پاکستان کا پریشان، بدحال اور ناکام شہری
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عمران خان کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے۔ حالات و واقعات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ دو روز پہلے آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک سوال کے جواب میں اس طرف بالواسطہ اشارہ کیا تھا تاہم وزیر دفاع نے کھل کر وہی بات کی ہے۔
خواجہ آصف کا یہ انٹرویو اتوار کو اسلام آباد میں تحریک انصاف کے جلسہ کے انعقاد سے ایک روز پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں سامنے آیا ہے۔ اس جلسہ کی اجازت کے لیے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے کڑی شرائط عائد کی تھیں اور پارٹی سے ضمانتیں طلب کی گئی تھیں تاہم ان تحریری وعدوں کے باوجود جلسہ کی دھوم مچانے کے لیے جو لب و لہجہ تحریک انصاف کے مختلف لیڈروں اور خاص طور سے خیبر پختون خوا میں حکومتی ترجمانوں کی طرف سے دیکھنے میں آیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف آج کے جلسہ کو اپنی عوامی حمایت کا بڑا پاور شو بنانا چاہتی ہے۔ خواجہ آصف نے ایک دن پہلے فوجی عدالت میں ٹرائل کے بارے میں عمران خان کے ’اندیشوں‘ کو درست قرار دے کر درحقیقت 8 ستمبر کے جلسہ میں مقررین کو نیا موضوع دیا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ خواجہ آصف جیسے جہاں دیدہ سیاست دان کی طرف سے یہ طریقہ جان بوجھ کر اختیار کیا گیا ہے تاکہ تحریک انصاف کے لیڈر شعلہ بیانی میں کوئی غلطی کریں اور حکومت کو ان پر ہاتھ ڈالنے کا موقع ملے یا اب حکومت کے پاس عمران خان کے سیاسی چیلنج سے نمٹنے کا واحد راستہ تصادم کو ہوا دے کر ریاستی طاقت کے ذریعے مخالف سیاسی قوت کو دبانا ہے۔ البتہ یہ دونوں طریقے ناپسندیدہ اور معروضی حالات میں ملک کے وسیع تر مفادات کے خلاف ہیں۔
حکومت کو اس وقت حقیقی چیلنج تحریک انصاف کی بجائے ملکی معاشی حالات کی خرابی سے لاحق ہے۔ اگرچہ سخت مالی اقدامات کے نتیجے میں افراط زر میں کمی واقع ہوئی ہے اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن بجلی، گیس و فیول کی ناقابل برداشت قیمتوں کی وجہ سے عام شہری تک اس کے ثمرات نہیں پہنچ پا رہے۔ اسے یوں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی گھر کے مصارف قیمتوں میں کمی وجہ سے پانچ فیصد کم ہوئے ہیں لیکن بجلی و گیس کے بلوں کی وجہ سے تیس چالیس فیصد بڑھ گئے ہیں تو اس خاندان کو مہنگائی میں کمی دکھائی نہیں دے سکتی۔ اب حکومت اپنی مالی کامیابی کے خواہ کیسے بھی دعوے کرے اور پروپیگنڈے کا جو بھی ذریعہ اختیار کیا جائے لیکن اعداد و شمار کے باوجود لوگ مہنگائی میں کمی کے دعوؤں کو جھوٹ اور سیاسی ہتھکنڈا ہی سمجھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو مجموعی معاشی و سماجی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت اس مقصد میں کامیاب نہیں ہے۔ نجکاری سے لے کر بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں (آئی پی پی) کے ساتھ کسی قابل عمل معاہدے میں ناکامی سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔
امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر اور عالمی شہرت یافتہ معاشی ماہر میاں عاطف نے اس بارے میں سنگین صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’پیچیدہ مسائل کی موجودہ صورت حال میں پاکستانی معیشت غیر معمولی معاشی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے‘۔ انہوں نے ملک پر قرضوں کے بوجھ، پنشن کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں اور انرجی سیکٹر کے بحران کو پاکستان کے معاشی مسائل کی بنیاد قرار دیا۔ ان پر قابو پائے بغیر ملکی معیشت زوال پذیر رہے گی۔ اس قسم کے سنجیدہ اور پریشان کن انتباہ کے باوجود پاکستانی حکومت کا واحد ہدف آئی ایم ایف سے معاہدہ کے ذریعے فوری ریلیف اور سیاسی سپیس کا حصول ہے۔ آئی ایم ایف ابھی تک اس معاہدہ کی توثیق کرنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے حکومت عبوری اقدامات ہی کو کافی سمجھتی ہے جن میں بالواسطہ محاصل کی وصولی اور دوست ممالک سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کے لیے دی گئی رقوم کے رول اوور کی کوششیں شامل ہیں۔
تاہم حقیقی معاشی اہداف حاصل کرنے کے لیے ملک میں امن و امان، سیاسی بحران میں کمی اور صوبائی سطح پر احساس محرومی میں ختم کرنے کی بجائے ان اہم موضوعات کو قومی سیاسی نعرے بازی کا حصہ بنا کر انہیں طاقت کے زور پر حل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ آرمی چیف ہر قیمت پر ’سرکش‘ عناصر کی سرکوبی چاہتے ہیں اور حکومت کسی لاچار یتیم کی طرح فوج کے اس حل کو قبول کرنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ ملک کے سیاسی لیڈروں میں اتنی فہم ہونی چاہیے کہ سیاسی بے چینی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر پیدا ہونے والی شکایات کو ریاستی طاقت سے دبایا تو جاسکتا ہے لیکن انہیں حل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت اس وقت بلوچستان اور خیبر پختون کی صورت حال سے قطعی طور سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح فوج کو معاملات اپنے طریقے سے طے کرنے کے لیے فری ہینڈ ملا ہوا ہے۔ حالانکہ قومی اسمبلی سے سردار اختر مینگل کے استعفے اور اجلاس میں مولانا فضل الرحمان کی تقریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسائل کو طاقت کے زور پر حل کرنے کا وقت نکل چکا ہے۔ اب لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ہمدردی سے ان کی باتیں سننے کی ضرورت ہے۔ مطالبات کو کسی تعصب اور خود ساختہ قومی شناخت کے پیمانے پر رکھ کر پرکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
وسیع تر قومی سلامتی اور معاشی ضرورتوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو لاپتہ افراد کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے بارے میں ایک اعلان، اعتماد اور نئے آغاز کا ایک ممکنہ نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ دو دہائی سے قومی ایجنسیاں غیرقانونی طور سے بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں مختلف سرگرمیوں میں ملوث افراد کو اٹھانے، تشدد کرنے اور انہیں لاپتہ رکھنے یا ہلاک کرنے کی غیرعلانیہ پالیسی پر عمل کر رہی ہیں۔ عوام کے علاوہ عدلیہ بھی اس طریقہ کو مسترد کر چکی ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف یہ طریقہ قومی سلامتی کے نام پر جاری رکھا گیا ہے بلکہ پنجاب اور سندھ میں سیاسی مخالفین کے خلاف بھی اس طریقے کو استعمال کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ریاست، حکومت یا کسی ادارے کی جانب سے اس بارے میں کبھی کسی شرمندگی یا غلطی کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ یہ تو قابل فہم ہے کہ طاقت کے زور پر مسائل حل کرنے کی تربیت پانے والی فوج کو یہ طریقہ ہی سب سے موثر اور مناسب لگتا ہے لیکن ملکی سیاسی حکومت کیوں اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھنے اور اسے فوج کے ساتھ تعاون کے لیے بنیادی شرط کے طور پر پیش کرنے میں ناکام ہے؟
اس کی ایک وجہ سیاسی فہم و فراست کی کمی اور دوسری بہر صورت اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس ہے۔ اس کا مظاہرہ وزیروں کے بیانات اور سیاسی اشتعال انگیزی میں اضافے کی کوششوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کی طرف سے بھی ایسا ہی جوشیلا مگر بے مقصد طرز عمل اختیار کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں صرف تحریک انصاف کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیوں کہ اس پارٹی کو بہر حال 8 فروری کے انتخابات میں کامیابی کا گمان ہے۔ اس دعوے یا غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ملک کا انتخابی نظام مناسب جواب فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انتخابات کو مسلسل ایک سنگین مسئلہ بنایا ہوا ہے حالانکہ پاکستان کی تقریباً سب ہی بڑی سیاسی پارٹیاں شخصیت پرستی کی بنیاد پر کام کرتی ہیں اور فرد واحد کے احکامات ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن ٹریبونلز بھی انتخابی شکایات میں فیصلے دینے میں ناکام ہیں۔ اگر انتخابات کے انعقاد کے فوری بعد انتخابی اپیلوں پر فیصلے نہیں کیے جا سکتے تو یہ انتخابی نظام کی افسوسناک ناکامی ہے لیکن حکومت سپریم کورٹ کے حکم کو غیر موثر کرنے کے لیے تو الیکشن ایکٹ میں فوری ترمیم کر لیتی ہے لیکن انتخابی شکایات کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
تحریک انصاف کی ناراضی و پریشانی سے قطع نظر دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاسی ماحول میں بے یقینی اور بحران پیدا کرنے میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی تندہی سے کردار ادا کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں ناکامی کا سارا بوجھ اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتے ہوئے، اب مذہب اور احمدیوں کے خلاف مہم جوئی کو اہم سیاسی ہتھکنڈا بنایا ہوا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں ایک طرف دین کا نام لیتی ہیں اور ملک میں حقیقی جمہوریت کا مطالبہ کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے ہتھکنڈے تمام جمہوری و انسانی روایات سے متصادم ہیں۔ ایک چھوٹی سی اقلیت کے خلاف مہم جوئی سے اشتعال و خرابی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا لیکن حب الوطنی اور اپنا خون دے کر پاکستان کی حفاظت کرنے کے دعوؤں کے باوجود محض انفرادی سیاسی فائدے کے لیے یہ ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے قومی سلامتی کا نام لے کر عمران خان کا فوجی ٹرائل کروانے کی خواہش کا اظہار بھی اسی عاقبت نااندیشی کا عملی مظاہرہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان اس وقت سیاسی بحران اور معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ خواجہ آصف کا دعویٰ ہے کہ ’عمران خان کے اقتدار سے بے دخلی کے بعد فیض حمید بھی سویلین ہو گئے تھے۔ پھر دونوں نے ملک پر قبضے کا جو کوشش کی وہ ناکام ہوئی۔ جب بغاوتیں ناکام ہوتی ہیں تو پھر کیا ہوتا ہے؟‘ یہ سوال کرتے ہوئے درحقیقت ملک کا وزیر دفاع سب سے مقبول سیاسی لیڈر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کر رہا ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا یا حکومت کا یہ عزم ملکی معیشت کو میاں عاطف کے الفاظ میں پاتال کی طرف دھکیل رہا ہے۔ یا عالمی ادارے اور دوست ممالک اسی بے یقینی کی وجہ سے موجودہ متزلزل حکومت کو مالی تعاون فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ نعروں اور الزامات کے اس ماحول میں ملک کا عام شہری پریشان، بدحال اور ناکام ہے۔
حکومت، اپوزیشن اور فوجی قیادت کو یکساں طور سے سمجھنا چاہیے کہ ملک کے شہری جب اپنے ہی ملک پر بھروسا کرنے سے گریز کرنے لگیں تو ایسا ملک اپنے ہونے کا جواز کھوتے دیر نہیں لگاتا۔ بحران میں نوشتہ دیوار پڑھنے سے انکار کیا جائے تو پھر پشیمانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ پاکستان کو اس پچھتاوے سے بچنے کی ضرورت ہے۔
- سپریم کورٹ کا درست قانونی فیصلہ - 04/10/2024
- مشرق وسطیٰ میں ناکام امریکی پالیسی - 03/10/2024
- ایران کا جوابی حملہ اور مشرق وسطی میں جنگ کے گہرے بادل - 02/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).