یوکرین جنگ اور یورپ کا مستقبل ( 1 )


تاریخ ہمیشہ خط منحنی کی طرح آگے بڑھتے ہوئے نوع انسانی کو نت نئے واقعات سے حیرت زدہ کرتی رہی، یوکرین جنگ سے متعلق یورپ کی بے بسی اور ٹیکنالوجیکل طاقت کی حامل جدید ترین ریاستوں کی بے ثباتی ہمیں اِس سچائی کی یاد دلاتی ہے۔ یوکرین جنگ کے آشوب سے نکلنے کی خاطر مغربی قوتوں نے مشرق وسطی میں عالمی جنگ برپا کرنے کی کوشش بھی کی جو غزہ میں انسانی المیوں اور ایران میں اسماعیل ہانیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے باوجود تاحال منصّہ شہود پہ نمودار نہ ہو سکی۔

موسم سرما میں یوکرین کی جنگ تیسرے سال میں داخل ہونے کے بعد خود کیف کی سلامتی کے ساتھ ساتھ عظیم یورپ کے مستقبل کے لئے تباہ کن اسباب مہیا کر سکتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اگرچہ یوکرینی افواج نے بحیرہ اسود سے روسی بحری بیڑے کو کچھ پیچھے دھکیل دیا مگر وہ روس کے گہرے دفاعی نظام کو توڑنے میں ناکام رہی۔ یوکرین کے پاس بتدریج کم ہوتی افرادی قوت اور گولہ بارود کی شدید کمی کے ساتھ ناقص فرنٹ لائن قلعہ بندی اور فضائی دفاع کے لئے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی قلت کے علاوہ داخلی سیاسی انتشار بھی کیف کو رفتہ رفتہ موت کی وادی میں اتار رہا ہے، قرائن بتاتے ہیں کہ یوکرین کا سقوط روس کو پورے مغربی یورپ کو مسخر کرنے کا موقعہ فراہم کرے گا۔

فروری میں، روسی افواج نے مشرقی یوکرین کے شہر ایودیوکا (Avdiivka) پر قبضہ کرنے کے بعد سے پیشقدمی جاری رکھی ہوئی ہے، جس سے چاسیویار جیسے دیگر اسٹریٹجک شہر بھی بہت جلد روسی تسلط میں جانے والے ہیں۔ زیلنسکی حکومت کی آئینی مدت اسی سال مئی میں ختم ہو چکی ہے تاہم ملک میں مارشل لاء نافذ ہونے کی وجہ سے زیلنسکی استبدادی طرز عمل کے ذریعے داخلی تضادات پہ قابو پا کر اپنے اقتدار کو دوام دینے میں سرگرداں ہے، جس سے پچھلے چند دنوں کے دوران کم از کم سات وزراء مستعفی اور ایک صدارتی معاون کو برطرف کیے جانے کے بعد کابینہ میں بڑا پیمانے کے رد و بدل کی تیاریاں جاری ہیں۔

بدھ کی صبح مستعفی ہونے والوں میں وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا بھی شامل تھے، جنہوں نے ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ مل کر مغربی حمایت برقرار رکھنے کی مہمات میں نمایاں کردار ادا کیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ نائب وزیر خارجہ اندری سیبیہا ان کی جگہ لینے کے لیے سب سے موزوں امیدوار ہیں، اسی طرح وزیر برائے اسٹریٹجک انڈسٹریز اولیکسینڈر کا مشین، نائب وزیر اعظم اولہا سٹیفانیشینا، انصاف، ماحولیات اور انضمام کے وزراء سمیت یوکرین کے اسٹیٹ پراپرٹی فنڈ کے سربراہ وٹالی کوول نے بھی استعفی دے دیا۔

زیلنسکی، جو پہلی بار 2019 میں منتخب ہوئے تھے، نے گزشتہ ہفتے اشارہ دیا کہ اس نے بڑی تبدیلی کا منصوبہ بنا لیا، شام کے خطاب میں انہوں نے تبدیلی کے تقاضوں کا اعادہ کرتے ہوئے قوم کو بتایا کہ ریاستی اداروں کو مربوط ہونا چاہیے تاکہ یوکرین وہ تمام مقاصد حاصل کر سکے جن سے ہماری بقاء وابستہ ہے، چونکہ ملک کے مستقبل کے لئے خزاں اہم ہو گا اسی لئے حکومتی شعبوں کو مضبوط بنانے کی خاطر ہمیں ان کی ہیئت میں کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

اسی طرح ایوان صدر کی ویب سائٹ پر ایک حکم نامہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کو سنبھالنے والے ڈپٹی چیف آف سٹاف روسٹسلاؤ شورما کو بھی برطرف کر دیا گیا۔ اِس وقت کابینہ میں تقریباً ایک تہائی عہدے خالی پڑے ہیں، حکمران جماعت کے سینئر قانون ساز ڈیوڈ اراکامیا نے میڈیا کو بتایا کہ کابینہ کے آدھے سے زیادہ وزراء کی تبدیلی کا امکان ہے۔ زیلنسکی نے فروری 2022 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے کابینہ میں کئی بار ردّ و بدل کیے ۔

گزشتہ ستمبر میں، اس نے انسداد بدعنوانی کے سلسلے میں اپنے وزیر دفاع کو برطرف کرنے کے علاوہ حال ہی میں میدان جنگ میں ناکامیوں کے باعث فوج کے اعلیٰ کمانڈر کو ہٹا دیا۔ اس سال کے شروع میں وزراء کے برطرف یا مستعفی ہونے کے بعد سے کم از کم پانچ ڈیپارٹمنٹ خالی پڑے ہیں، جن میں زراعت اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم محکمے شامل ہیں۔ حزب اختلاف کی قانون ساز ایرینا ہیراشینکو نے کہا وزیروں کے بغیر حکومت کو ماہر عملہ کا بحران درپیش ہے جس پر حکام نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

انہوں نے ایسی قومی حکومت بنانے کا مطالبہ کیا جو زیلنسکی کی سیاسی ٹیم کے زیر قبضہ، اقتدار کی باگ ڈور پر، سخت گرفت کو ختم کر سکے۔ یہ ہلچل مشرقی محاذ پر پیش قدمی کرنے والی روسی افواج کے خلاف جنگ کے ایسے موڑ پر سامنے آئی جب روس کی طرف سے ایٹمی نظریہ میں بنیادی تبدیلیوں کے اشاروں نے امریکہ سمیت یورپی ممالک کے عزائم کو نکیل ڈال دی، زیلنسکی اسی ماہ امریکہ کا سفر کرنے والے ہیں، جہاں وہ اہم اتحادی صدر جُوبائیڈن کو اپنی ”فتح کے منصوبے“ کا خاکہ پیش کریں گے۔

روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کے حوالے سے بتایا گیا کہ روس یوکرین کی جنگ میں مغربی مداخلت کے ردعمل کے طور پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اپنے نظریے میں ترمیم کر رہا ہے۔ یہ تبصرے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے جب روس، یوکرین کی طرف سے مغربی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے، روسی شہر کرسک میں دراندازی کے خلاف لڑ رہا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے آخری بار جون 2020 میں ملک کے چھ صفحات پہ مشتمل جوہری نظریہ پر دستخط کر کے اسے ریاست کی باضابطہ جوہری پالیسی کا بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ روس جوہری ہتھیاروں کو خصوصی طور پر ڈیٹرنس کا ذریعہ سمجھنے کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو ”انتہائی اور مجبور اقدام“ سمجھتا ہے۔

اسی دفاعی پالیسی میں دراصل جوہری ہتھیاروں سمیت فوجی طاقت کے ذریعے روس کے خلاف ہر قسم کی جارحیت کی روک تھام پر زور دیا گیا۔ یعنی اس جوہری نظریہ کے تحت، روس اپنے یا اس کے اتحادیوں کے خلاف جوہری اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر اقسام کے ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں بھی جوہری ہتھیار استعمال کرے گا، مزید برآں، جب ریاست کا وجود خطرے میں ہو تو پھر وہ انہیں روایتی ہتھیاروں کے ساتھ روس کے خلاف جارحیت کرنے والوں کے خلاف بھی استعمال کر سکتا ہے۔

وزیر ریابکوف نے کہا کہ جوہری نظریے کو تبدیل کرنے کا فیصلہ ہمارے مغربی مخالفین کی بڑھتی ہوئی جارحیت سے منسلک ہے۔ اگست کے آخر میں، یوکرین نے تصدیق کی کہ اس نے کرسک حملے میں امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیار استعمال کیے ، ماہرین کہتے ہیں کہ کریملن کی طرف سے بارہا ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیوں اور بیان بازیوں کا مقصد جنگ میں مغربی مداخلت کو روکنا ہو سکتا ہے۔ اسی لئے مارچ 2023 میں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ سرد جنگ کے بعد موجودہ حالات میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔

24 فروری 2022 کو جب پوتن نے یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن کا اعلان کیا تو اس نے کہا تھا کہ روس کو جدید ترین قسم کے ہتھیاروں سے کچھ فوائد حاصل ہوئے ہیں، انہوں نے مزید کہا، جو بھی ہمیں روکنے کی کوشش کرے اور ہمارے ملک یا ہمارے لوگوں کو دھمکی دیتا ہے، اسے جان لینا چاہیے کہ روس کا ردعمل فوری ہو گا، وہ آپ کو ایسے نتائج کی طرف لے جائے گا جن کا سامنا آپ نے اپنی تاریخ میں کبھی نہیں کیا ہو گا۔ ستمبر 2022 میں، پوتن نے کہا، اگر ہمارے ملک کی علاقائی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو بلاشبہ ہم اپنے ملک اور لوگوں کی حفاظت کی خاطر تمام دستیاب وسائل استعمال کریں گے، کچھ دنوں بعد ، انہوں نے پھر کہا کہ امریکہ نے 1945 میں جاپان پر دو ایٹم بم گرا کر ایک مثال قائم کر رکھی ہے۔

فروری 2023 میں، روس نے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اُس نیو سٹارٹ معاہدے میں اپنی شرکت کو معطل کر دے گا، جس میں ہر طرح کے جوہری وار ہیڈز کی تعداد کو محدود کیا جانا شامل ہے۔ مارچ 2023 میں، روس نے کہا کہ اس نے یوکرین کی سرحد سے منسلک اپنے اتحادی بیلاروس کے ساتھ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تنصیب کے معاہدہ کر لیا ہے، اسٹریٹیجک جوہری ہتھیاروں کے برعکس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار میدان جنگ میں قریبی لڑائی کے دوران استعمال کیے جاتے ہیں۔

اکتوبر 2023 میں، پوتن نے پھر کہا، ہمیں جوہری نظریہ میں ترمیم کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر کسی دوسرے ملک نے جوہری ہتھیاروں سے حملہ کیا تو روس سینکڑوں جوہری ہتھیاروں کے ساتھ صرف ایک سیکنڈ میں جواب دے گا۔ فروری 2024 میں، پوتن نے ایک جدید Tu۔ 160 M جوہری صلاحیت کے حامل اسٹریٹجک بمبار طیارے پر مختصر پرواز کے بعد مغربی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا، اگر انہوں نے یوکرین میں لڑنے کے لیے فوج بھیجی تو اِس طرح وہ جوہری جنگ کو ہوا دے سکتے ہیں۔ مارچ 2024 میں، جب پوتن سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا روس جوہری جنگ کے لیے تیار ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا ”فوجی تکنیکی نقطہ نظر سے، ہم یقیناً تیار ہیں لیکن روس نے کبھی بھی یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت محسوس نہیں کی“ ۔ جاری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments