شاہی قلعہ لاہور: ایک تاریخی ورثہ


 

پچھلے دنوں لاہور آیا تو ایک عزیزہ نے بتایا کہ شاہی قلعہ میں واقع شیش محل کو گانوں اور ٹیلی وژن ڈراموں کے لئے کرایہ پر دیا جاتا ہے۔ لیکن صبح کو آنے والے سیاحوں کو یہ اُس حالت میں نہیں ملتا جس میں ہونا چاہیے۔ یونٹ اور فنکار سگریٹوں کے خالی پیکٹ اور پانی کی بوتلیں چھوڑ جاتے ہیں۔ میں اس موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے عرصہ بعد 5 ستمبر بروز جمعرات ’بھاٹی‘ دروازے کی جانب گیا۔ اشکبار آنکھوں سے لکھنا پڑتا ہے کہ جوں ہی داتا دربار آیا تو وہی دہائیوں پرانی، نہایت ہی غلیظ اور متعفن بو سے طبیعت خراب ہونے لگی۔ یہ سڑک کی دونوں جانب سے آنے والی پیشاب کی بدبو تھی! اگر آپ پیدل، موٹر سائیکل یا کسی ایسی گاڑی میں جس کے شیشے نیچے ہوں، اس مقام سے گزریں تو دماغ پھٹنے لگے گا۔ اس کثیف و غلیظ بو میں سانس لینا محال ہے۔ دن بھر ہزارہا افراد یہاں سے گزرتے ہیں۔ پولیس والے اور زائرین دن رات موجود ہوتے ہیں لیکن کسی کو بدبو آئے نہ آئے انتظامیہ کو بدبو محسوس نہیں ہوتی۔ کیا اعلیٰ حکام اپنے ساتھ آکسیجن سلنڈر لے کر آتے ہیں؟ شرم کا مقام ہے کہ اتنے بڑے اللہ کے ولی کے مزار کے عین سامنے اتنا غلیظ اور کثیف ماحول! کتنی ہی صوبائی اور وفاقی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن یہ غلیظ اور بدبو دار ماحول جوں کا توں ہے! کہاں ہیں ہمارے اخبارات کے بلند خیال لکھنے والے؟ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا نے اس سلسلے میں کیا کام کیا؟ ملکی اور غیر ملکی سیاح یہاں سے نا خوشگوار تاثر لے کر جاتے ہوں گے۔ کتنے ہی سِکھ خاندان، بادشاہی مسجد کے ساتھ واقع گردوارہ ڈیرہ صاحب اور رنجیت

سنگھ کی سمادھی دیکھنے سرحد پار اور دنیا بھر سے آتے ہیں۔ کچھ ان ہی کا لحاظ کر لینا چاہیے! اسی راستے سے غیر ملکی سربراہان بھی گزرتے ہیں۔ میرے ذرائع نے بتایا کہ چند سال اُدھر سیالکوٹ میں حکیم الامت علّامہ اقبال رحمۃا اللہ علیہ کے گھر ایرانی سفیر ایک اسکالر کے ساتھ اسلام آباد سے آئے۔ وہ کار سے اتر کر گلیوں میں احتراماً ننگے پاؤں علّامہ مرحوم کے گھر آئے تھے۔ خدا کرے کوئی ایرانی اسکالر ننگے پاؤں بھاٹی سے ہو کر علّامہ صاحب کے مزار جانے کی خواہش کا اظہار کرے تو شاید ستّو پی کر سوئی ہوئی انتظامیہ جاگ جائے! گورنر اور و زیرِ اعلیٰ پنجاب، صدرِ مملکت، وزیرِ اعظم، اعلیٰ صوبائی اور ضلعی افسران اسی پیشاب زدہ راستے سے گزرتے ہیں! کاش کبھی وہ بھی بھیس بدل کے پیدل اِن ہی غلیظ پیشاب زدہ فٹ پاتھ پر چلیں جہاں سے گزرنا عوام اور زائرین کا مقدر بن چکا ہے۔ میں خود اِن شرمناک اور غلیظ فٹ پاتھ پر 1974 سے چل رہا ہوں۔ لاہور میں کتنی ہی نئی بستیاں اور قبرستان آباد ہو گئے، بھارت بھی چاند تک پہنچ گیا لیکن داتا دربار کے سامنے اب بھی وہی افسوس ناک ماحول ہے۔ بہرحال میں شیش محل جانے کے لئے لیڈی ولنگٹن اسپتال سے بائیں جانب بیگم ڈینٹل اسپتال کی جانب مُڑ کر اس کے بالمقابل سڑک پر ہو لیا جو مینارِ پاکستان کی جانب جا رہی ہے۔

سڑک کے دائیں جانب بادشاہی مسجد کی اونچی دیوار ہے۔ اس سڑک کی دونوں جانب کوڑے کرکٹ کے ڈھیر منہ چڑاتے دکھائی دیے۔ شاید یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ملکی اور غیر ملکی سیاح اس سڑک سے کبھی نہیں گزریں گے لہٰذا قلعہ کا کچرا اس سڑک پر ڈال دو ! سامنے مینارِ پاکستان ان مناظر پر آنسو بہاتا نظر آ یا۔ یہاں ایک گیٹ سے مینارِ پاکستان اور قلعہ میں جانے کے لئے محسن برادرز کمپنی کی ’سافٹ وہیل ٹرین‘ کا ٹکٹ لیا جو مینارِ پاکستان ہوتے ہوئے شاہی قلعہ جاتی ہے۔ میرے ٹکٹ کا نمبر 98 275 تھا جس پر قیمت 75 روپے لکھی ہے جب کی مجھ سمیت سب ہی سے 80 روپے لئے گئے۔ یہ صریحاً زیادتی ہے۔ قلعہ کا ٹکٹ 50 روپے تھا۔ میں نے ٹکٹ گھر کی خاتون سے کہا کہ مجھے صرف شیش محل دیکھنا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ اُس کا وہاں پر الگ سے داخلہ ٹکٹ لینا ہو گا۔ قلعہ کی تو ایک

ایک اینٹ خود اپنی تاریخ آپ ہے لیکن میرے پاس وقت کم تھا لہٰذا پوچھتا پاچھتا شیش محل جا پہنچا۔ 100 روپے میں داخلہ ٹکٹ لیا جس کا نمبر 43718 تھا۔ احاطے میں شیش محل کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب ایک لمبا برآمدہ ہے جس کے شروع میں اوپر کی جانب گھوم کر جانے والا زینہ ہے۔ جس کا داخلہ ٹوٹے پھوٹے سامان رکھ کر روکا گیا ہے۔ کوئی بھی دنیا سے بیزار شخص یہاں سے ’اوپر‘ جا سکتا ہے۔ اس ڈھکی ہوئی گزر گاہ یا برآمدے میں جا بجا خوبصو رت محرابیں بنائی گئی ہیں۔

دیواروں پر اب بھی کہیں کہیں ہاتھوں سے بنائی گئی کئی صدیوں پرانی تصاویر باقی ہیں۔ نہ جانے کس دشمنی میں ایسی بچی کھچی تصویروں کے چہرے کھرچ کر ان کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔

میری نظر سب سے پہلے شیش محل اور اس کے ساتھ کمروں اور راہداریوں میں روشنی کرنے والی لائٹوں پر پڑی جو دور سے بالکل کسی فلم یونٹ کی لائٹیں دکھائی دیں۔ لیکن پھر بجلی کی تاروں کو دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ یہ تو شیش محل کو منور کرنے کے لئے یہاں رکھی گئی تھیں۔ البتہ کنارے کے ایک کمرے میں ایک بڑی گول میز، کرسیاں اور گئے زمانے کی طرز کا تخت نظر آیا۔ یہیں پانی کی خالی بوتلیں بھی موجود تھیں۔ واپسی پر ٹکٹ دینے والوں سے میں نے پوچھا کہ کہ کیا آپ لوگ شیش محل کو گانوں اور ٹی وی ڈراموں کے لئے کرایہ پر بھی دیتے ہیں؟ ان کے پاس اس کا کوئی تسلی بخش جواب تو نہیں تھا البتہ جب تخت اور میز کرسیوں کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سامان ان کے ’سیٹر ڈے نائٹ شو‘ کا ہے جو سنیچر کی رات پیش کیا جاتا ہے۔

شیش محل میں جانے سے یہ ثابت ہوا کہ ہر ایک شخص اپنے لحاظ سے مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ روشنیاں جو کسی ٹی وی پروڈکشن کی بتلائی جا رہی تھیں وہ خود محکمہ آثارِ قدیمہ والوں کی نکلیں جو شیش محل اور اس کے آس پاس ماحول کو خوبصورت بنانے اور شیشوں کے کام کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ رہا تخت، میز اور کرسیاں تو وہ بھی محکمہ کی ملکیت تھیں۔ ہاں! البتہ ان کو فٹ پاتھ پر چائے کے کھوکے کی میزوں پر اوندھی کرسیوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ پانی کی خالی بوتلیں بھی موجود تھیں۔ کالم کا مرکزی خیال تو شیش محل تھا لیکن بھاٹی، داتا صاحب، مینارِ پاکستان، گردوارہ ڈیرہ صاحب، رنجیت سنگھ کی سمادھی اور سیالکوٹ سے ہوتا ہوا اس بات پر پہنچا کہ لاہور کی تمام سیاسی، سماجی یا ثقافتی شخصیات داتا صاحب کے سامنے کا علاقہ اربابِ اختیار سے صاف ستھرا رکھوانے میں بری طرح ناکام ہو گئیں۔ رہی مذہبی شخصیات تو اس سلسلے میں جناب فیاضؔ ہاشمی صاحب کا شعر یاد آ گیا:

اے کاش میرے لب پہ تیرا نام نہ آتا
دنیا میں وفا پر کوئی الزام نہ آتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).