کرکٹ بورڈ اور ٹیم کی ناقص کارکردگی!


ہم سب آگاہ ہیں کہ پاکستانی قوم کرکٹ کی دیوانی ہے۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی بھی اس دیوانگی کی نذر ہو چکا ہے۔ عمومی طور پر قومی کھیل پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس کی ترویج کے لئے کام ہوتا ہے۔ بھاری بھرکم فنڈز مختص ہوتے ہیں۔ پاکستان کا معاملہ لیکن دوسرا ہے۔ یہاں قومی کھیل ہاکی مسلسل نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ عوام اور خواص کی تمام تر توجہ اور محبت کرکٹ کے کھیل اور کھلاڑیوں کے لئے مخصوص رہی۔ اس توجہ اور محبت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم دنیا کی مضبوط ٹیم بن کر ابھرتی۔

اپنی عمدہ کارکردگی سے اپنے چاہنے والوں کی بے لوث محبت کا جواب دیتی۔ ان کے دلوں میں گھر بنا لیتی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کی مثال ہماری قومی معیشت جیسی ہے، جس نے قوم کو بے یقینی کی سولی پر ٹانگ رکھا ہے۔ قومی معیشت کو اپنی سانسیں برقرار رکھنے کے لئے مانگ تانگ کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ یہ برسوں سے بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ بالکل اسی طرح کرکٹ کا کھیل اور کھلاڑیوں کی کارکردگی کے بارے میں بھی یقین اور وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی ہار یا جیت کے بارے میں پیش گوئی بھی مشکل ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اچھی اور مضبوط ٹیم کے سامنے ڈٹ جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ نہایت معمولی ٹیم کے سامنے ریت کی دیوار کی مانند ڈھے جائے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی، کرکٹ بورڈ کے چیئر مین بنے تو انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ان کے بلند بانگ دعوے اور اعلانات سن کر امید بندھی تھی کہ شاید کرکٹ بورڈ اور ٹیم کا قبلہ درست ہو سکے گا۔ اس بات پر بھی تنقید ہوتی رہی کہ وہ بیشتر اوقات کھلاڑیوں کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ٹیم کے ساتھ مختلف مقامات پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی حکمت عملی کے تحت کھلاڑیوں کو فوجی کیمپ میں تربیت بھی دلائی گئی۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ بورڈ اور ٹیم کی کارکردگی میں بہتری نہیں لا سکے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کی سربراہی میں ٹیم کے حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے۔

چند ماہ پہلے بہت سی امیدوں اور دعووں کے ساتھ ہماری ٹیم ٹی۔ ٹوینٹی ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے امریکہ کے لئے روانہ ہوئی تھی۔ لیکن اس مقابلے میں پاکستان کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اندازہ کیجئے کہ امریکہ جیسی نومولود اور نا تجربہ کار ٹیم کے مقابلے میں بھی پاکستانی ٹیم کو دھول چاٹنا پڑی۔ بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیموں نے ہماری ٹیم کے مقابلے میں کہیں اچھی کا کردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس شکست کے بعد محسن نقوی نے اعلان کیا تھا کہ ٹیم کو ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔

تاہم کسی کی جواب دہی اور احتساب کی نوبت نہیں آئی۔ چند دن کے بعد یہ معاملہ آیا گیا ہو گیا۔ اب چند دن پہلے ایک مرتبہ پھر یہی صورتحال ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی، جب بنگلہ دیش کی ٹیم نے پاکستان کو شکست دے کر سیریز اپنے نام کر لی۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پاکستان کے خلاف یہ بنگلہ دیش کی پہلی سیریز فتح ہے۔ اس بری کارگزاری پر ایک مرتبہ پھر کرکٹ بورڈ اور ٹیم عوامی اور صحافتی تنقید کی زد میں ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ٹیم اور بورڈ کا قبلہ درست کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ چیئرمین محسن نقوی کی کارکردگی پر بھی تنقید ہو رہی ہے اور سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

سنتے ہیں کہ کرکٹ ٹیم مختلف دھڑوں میں تقسیم ہے۔ یہ دھڑے بندی کھلاڑیوں کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کھلاڑیوں کا ہر گروہ اپنی مرضی کا کپتان چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں معاملات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔ جب یہ کھلاڑی مخالف ٹیم کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اترتے ہیں، تب بھی یہ تفرقے کا شکار ہوتے ہیں۔ بالنگ، بیٹنگ، فیلڈنگ، ہر پہلو سے یہ کمزوری کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخالف ٹیم کے سامنے یہ ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔

بالکل یہی حال کرکٹ بورڈ کا بھی ہے۔ جہاں متفقہ حکمت عملی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی سنتے اور دیکھتے ہیں کہ فیصلے کرتے اور ذمہ داریاں تفویض کرتے وقت میرٹ اور کارکردگی کے بجائے ذاتی پسند نا پسند کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش سے میچ ہارنے کے بعد ٹیم کپتان نے اعتراف کیا کہ کھلاڑی محنت نہیں کرتے اور فٹنس مسائل کا شکار ہیں۔ دوسری طرف کرکٹ کی مختلف سرگرمیوں کے لئے کروڑوں روپے کا بجٹ خرچ ہوتا ہے۔ غیر ملکی دوروں میں بہت سے غیر متعلقہ لوگ بھی سرکاری وفد کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے پاس ورزش اور ٹریننگ کا وقت ہویا نہ ہو، ٹی وی اشتہارات کے لئے ان کے پاس خوب وقت ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ اور ٹیم سے کوئی جوابدہی کیوں نہیں کی جاتی؟ کرکٹ ٹیم مسلسل شکست کا سامنا کر رہی ہے، اس صورتحال میں کھلاڑیوں سے آج تک پوچھ گچھ کیوں نہیں کی گئی؟ وہ انتظامی عہدے دار جو کرکٹ ٹیم اور کھلاڑیوں کی کا کردگی بہتر بنانے کے ذمہ دار ہیں اور جو بھاری بھرکم معاوضے وصول کرتے ہیں، ان کا احتساب کون کرے گا؟ سفارش اور نا انصافی کا کلچر کیسے ختم ہو گا؟ یہ سب سوال عوام کے ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ عمومی طور پر بورڈ کا چیئرمین ان تمام امور کا نگران ہوتا ہے۔ اسے متعلقہ افراد سے جواب دہی کرنا ہوتی ہے۔ تاہم مشکل یہ ہے کہ جب چیئرمین کی اپنی کارگزاری کڑی تنقید کی زد میں ہو تو وہ کیسے ٹیم اور انتظامی ذمہ داروں سے جواب طلب کر سکتا ہے۔

کہنے کی حد تک وزیر اعظم شہباز شریف کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف ہیں۔ افسوس کہ وہ بھی اس سارے معاملے سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ معاشی اور دیگر حکومتی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ لازم ہے کہ تمام تر مصروفیات کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف اس صورتحال کا نوٹس لیں۔ کرکٹ کی صورتحال میں بہتری کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ اگرچہ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے، اس سے پہلے کہ پاکستان کی مزید جگ ہنسائی ہو، اس معاملے پر فوری توجہ مبذول کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments