اردو حروف تہجی کا مسئلہ اور معیاری اردو املا


دنیا کی ہر زبان میں اسی زبان اور دیگر زبانوں سے لیے گیے الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ حروف تہجی کے ملنے سے الفاظ بنتے ہیں۔ اردو قواعد کی رو سے حروف کی ایسی ترکیب جس کا کوئی مفہوم اور معنی ہو لفظ موضوع کہتے ہیں۔ مگر حروف کی ایسی ترکیب جو بے معنی ہو مہمل لفظ کہا جاتا ہے۔ مثلاً روٹی ووٹی۔ یہاں ووٹی مہمل لفظ ہے۔اگرچہ یہاں اردو قواعد پر بات کرنا مقصود نہیں ہے البتہ اس کی بنیادی اکائی کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہاں درحقیقت حروف تہجی کے بارے میں چند بنیادی معلومات فراہم کرنا اور درست املا مقصود ہے۔

اردو حروف تہجی کی تعداد شروع سے ہی الجھا ہوا مسئلہ ہے۔ ایک غیر ملکی مشنری بنجمن شلزے نے 1741 میں A grammar of Hindustani Language کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اردو حروف تہجی کی تعداد بتیس (32) بتائی ہے۔ اس کے بعد ہمزہ (ء) کی علامت کا اضافہ کر کے تینتیس (33) بنا دی۔ اس بات کی ابو اللیث صدیقی نے اپنے دیباچے اور تعلیقات میں وضاحت کی ہے کہ اردو کی حروف تہجی میں (ٹ، ڈ، ڑ) شامل نہیں کیے گئے ہیں جب کہ یہ حروف ان کی مثالوں میں پائے گئے تھے۔ شلزے کو یہ مغالطہ ہوا ہے۔ کہ اردو زبان محض فارسی اور عربی زبان سے مل کر بنی ہے اس وجہ سے حروف تہجی کی تعداد بتیس (32) بتائی ہے۔ اٹھائیس حروف چوں کہ عربی زبان کے ہیں (ا، ب، ت، ث، ج، ح، خ، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ک، ل، م، ن، و، ہ، ء، ی) جب کہ چار حروف فارسی زبان کے ہیں

(پ، چ، ژ، گ)۔

دوسری طرف سے دریائے لطافت سید انشاء اللہ خان انشاء اور مرزا محمد حسن قتیل نے مشترکہ 1808 میں تصنیف کی تھی۔ یہ کتاب اردو لسانیات اور قواعد پر مشتمل پہلی اور بنیادی کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردو حروف تہجی کی تعداد پچاسی (85) بتائی گئی ہے۔ اگرچہ اس کتاب کی اہمیت اور عظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر حروف تہجی کے مسئلے پر اس سے اختلاف کرنا پڑتا ہے کیوں کہ اتنی تعداد کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔

حروف تہجی کے مسئلے کا تعلق لسانیات اور صوتیات سے جڑا ہے۔ ماہرین لسانیات و صوتیات اس بات پر متفق ہیں کہ حروف تہجی آوازوں کی علامات ہیں۔ ان کا مقصد زبان میں موجود آوازوں کو ظاہر کرنا ہے۔یعنی یوں کہہ لیجیے کہ حروف تہجی آوازوں کی تحریری شکل ہے۔

ہائیہ آوازیں اور حروف تہجی

بیسویں صدی کے ابتدائی بیس پچیس برس تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ اردو میں پینتیس (35) یا چھتیس (36) حروف تہجی ہیں۔ اس زمانے میں باقاعدہ طور پر اردو قواعد اور بچوں کو سکھانے والی کتابوں میں بھی یہی لکھا گیا تھا۔ مفرد اور مرکب حروف کے درمیان فرق واضح بھی نہیں تھا۔ یہ مرکب حروف کیا ہوتے ہیں؟

دراصل مرکب حروف کو اردو میں ہائیہ یا ہکاری آوازیں کہتے ہیں۔ یہ وہ آوازیں جن کے ادا کرتے وقت پھیپھڑوں سے سانس معمول سے زیادہ مقدار میں ایک جھٹکے کے ساتھ منھ سے خارج ہو تو یہ آوازیں نکل آتی ہیں۔ مثلاً (بھ، پھ، تھ، ٹھ، وغیرہ). ان کی کل تعداد پندرہ (15) ہیں۔

(بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ).

انگریزی میں انہیں Aspired sound کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں Aspiration اتنی زیادہ نہیں ہیں جتنی اردو میں ہیں۔

لغت اور حروف تہجی

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ کیوں نہ اردو میں بھی اوکسفرڈ کی عظیم لغت کی طرز پر ایک کثیر جلدوں پر مبنی لغت بنائی جائے۔ مگر اسے ترتیب دیتے وقت سب سے بڑا مسئلہ حروف تہجی کا درپیش تھا۔ کیوں کہ لغت میں الف بائی ترتیب سے الفاظ لکھنے ہوتے ہیں ۔ اس وقت اردو میں ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے حروف کا فرق روا نہیں رکھا گیا تھا۔ یعنی (ب اور بھ میں) فرق واضح نہیں تھا۔ مثلاً (بہانا، بھانا، گھر، گہر، وغیرہ) یہ سب ایک ہی ترتیب کے لحاظ سے ایک ساتھ درج تھے جو قاعدے کے اعتبار سے غلط تھے۔ کیوں کہ ان الفاظ کی تقطیع کرتے وقت مختلف ارکان پر تولے جاتے ہیں۔ مثلا بھانا کا وزن فعلن پر جب کہ بہانا کا وزن فعولن پر ہے۔ اس طرح ان الفاظ کا ایک ہی ترتیب میں رکھنا بعد از قیاس تھا اس سے قاری بھی الجھن کا شکار ہوتا اور ادب میں لاکھوں اشعار بحر سے نکل جاتے اور بے وزن ہو جاتے۔ مولوی عبدالحق نے اردو میں پہلی دفعہ ہائیہ آوازوں کو الگ تصور کیا ان کو الگ حروف مان کر اردو حروف تہجی کی تعداد اور ترتیب درست کی۔ ہائیہ آوازوں کو مرکب حروف اور باقی حروف کو مفرد حروف کا نام دیا۔ ان کا عملی نمونہ ان کی مرتبہ ”*لغت کبیر*“ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اردو کے حروف تہجی کی صحیح تعداد

قیام پاکستان سے پہلے اردو لغت کا یہ منصوبہ نامکمل رہا۔ بوجہ ایں تقسیم ہند کے بعد حکومت پاکستان نے *اردو لغت بورڈ* کے تحت اردو لغت کی تکمیل کے منصوبے پر از سر نو کام شروع کیا ۔بابائے اردو مولوی عبدالحق اس کے پہلے مدیر تھے اور شان الحق حقی بورڈ کے معتمد (سیکریٹری) مقرر ہوئے تھے۔ دونوں نے لغت کے کام کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ اردو لغت بورڈ نے ماہر لسانیات مولوی عبدالحق کے ترتیب کردہ اور تجویز شدہ حروف تہجی پر اتفاق کا اظہار کیا ۔ ہائیہ حروف کو بھی الگ حروف کے طور شامل کرنے لگے اسی طرح عربی کے اٹھائیس (28)، فارسی کے چار (4) حروف (پ، چ، ژ، گ) اردو کے معکوسی (retoflex) آوازیں یعنی (ٹ، ڈ،ڑ) اور ہائیہ حروف جس کی کل تعداد پندرہ (15) ہیں۔ الف ممدودہ (آ)، ہمزہ (ء)، یائے مجہول یعنی (ے) کو بھی حروف تہجی میں شمار کیا

گیا۔ یائے مجہول عربی زبان میں نہیں ہے بلکہ قدیم فارسی میں یہ استعمال ہو رہا تھا۔ اور اب اردو کا بھی باقاعدہ حرف ہے۔ ان سب کو ملا کر اردو حروف کی مکمل تعداد تریپن (53) ہو گئی۔

یہاں ایک بات وضاحت طلب ہے۔ جن الفاظ میں مرکب حروف استعمال ہوتے ہیں وہاں دو مفرد حروف کا استعمال الفاظ کا وزن بگاڑ دیتا ہے اور وہ الفاظ املا کے لحاظ سے غلط تصور ہوں گے

مثلا تمھارا ، تمھاری، کمھار، ننھا، انھیں، جنھیں، تمھیں، وغیرہ یہ صحیح الفاظ ہیں

جب کہ تمہارا، تمہاری، تمہیں، انہیں، کمہار، ننہا وغیرہ الفاظ املا کے لحاظ سے غلط ہیں۔

اس طرح اردو لغت بورڈ کے تحت شان الحق حقی نے تریپن حروف تہجی کی الف بائی ترتیب کے ساتھ بائیس (22) جلدوں پر مشتمل لغت باون (22)سال کی محنت شاقہ کے بعد مرتب کی۔ اردو کی پرانی لغت کے برعکس اردو لغت بورڈ نے الف کے بعد الف ممدودہ (آ) کا اندراج کیا ہے۔ الف ممدودہ(ا+ا=آ) بھی مرکب حرف ہے۔

نون غنہ اور لغت میں اندراج

یہاں یہ بات بھی وضاحت طلب ہے۔ کہ کچھ ایسے الفاظ تھے جن کے آخر میں ں یا ن آئے تو ان کو ایک ہی درجے میں شمار کیے گئے تھے۔ یعنی جن کا مطلب ایک ہی نکلتا تھا (جیسے آشیان، آشیاں، آسمان، آسماں، آستان، آستاں) ان کو اردو لغت بورڈ نے ایک ہی بار درج کیا ہے۔ یہاں ن اور ں میں فرق روا نہیں رکھا۔ البتہ بعض الفاظ میں ن اور ں کے باہم تبادلے سے لفظ کے معنی پر اثر پڑتا ہے (جیسے ماں،مان، جہاں مطلب دنیا، جہاں مطلب جدھر وغیرہ) وہاں پر بھی ایک مسئلہ درپیش آیا۔

اس مسئلے کو مقتدرہ قومی زبان (جس کا جدید نام ”ادارہ فروغ قومی زبان“ ہے) نے اپنے صدر نشین افتخار عارف کی زیر نگرانی میں ایک کمیٹی بنائی جس میں ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ڈاکٹر نجیبہ عارف اور محمد اسلام نشتر اور رؤف پاریکھ شامل تھے۔ اس کمیٹی نے یہ طے کیا کہ نون غنہ (ں) کو بھی ایک حرف تسلیم کیا جائے۔ جسے کمپیوٹر اور دستی موبائل کی کلیدی تختی (کیبورڈ) میں بھی شامل کیا۔ تاکہ عالمی سطح پر اردو لکھنے اور پڑھنے والوں کے لیے دشواری نہ ہو۔ اب اردو حروف کی کل تعداد چون (54) ہو گئی۔ یہ تعداد مقتدرہ کے شائع کیے گئے *معیاری اردو قاعدہ* ”میں بھی درج ہے۔ یہ قاعدہ مذکورہ بالا کمیٹی کی مشاورت سے مقتدرہ سے 2010 میں شائع ہوا ۔ اس طرح اردو حروف تہجی کی کل تعداد چون (54) ہو گئی۔ جو اب تک نصابی لحاظ سے رائج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments