آئی سی 814: نیٹ فلیکس کا ڈرامائی سلسلہ
’بازارِ یوٹیوب‘ کے اگر پھیرے لگاتے رہیں تو وہ جان لیتا ہے کہ آپ کن موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میرے بارے میں بھی یہ پلیٹ فارم دریافت کرچکا ہے کہ مجھے بھارتی میڈیا میں زیر بحث آئے موضوعات کے بارے میں صحافیوں کے ایک مخصوص گروہ کے خیالات جاننے کی خواہش لاحق ہے۔ یہ صحافی میری نگاہ میں اندھی نفرت وعقیدت والی تقسیم سے بالاتر رہتے ہوئے معاملات کو روایتی صحافت کے متعارف کردہ زاویوں ہی سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند موضوعات مگر ایسے ہیں جن کے بارے میں ان کا رویہ ڈھٹائی کی حد تک متعصبانہ رہتا ہے۔ یہ لکھنے کے بعد یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان ایسے موضوعات میں سرفہرست ہے۔
ایسے ہی صحافیوں نے گزشتہ چند دنوں میں روایتی میڈیا اور اپنے یوٹیوب چینلوں کے جو شوز کیے ان میں دسمبر1999ء میں نیپال سے بھارت جاتے ایک جہاز کی ہائی جیکنگ پر نیٹ فلیکس کے لیے 6قسطوں پر مشتمل ڈرامائی سلسلہ "IC814” سخت تنقید کی زد میں رہا۔ اسے بنانے والوں پر الزام ہے کہ انھوں نے مذکورہ ہائی جیکنگ کا حقیقی ذمہ دار اسامہ بن لادن کے وفاداروں کو ٹھہراتے ہوئے درحقیقت پاکستان کی ’آئی ایس آئی‘ کو اس معاملہ سے تقریباً لاتعلق بتانے کی کوشش کی ہے۔ اسامہ ان دنوں افغانستان ہی کے شہر قندھار میں قیام پذیر تھا۔ ’مہمان مجاہد‘ کہلاتے اس کے پیروکار غیر ملکی تبصرہ نگاروں کی نگاہ میں طالبان اور ان کے ’امیر المومنین‘ ملاعمر کے متوازی ریاست چلارہے تھے جس کا مقصد ’اسلام کی بالادستی‘ کو افغانستان تک ہی محدود نہیں رکھنا تھا۔
"IC814” کی بدولت نمایاں ہوئے کلیدی پیغامات کو جھٹلانے کے لیے بھارت کے کئی نامور صحافیوں نے 1999ء میں اہم حکومتی اور سفارتی عہدوں پر فائز افراد کے یکے بعد دیگرے انٹرویو کیے۔ اہم ترین مگر اس تناظر میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ رہے اے ایس دلت کا ایک طویل انٹرویو تھا جو اس نے معروف صحافی برکھادت کو دیا۔ برکھادت اور چند دیگر صحافیوں کی جانب سے "IC814” میں دکھائے واقعات کی جارحانہ تردید ومذمت نے مجھے حیران کر دیا۔
جہازوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہوئی ہائی جیکنگ کے واقعات پر مبنی دنیا بھر میں بے تحاشا فلمیں بنائی گئی ہیں۔ حقیقی زندگی سے مستعار لیے واقعات کو ’ڈرامائی‘ بنائے بغیر ناظرین کی توجہ حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حقائق تک محدود رہنے کے لیے دستاویزی فلم کے ہنر ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور اس ہنر پر گرفت بہت کم لوگوں کو میسر ہے۔ دستاویزی فلمیں عموماً حکومتیں یا خفیہ ایجنسیاں اپنی پبلسٹی کے لیے مشہور ہدایت کاروں سے بنواتی ہیں۔ ان کا سکرپٹ لکھنے سے قبل لکھاری اور ہدایت کار کو ’حساس ترین معلومات‘ تک رسائی فراہم کرنے کے علاوہ اس ’ثقافت‘ سے بھی روشناس کروانے کی کوشش ہوتی ہے جو کسی خفیہ ایجنسی کے دفتر یا کارندوں کا روزمرہ بن جاتی ہے۔ اس تناظر میں میری دانست میں اسرائیل کی ’موساد‘ نے جن فلموں یا ڈرامائی سلسلوں کی سرپرستی کی وہ بہت کامیاب رہیں۔ امریکا کے ایچ بی او کے لیے بنائی ’ہوم لینڈ‘ سیریز بھی اس حوالے سے کافی متاثر کن تھی۔ اسامہ بن لادن کے خلاف ہوئے آپریشن پر مبنی فلم ’زیرو ڈارک 30‘ مگر سی آئی اے کی تمام تر معاونت کے باوجود ’اٹھ‘ نہیں پائی۔
"IC814″سے بھٹکنانہیں چاہتا۔ اس کی ’مذمت‘ میں ہوئے انٹرویو وغیرہ سنے تو طویل عرصے کے بعد اپنے کمرے میں نصب ٹی وی کو چلانا پڑا۔ بیٹی کی مدد سے نیٹ فلیکس کے ’ہوم‘ پر گیا تو ایک ہی رات میں اس کی تمام اقساط دیکھ لیں۔ اتفاق یہ بھی ہوا کہ اس سے قبل بھی بھارت ہی کے ایک ہدایت کار کی نیٹ فلیکس کے لیے بنائی فلم دیکھنے کو مجبور ہوا تھا۔ وجہ اس کا عنوان تھا۔ جو ’ہیرا منڈی‘ مگر اس میں دکھائی گئی تھی وہ قیام پاکستان سے چند ہی برس قبل والے لاہور کے ماحول کی حقیقی ترجمانی کرتی دکھائی نہ دی۔
"IC814″’ ہیرامنڈی‘ کے برعکس سادہ اور حقیقت کے قریب رہنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسے بنانے والوں نے میرے خیال میں اغوا ہوئے جہاز کے کپتان اور اس کے معاون عملے کی یادداشتوں پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے ایک انسانی کہانی بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی باعث جہاز اغوا کرنے والے انتہائی سخت گیر رو یہ اختیار کرنے کے باوجود ناظرین کو کامل درندے نظر نہیں آتے۔ اغوا کاروں میں ایک ایسا فرد بھی شامل ہے جس کا سگا بھائی مولانا مسعود اظہر ان دنوں بھارتی جیل میں تھا۔ اس کی رہائی بھی مقصود تھی۔
"IC814” کی تمام اقساط دیکھنے کے بعد ہی میں دریافت کرسکا کہ چند معروف بھارتی صحافی اس کے بارے میں اتنا چراغ پا کیوں محسوس کررہے ہیں۔ پہلی وجہ میری دانست میں اس ڈرامائی سلسلے کے آغاز ہی میں ہوا یہ دعویٰ ہے کہ بھارتی جہاز کی نیپال سے پرواز سے چند گھنٹے قبل اس ملک کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں تعینات ’را‘ کا ایک اہلکار یہ ’جان‘ چکا تھا کہ چند مشتبہ عناصر دہشت گردی کی بڑی واردات ڈالنے کو تیار ہیں۔ کھٹمنڈو میں تعینات اہلکار کی بھیجی رپورٹ کو مگر را کے ہیڈ کوارٹر میں مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ برکھادت کو دیے انٹرویو میں را کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے تاہم بنیادی طورپر اس دعویٰ کو جھٹلانے پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔
سادہ ترین انداز میں "IC814” یہ حقیقت عیاں کرتی ہے کہ جہاز اغوا ہوجانے کے بعد ان دنوں کی واجپائی حکومت بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے قابل عمل حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہی۔ اس حوالے سے آج بھی کوئی شخص یہ سمجھانے کے قابل نہیں کہ پٹرول میں کمی کی وجہ سے جب اغوا ہوا جہاز کابل لینڈ کرنے کے بجائے ہنگامی حالات میں امرتسر کے ہوائی اڈے پر اترنے کو مجبور ہو گیا تو بھارتی حکومت نے اسے وہاں سے پرواز کیوں کرنے دیا۔ "IC814” کا دعویٰ ہے کہ بھارتی پنجاب کی پولیس کا سربراہ اپنے کمانڈوز کی ٹیم کو جہاز بازیاب کرنے کا مشن سونپنے کو تیار تھا۔ سکھ انتہا پسند اکثر جہازوں کے اغوا میں ملوث رہے ہیں۔ اسی باعث بھارتی پنجاب کی پولیس نے اغوا ہوئے جہاز کی بازیابی کے لیے خصوصی کمانڈوز کی ٹیم بھی تیارکررکھی ہے۔ پنجاب پولیس کی رضا مندی کے باوجود فلم میں یہ دعویٰ ہے کہ ان دنوں مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے ’امرتسر میں خونریزی‘ کی اجازت نہ دی۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ "IC814” پر تنقید کرنے والوں نے بادل یا اس کے ساتھیوں کا موقف معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
واجپائی حکومت جس انداز میں مذکورہ ہائی جیکنگ کے بعد کاملاً حواس باختہ ہوگئی تھی اسے "IC814” بنانے والوں نے نہایت سادگی سے عیاں کر دیا۔ کسی ادارے کی خواہ مخواہ مذمت کے بجائے انھوں نے افسر شاہی کی روایتی بے نیازی کو بھی حقیقی انداز میں بیان کردیا۔ اس کے باوجود مذکورہ ڈرامائی سیریز بنانے والوں کی مذمت ہو رہی ہے۔ وجہ اس کی فقط یہ ہے کہ انھوں نے آئی ایس آئی کو "IC814” کے اغوا کایکا وتنہا ذمہ دار ٹھہرانے پر توجہ مبذول نہیں کی۔ اس کے علاوہ تواتر سے یہ سوال بھی بھارتی صحافیوں کی جانب سے اس کے تناظر میں اٹھایا جارہا ہے کہ ’مولانا مسعود اظہر ابھی تک زندہ کیوں ہے؟‘ میں سنجیدگی سے جاننا چاہتاہوں کہ یہ سوال اٹھاتے ہوئے بھارتی حکومت کو کس اقدام کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
- ’پانچ سو وکلا کا احتجاجی غول‘ - 04/10/2024
- انتظار ہی میں عافیت ہے - 01/10/2024
- ریاست کا ’جگا‘ بننے کا فیصلہ - 27/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).