ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا!
فائرنگ کا تبادلہ رُکا نہیں۔ مارٹر توپوں سمیت بھاری اور خود کار ہتھیاروں نیز راکٹوں سے حملے جاری ہیں۔ افغانستان کے علاقے خوست سے گزشتہ ایک ہفتے میں تین بار پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حملے ہوئے ہیں۔ جب سے افغانستان میں طالبان برسرِ اقتدار آئے ہیں تب سے افغان سرزمین کا پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہونا ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ بین الاقوامی خوارج اور ان کے کمانڈر مزاحم محسود اور نور ولی جیسوں کو کابل حکومت کی مکمل سرپرستی نیز افغانستان میں وی آئی پی پروٹوکول و افغان گورنمنٹل سپیشل پرمٹ حاصل ہے۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے والے دہشت گردوں کے ٹریننگ سنٹرز اور ان کی لاجسٹک بیسز کی پاکستان نے کئی مرتبہ نشاندہی کی ہے لیکن یہ مسئلہ یوں حل ہوتا نظر نہیں آتا۔
محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لاہور سے ایک کالعدم تنظیم کا خطرناک دہشت گرد گرفتار ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے مختلف شہروں سے گرفتار ہونے والے دہشت گردوں سے دھماکہ خیز مواد، خود کُش جیکٹیں، ہینڈ گرنیڈز، ڈیٹونیٹر، فیوز وائرز، گولیاں، اسلحہ، موبائل فون اور نقدی برآمد ہوئی ہے جبکہ ان کی شناخت حافظ مطلوب، حمزہ جاوید، خبیب احمد، ظہیر احمد اور سیف اللہ وغیرہ کے نام سے کی گئی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں ہوتی ہیں یہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث عوام میں مزید بے چینی اور عدمِ تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر تفتان بارڈر پر عوامی شکایات کے باوجود اعلی حکام کی طرف سے عوام کی احوال پُرسی کا کوئی انتظام نہیں۔ لوگوں کے پاس ویزے ہونے کے باوجود اُن سے رشوت لینے کے لئے انہیں اُس وقت تک وہاں روکے رکھا جاتا ہے جب تک وہ اہلکاروں کی مُٹھی گرم نہ کریں۔ مُٹھی گرم کر کے بہت سارے جرائم پیشہ افراد کا بارڈر کراس کرنا کس حد تک امکان پذیر ہے اسے ہر صاحبِ عقل بخوبی سمجھتا ہے لیکن کوئی بارڈر کے لئے چیک اینڈ کنٹرول کی پلاننگ کرنے یا یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ بارڈر پر یہ سب ہو رہا ہے۔ جو طالب علم اس بارڈر سے سفر کرتے ہیں، ان کے ساتھ اُن کے والدین اور عزیز و اقارب بھی زیارت کی غرض سے ویزے کے ہمراہ جا رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں عزت دینے کے بجائے خوب اذیت دی جاتی ہے اور مختلف بہانوں سے وہاں بارڈر پر گھنٹوں بٹھائے رکھا جاتا ہے۔
بلوچستان میں آئے روز نہتے سویلین، پولیس اور ایف سی کے جوان نیز فوجی اہلکار شہید ہو رہے ہیں۔ یہ خونِ ناحق بالآخر انسانوں کا خون ہے۔ اس بے دردی اور سفّاکیت سے اگر کسی ملک میں جانوروں کو بھی قتل کیا جائے تو ملکی سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں۔
سچ بات تو یہ ہے کہ بے چارے عوام کا اس ملک میں کچھ بھی نہیں، حتی کہ سکون اور عزت بھی انہیں میسّر نہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں چھوڑیے اور صرف محکمہ مال کو ہی لیجیے۔ کون ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس ملک میں ایک چپراسی سے رشوت شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ نسل در نسل اس ادارے کے ہاتھوں لُٹ رہے ہیں لیکن اس ادارے کے سُدھار کا ایک فی صد بھی امکان نہیں۔ کوئی ہے ہی نہیں جس کے لئے عوامی مسائل اور عوامی خدمت کی ذرّہ بھر بھی اہمیّت ہو۔
ملک کے اندر بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے ملکی اقتصاد کو دہشت گردی سے بڑھ کر متاثر کیا ہے۔ بجلی کے بحران کے باعث 350 ارب ڈالر کی صنعتیں مفلوج ہو کر بند ہو گئی ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے اراکین تو کبھی نہ کبھی پکڑے جاتے ہیں لیکن مہنگائی اور بجلی کا بحران پیدا کرنے والوں کو پکڑنے کا سرے سے ہی کوئی بندوبست نہیں۔ بات صرف اوور بلنگ اور صنعتی اور کاروباری طبقے کی بدحالی تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں حالت یہ ہے کہ کہیں پر بھی بجلی کا ایک میٹر یا ٹرانسفارمر بھی رشوت کے بغیر نہیں لگوایا جا سکتا۔ اگر میٹر یا ٹرانسفارمر خراب ہو جائے تو پھر لاکھوں روپے عوام سے بٹورے جاتے ہیں۔ واپڈا کی کرپشن کے باعث کئی لوگ بچوں سمیت خود کشیاں کر چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں نیپرا نے پونے دو روپے یونٹ بجلی مزید مہنگی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آج کی خبر ہے کہ بجلی کمپنیوں نے صارفین کو 8 ارب 44 کروڑ روپے سے زائد کا چونا لگا دیا ہے۔ صرف لیسکو اور آئیسکو نے لاہور اور اسلام آباد میں صارفین سے اوور بلنگ کی مد میں تین ارب روپے سے زائد رقم اینٹھی ہے۔ دوسری طرف ہمارے قومی اداروں کے خودساختہ جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے۔ ابھی خبر گرم ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ایف آئی آر میں نام والے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسپیکر ایاز صادق نے آئی جی اسلام آبادی سرزنش کرتے ہوئے ہدایت جاری کیں کہ جن ارکان اسمبلی کے نام ایف آئی آر میں نہیں انہیں فوری رہا کیا جائے۔ یقین جانیے ہمارے قومی ادارے ستتر برس سے قوم کو انہی ڈراموں میں مصروف کیے ہوئے ہیں۔
پورے ملک میں جو ادارہ بھی ہے وہ طاقتور اشرافیہ کا ہے، کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جو عوام کے لئے ہو اور عوامی خدمت پر یقین رکھتا ہو۔ اشرافیہ کے لئے سیکورٹی بھی ہے، شکایات سننے والے بھی ہیں، قانون بھی ہے، وکیل بھی ہیں، پارلیمنٹ بھی ہے، وزارتیں بھی ہیں، میڈیا بھی ہے اور ایف آئی آر وغیرہ بھی لیکن عوام کے لئے۔ اگلے مہینے شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ یہ کہنے کو تو ہمارے ملک کی اشرافیہ کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہو گا لیکن عوام کے لئے۔ یہ بھی ایک اہم خبر ہے کہ بلائنڈ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 21 نومبر سے 3 دسمبر تک پاکستان میں کھیلا جائے گا لیکن سوال پھر یہی ہے کہ عوام کو اس سے سوائے اپنا وقت ضائع کرنے کے اور کیا ملے گا؟ کیا اس ملک میں کوئی ادارہ عوام کے لئے بھی ہے؟
آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ تفتان بارڈر پر مسافروں کو اذیت دینے کا جتنا انتظام کیا گیا ہے اگر اس اذیّت کے بجائے بارڈر پر عوام سے فیڈ بیک لینے اور سرکاری اہلکاروں کی مانیٹرنگ کا انتظام کیا جاتا تو رشوت، اسمگلنگ اور دہشت گردی کو بلوچستان میں بڑی حد تک روکا جا سکتا تھا۔ ہمارے ہاں عام لوگوں کو لائنوں میں گھنٹوں کھڑا کرنے، انہیں ذلیل و رسوا کرنے اور ٹارچر کرنے کو بہادری سمجھ لیا گیا ہے۔ بہادری اور شجاعت عوام کو اذیّت دینے کا نام ہر گز نہیں۔ اگر ہمیں اپنی ملکی صورتحال کو بدلنا ہے تو ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔
- ویژن اور ٹیم ورک کے بغیر آثارِ قدیمہ میں بدلتی جدید عمارتیں - 23/09/2024
- ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا! - 11/09/2024
- عام آدمی۔ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں - 29/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).