سیاسی ڈرامہ


پاکستان میں سیاسی رسہ کشی اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ملکی سیاست کے ایک پیچیدہ اور حساس پہلو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اکثر اوقات سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش رہی ہے، جو مختلف وجوہات کی بنا پر سامنے آتی ہے

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو عموماً فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جن کا ملکی سیاست پر بڑا اثر رہا ہے۔ پاکستان میں فوج نے کئی بار براہ راست اقتدار سنبھالا ہے، جیسے 1958، 1977، اور 1999 میں مارشل لا لگائے گئے، اور ان حکومتوں میں فوجی قیادت کا عمل دخل رہا۔ فوج کی یہ مداخلت ہمیشہ ملکی مفاد یا قومی سلامتی کی بنیاد پر کی گئی، لیکن اس نے جمہوریت اور منتخب حکومتوں کے تسلسل کو متاثر کیا۔ پاکستان کی سیاست میں رسہ کشی کا مرکز مختلف اوقات میں جمہوری حکومتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں، دھرنے، احتجاج اور قانونی چالیں چلتی رہی ہیں، جس سے ملک میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے۔ یہ کشمکش صرف جماعتوں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس میں کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔

پاکستان کی حالیہ سیاسی کشیدگی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بحث جاری رہتی ہے۔ یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے، چاہے وہ حکومت کی حمایت میں ہو یا اسے گرانے کی کوشش میں۔ دوسری جانب، سیاست دان بھی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ملک میں جمہوریت کی کمزوری اور سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف، جو عمران خان کی قیادت میں ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری، نے روایتی سیاست میں ایک نیا بیانیہ پیش کیا۔ پی ٹی آئی نے ملک میں بدعنوانی کے خاتمے، انصاف کی فراہمی، اور ریاست مدینہ جیسے نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

پی ٹی آئی کو عوام کی بڑی حمایت حاصل ہوئی، خاص طور پر نوجوان طبقے میں۔ عمران خان کی کرکٹ کے دور کی شہرت اور ان کی ایمانداری کے تاثر نے انہیں عوامی سطح پر مقبول بنا دیا۔ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور حکومت سازی اس عوامی حمایت کا نتیجہ تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران حزبِ اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سخت تنازعات جاری رہے۔ عمران خان نے سیاسی مخالفین پر بدعنوانی اور بے ایمانی کے الزامات عائد کیے، اور ان جماعتوں کو ملک کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان تعلقات کو مثبت اور حامی سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، 2022 میں سیاسی منظرنامے میں تبدیلی آئی، جب پی ٹی آئی کی حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا۔ عمران خان نے اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ پر بھی الزام لگایا کہ انہوں نے ان کی حکومت کو ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔

حکومت سے ہٹنے کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی نے احتجاجی تحریکوں کا آغاز کیا، جن میں عوام کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔ عمران خان نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ”حقیقی آزادی“ کے لیے ان کے ساتھ نکلیں، جس کا مقصد ایک آزاد اور خودمختار حکومت کا قیام تھا جو بیرونی یا اندرونی دباؤ سے آزاد ہو۔ 2023 کے سیاسی بحران میں پی ٹی آئی کی تحریکیں اہم رہیں۔

عوام کی رائے پی ٹی آئی اور دوسری جماعتوں کے بارے میں تقسیم ہے۔ کچھ عوامی طبقے عمران خان کو ملک کی بہتری کے لیے بہترین رہنما سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے طبقے ان کے حکومتی دور کو ناکام قرار دیتے ہیں۔ عوامی مظاہروں، ریلیوں، اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی رائے عامہ کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ جمہوریت کے تسلسل کا حامی ہے اور وہ فوجی مداخلت یا اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خلاف ہے۔ عوام کی بڑی تعداد یہ چاہتی ہے کہ سیاست دانوں کو اپنے مسائل کا حل پارلیمان اور قانونی راستوں سے نکالنا چاہیے، نہ کہ غیر جمہوری طریقوں سے۔ سیاسی عدم استحکام، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور معاشی مشکلات کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ عوامی مسائل کے حل نہ ہونے کی صورت میں سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ دونوں پر تنقید ہو رہی ہے، اور لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے متبادل قیادت اور نظام کی تلاش میں ہیں۔

پی ٹی آئی اور عوام کا کردار اس سیاسی کشمکش میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی نے عوام کی طاقت کا بھرپور استعمال کیا، اور عوام بھی اس سیاسی کھیل میں فعال شراکت دار ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتیں، اور عوامی رائے کے درمیان جاری کشمکش نے ملکی سیاست کو غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر دیا ہے۔ نہ ہی حکومت اور نہ ہی پی ٹی آئی اس عوام کے لئے کچھ سوچ رہے ہیں جن کے بھرپور ساتھ سے پی ٹی آئی آج اتنا بڑا پیمانے پر مقبولیت حاصل کیے ہوئے ہے وہ عوام اب بھی غربت، افلاس، بے روزگاری، بیماری، اور روٹی، کپڑا مکان کے سہانے خوابوں میں ہی پھنسی ہوئی ہے اس کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے اس عوام کے مسائل کو اپنی ترجیح سمجھنا اور جمہوری عمل کی مضبوطی اور عوامی مسائل کا حل وقت کی اہم ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments