امریکہ کے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں یا کملا ہیرس؟

ویژوئل جرنلزم اور ڈیٹا ٹیم - بی بی سی نیوز


کملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ
کملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ
امریکہ کا اگلا صدر منتخب کرنے کے لیے امریکی ووٹرز رواں برس پانچ نومبر کو ہونے والے انتخاب میں ووٹ دیں گے۔

ابتدائی طور پر تو یہ انتخاب بالکل ویسے ہی ہونے تھے جیسے ماضی میں ہوتے آئے ہیں تاہم لگ بھگ دو ماہ قبل صورتحال نے پلٹا اُس وقت کھایا جب صدر جو بائیڈن نے اپنا نام واپس لیتے ہوئے نائب صدر کملا ہیرس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس انتخاب کا نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری بار صدر بنائے گا یا امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون صدر بنیں گی؟

جیسے جیسے ووٹ ڈالنے کے دن قریب آ رہے ہیں، بی بی سی انتخابی مہم پر نظر رکھے ہوئے ہے اور منگل کے صدارتی مباحثے جیسے بڑے واقعات کی طرح ہم آپ کو بتاتے رہیں گے کہ وائٹ ہاؤس کی دوڑ کہاں تک پہنچی ہے۔

رائے عامہ کے قومی سطح پر ہونے والے جائزے میں کس کو برتری حاصل ہے؟

صدر جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کے فیصلے کے روز تک رائے عامہ کے تمام جائزوں اور پولز میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ برتری حاصل کیے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ جو بائیڈن کی دستبرداری کے بعد کیے گئے پولز میں کہا گیا ہے کہ کملا ہیرس کے آنے سے بھی نتائج میں زیادہ بہتری کی توقع نہیں ہو گی۔

لیکن کملا ہیرس کے انتخابی مہم میں اترنے کے بعد صدراتی دوڑ سخت ہو گئی اور انھوں نے قومی سطح کے رائے عامہ کے جائزے میں اپنے حریف کے خلاف چھوٹی سی برتری حاصل کر لی ہے اور اس برتری کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

ابھی کی پوزیشن

شکاگو میں اپنی پارٹی کے چار روزہ کنونشن کے دوران کملا ہیرس نے کامیابی کے 47 فیصد تک کے امکان کے ہندسے کو ٹچ کیا ہے۔ 22 اگست کو ختم ہونے والے اس کنوینشن میں اپنی اختتامی تقریر میں انھوں نے تمام امریکیوں سے ’آگے بڑھنے کے ایک نئے راستے‘ کا وعدہ کیا ہے۔ اس تقریر کے بعد سے اُن کی برتری میں بہت کم اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کی اوسط بھی نسبتاً مستحکم رہی ہے اور یہ 44 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ آزاد امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی کی توثیق کے بعد میں اس میں کوئی خاص اضافہ نظر نہیں۔ رابرٹ ایف کینیڈی نے 23 اگست صدراتی انتخابات سے دست برداری کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ یہ رائے عامہ کے جائزے اور پولز اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ کون سا صدارتی امیدوار ملک میں کتنا مقبول ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ انتخابات کے نتائج کی پیشن گوئی کرنے کا یہ ایک درست طریقہ ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے صدر کو منتخب کرنے کے لیے الیکٹورل کالج سسٹم کا استعمال کرتا ہے، اس لیے زیادہ ووٹ حاصل کرنا اس سے کم اہم ہو سکتا ہے کہ وہ کہاں جیتے ہیں۔

امریکہ میں 50 ریاستیں ہیں لیکن چونکہ ان میں سے زیادہ تر تقریباً ہمیشہ ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیتی ہیں، اس لیے حقیقتا چند ہی ایسی ریاستیں ہیں جہاں دونوں امیدواروں کو جیتنے کے برابر مواقع ہوں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں الیکشن جیتے اور ہارے جاتے ہیں اور یہ اصل میدان جنگ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

وہ ریاستیں جہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے وہاں کس کو برتری حاصل ہے؟

امریکہ میں سات ریاستیں ایسی ہیں جہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے اور یہاں سے سامنے آنے والے جائزوں اور پولز کے نتائج کافی tight ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جاننا مشکل ہے کہ ان سات ریاستوں میں کون آگے ہے اور کسے برتری حاصل ہے۔

قومی جائزوں کے مقابلے میں ریاستی سطح پر کم پولز ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کم ڈیٹا ہوتا ہے کہ کون آگے ہے، کیونکہ ہر پول میں غلطی کے امکانات ہوتے ہیں جسے ’مارجن اف ایرر‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تعداد زیادہ یا کم ہو سکتی ہے۔

ابھی جو صورتحال ہے اور حالیہ سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان سات ریاستوں میں چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان مقبولیت کا فرق انتہائی حد تک کم ہے (یعنی کوئی واضح طور پر آگے نہیں ہے)۔ اس میں کلیدی اہمیت کی حامل پنسلوانیا ریاست بھی شامل ہے کیونکہ یہاں سب سے زیادہ انتخابی ووٹ ہیں اور اس ریاست میں کامیابی کے ذریعے فتح کے لیے درکار 270 ووٹوں تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔

سات اہم ریاستیں

پنسلوانیا، مشیگن اور وسکونسن یہ سبھی ریاستیں روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ رہی ہیں لیکن ٹرمپ نے سنہ 2016 میں صدارتی انتخابات جیتنے کے راستے میں انھیں سرخ رنگ میں رنگ دیا تھا یعنی یہاں سے ریپبلکن کو فتح ملی تھی۔ بائیڈن نے انھیں 2020 میں دوبارہ حاصل کر لیا تھا اور اگر رواں سال کملا ہیرس اسے اپنے پاس رکھنے میں کامیاب رہتی ہیں تو ان کے جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ہیرس کے ڈیموکریٹک امیدوار بننے کے بعد سے دوڑ کا رُخ ایک طرح سے بدل گیا ہے اور اس کا اشاریہ اس بات سے ملتا ہے کہ جس دن جو بائیڈن نے صدارتی دوڑ سے دستبرداری اختیار کی تھی تو وہ اُن سات ریاستوں میں اوسطاً ٹرمپ سے تقریباً پانچ فیصد پوائنٹس سے پیچھے تھے۔

یہ اوسط کیسے نکالی جاتی ہے؟

ہم نے اوپر گرافکس میں جو اعداد و شمار استعمال کیے ہیں وہ پولنگ تجزیہ ویب سائٹ 538 کے ذریعے تیار کی گئی اوسط پر مبنی ہے۔ یہ ویب سائٹ امریکی نیوز نیٹ ورک اے بی سی نیوز کا حصہ ہے۔ اس اوسط کو قومی سطح پر ہونے والے انفرادی پولز اور کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں میں ہونے والے جائزوں کی بنیاد پر نکالا جاتا ہے۔ یہ جائزے اور پولز پولنگ کمپنیوں کے ذریعے کروائے جاتے ہیں۔

معیار کو برقرار رکھنے کے لیے صرف اُن کمپنیوں کے پولز کو دیکھا جاتا ہے جو ایک مخصوص معیارات پر پورا اُترتے ہیں۔ ان معیارات میں شفافیت، سیمپل سائز وغیرہ سمیت اس بات کو بھی دیکھا جاتا ہے کہ آیا پول یا جائزہ ٹیلی فون کالز کے ذریعے کیا گیا، ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے یا آن لائن۔

کیا ہم اِن پولز پر اعتماد کر سکتے ہیں؟

اس وقت قومی جائزے اور پولز یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے سے چند پوائنٹس کے فرق سے مدمقابل ہیں اور جب فرق اتنا کم ہو تو فاتح کی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔

اس سے قبل 2016 اور 2020 کے پولز میں ٹرمپ کی حمایت کو کم سمجھا گیا تھا تاہم جب نتائج سامنے آئے تو ایک انتخاب میں انھیں جیت ہوئی تھی جبکہ دوسرے میں شکست۔ ایسے میں پول کروانے والی کمپنیاں اس مسئلے کو متعدد طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

اس ضمن میں ایڈجسٹمنٹس کو درست کرنا مشکل ہے اور پول کروانے والی کمپنیاں اِس بابت عالمانہ اندازہ لگاتی ہیں کہ جائزے میں حصہ لینے والے افراد میں سے کون پولنگ کے روز ووٹ دینے نکلیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33844 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments