری تھی کہ وہ محکمہ تعلیم کو مکمل صوبائی خودمختاری کے تحت سندھ حکومت کی ماتحتی آنے کے بعد ایک نئی تعلیمی پالسی وضع کرتے۔ جس میں اس امر کا جائزہ لیا جاتا کہ آنے والے دس بیس سال تک ہمیں تعلیم و تربیت کے حوالے سے کون سے بنیادی شعبوں میں کام کرنا لازم ہو گا جس سے آئندہ آنے والی نسل اتنی تو تعلیم یافتہ ہو کہ سائنسی و سماجی اقدار کی بنیاد پہ سماج کی تشکیل نو کر سکے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پیپلز پارٹی میں وڈیرہ شاہی کلٹ نے تعلیم کی بنیادی ضرورتوں کی طرف اور اس کی تشکیل نو کے کیے کسی پالیسی کا مرتب کرنا ضروری نہیں سمجھا اور دوسری جانب نوکری پیشہ متوسط طبقہ بھی روایتی خوشامدی کے باعث اس حقیقی تنقید سے گریزاں رہا جس میں حکومت میں شامل افراد کے بجائے حکومتی پالیسیوں پہ تنقید کرتا۔

ہاں مگر آپ سے توقع تھی کہ آپ چونکہ اس روایتی پس منظر رکھنے کے بجائے خود بھی ترقی پسند فکر کے حامل سمجھے جاتے ہیں اور روایتی نمائندگان پارلیمنٹ کے مقابلے میں سول سوسائٹی میں خاصے مقبول ہیں اس لیے آپ خود بھی ہوم ورک کریں کے اور شعبہ میں موجود بنیادی ادارتی و فکری کمی بیشیوں کا جائزہ بھی لیں۔ یاد رکھیں کہ کہ فرنچ فلسفی التھیوزے نے تعلیم اور نصاب کو کو ریاست کا بنیادی آلہ سمجھتے ہوئے اسے ریاست کی تشکیل میں بنیادی ستون کی حیثیت سے دیکھا کہ اس نصاب و تدریس سے ریاست کی فکری تشکیل کی جاتی ہے۔

ایک ترقی پسند، روادار سماج میں فکری آبیاری کے لیے سندھ میں نئی جامع تعلیمی پالیسی کا انعقاد ضروری تھا۔ اپ اس امر سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ جنرل ضیا کے دور میں جماعت اسلامی نے ضیا الحق کی قائم کردہ مجلس شوری میں جو بنیادی وزارتیں مانگی تھیں ان میں وزارت تعلیم سر فہرست تھی کیونکہ جماعت ریاست کی تشکیل جماعتی بنیادوں پہ چاہتی تھی اور یہاں سے نصاب کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔

اٹھارہویں ترمیم نے یہ موقعہ البتہ سندھ اور دیگر صوبوں کو ضرور فراہم کیا کہ اب تعلیمی پالیسی کو از سر نو ترتیب دے سکیں تاکہ تدریسی نصاب ترقی پسند فکر اور رواداری کی نمائندگی کرے۔ سندھ کے کالجوں میں جز شعبہ فلسفہ کے فعالیت کے ساتھ ساتھ غیر مسلم طلبہ کو اخلاقیات کی لازم تعلیم نہ دینے کے حوالے سے مسلسل بے دھیانی نے مجھے مجبور کیا کہ براہ راست آپ سے میڈیا کے ذریعے مخاطب ہوں کہ کئی دفعہ آپ سے اس سلسلے میں آفیشلی ملاقات کا وقت مانگنے کے باوجود ابھی تک کسی مثبت جواب سے محروم رہی۔

سندھ کے کالجوں میں فلسفہ کے استادوں کی عدم موجودگی میرا ذاتی مسئلہ نہیں لیکن شعبہ کے حوالے سے تمام اساتذہ کی جانب سے سندھ یونیورسٹی میں فلسفہ شعبہ کے بورڈ آف اسٹڈیز سے کچھ سال پہلے یہ مطالبہ سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر و وزیر تعلیم سے کیا گیا تھا کہ سندھ کے تمام کالجوں میں فلسفہ اور غیر مسلم کو اخلاقیات پڑھانے کے لیے فلسفہ کے اساتذہ مقرر کیے جائیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ آپ کی طرف سے مثبت جواب نے ملنے کے کیا اسباب تھے مگر وائس چانسلر کی جانب سے یہ جواب موصول ہوا کہ کالجوں میں اساتذہ کی تقرری چونکہ حکومت سندھ اور وزارت تعلیم کا کام ہے لہذا ہم ان کو اپنی طرف سے کوئی درخواست بھیجنے کے مجاز نہیں ہیں۔

ڈیڑھ سال پہلے شعبہ فلسفہ کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کا ایک اشتہار آیا تھا مگر اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں کئی دفعہ دیگر شعبہ جات کے لیکچرار مقرر کیے گئے مگر اس گمشدہ اشتہار میں اپلائے کرنے والوں کی لیے کبھی کوئی ٹیسٹ یا انٹرویو کی کال نہ آ سکی۔

اس کھلے خط کے ذریعے وزیراعلی سندھ جناب مراد علی شاہ، وزیرتعلیم سندھ جناب سردار علی شاہ اور سندھ کے تمام متعلقہ لوگوں کے سامنے شعبہ فلسفہ اور غیر مسلم کو اخلاقیات پڑھانے کے کیے فلسفہ کے استاد مقرر نہ کرنے کے حوالے سے یہ بات رکھنا چاہتی ہوں کہ اگر آپ سندھ میں سماجی و تنقیدی شعور کے حوالے سے تشکیل نو کو غیر اہم سمجھتے ہوئے فلسفہ کے مضمون کو پبلک سیکٹر اسکولوں اور کالجوں میں دیکھنا نہیں چاہتے یا آپ غیر مسلم طلبہ کو اخلاقیات کا مضمون شعبہ فلسفہ کی بجائے اسلامیات کے استاد سے ہی پڑھانے کے لیے بضد ہیں تو جی بسم اللہ پھر اس ضمن میں یہ میری پہلی اور آخری گزارش ہوگی۔

مگر آپ کے سامنے ایسی کوئی وجہ نہیں تو پھر یونیورسٹی آف سندھ میں شعبہ فلسفہ کی چیئر پرسن کی حیثیت سے میں وزیراعلی سندھ جناب مراد علی شاہ، وزیر تعلیم سندھ جناب سردار علی شاہ اور سیکریٹری تعلیم کالجوں جناب ساجد جمال ابڑو صاحب، آپ سب سے سندھ کے تمام کالجوں میں غیر مسلم طلبہ کو اخلاقیات کے مضمون پڑھانے اور فلسفہ کا مضمون پڑھانے کے لیے گزارش کرتی ہوں کہ جلد از جلد اس امر کو یقینی بنیا جائے کہ سندھ کے تمام کالجوں میں غیر مسلم طلبہ کو اخلاقیات کا مضمون اسلامیات والے اساتذہ کی بجائے فلسفہ کے استادوں کی مقرری ہو اور فلسفہ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی دیگر شعبوں کی طرح فلسفہ کا استاد میسر ہو۔

امید کرتی ہوں کہ اس کھلی گزارش کو نظرانداز کرنے کی بجائے خط میں موجود حقائق پہ صدق دل سے غور کیا جائے گا اور اس کو ایماندارانہ طور حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جلد از جلد شعبہ فلسفہ کے اساتذہ کی مقرری کا اشتہار دیا جائے اور ہر کالج کے اندر شعبہ فلسفہ کا کم ازکم ایک استاد ضرور مقرر کیا جائے گا۔

بصد احترام
امر سندھو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments