آدھے منٹ کا مزہ اور مہینوں کا عذاب


dr tehreem javaid

سوچیے آخر کون پاگل ہو سکتا ہے جو آدھے منٹ کے مزے کے لیے مہینوں کا عذاب گلے ڈال لے۔ پاکستانی مرد۔ جی ہاں۔ حماقت اور خود غرضی کی انتہا کو پہنچی یہ مخلوق ساری دنیا میں ناپید بھی ہو گئی تو وطنِ عزیز میں پھلتی پھولتی رہے گی۔ وجہ؟ پاکستانی عورت کی کم علمی۔

کلینک شروع کیا تو اکثر ایسی بیبیاں آ جاتی جو رازداری سے اکیلے میں ڈاکٹر سے بات کرنے کی خواہاں ہوتیں۔ مسئلہ کیا ہوتا۔ جی وہی۔ آدھے منٹ کا مزہ۔ جو لیتا تو کوئی اور تھا لیکن تاوان بیوی کو ادا کرنا پڑتا تھا۔ کبھی ٹوٹکے کام کر جاتے تو کبھی گولیوں کو آزمایا جاتا۔ کبھی جھلا کر کہہ دیتی۔ بی بی کیوں اپنی جان کی دشمن بنتی ہو۔ کوئی مستقل مانع حمل طریقہ استعمال کرو۔ انجیکشن یا کاپر ٹی وغیرہ۔ جی وہ اجازت نہیں۔ کیا اجازت نہیں۔ وہ جی بندہ کہتا ہے بچے روکنے سے گناہ ہوتا ہے۔ جیسے باقی کام تو شریعت سے پوچھ کر ہی کرتا ہے۔

میرا جسم میری مرضی جیسے گندے اور اخلاق باختہ نعروں کو اصل میں عورتوں نے عورت مارچ میں مرکزی حیثیت دے دی ہے۔ اس سے تو بے حیائی پھیلتی ہے۔ اور باقی جو کچھ بے غیرتی اس معاشرے میں پھیلائی ہوئی ہے وہ بھی عورتوں نے ہی پھیلائی ہے۔ خر ایک عورت کو اپنے جسم پہ اختیار کب ملے گا۔ کب اپنی ہی بچہ دانی میں کتنے بچے پالنے ہیں اس کا فیصلہ عورت کر سکے گی۔ لیکن بس جی وہ عورت مارچ والی عورتیں بے حیائی پھیلا رہی ہیں۔

چار بچے آپریشن سے ہوئے ایک بیٹا بھی ہے۔ دو بیٹیاں بھی۔ ایک فوت ہو گیا۔ شوہر کو کسی نے بتا دیا کہ بچے نہیں روکتے گناہ ہوتا ہے ایک اور بیٹا کرنا ہے۔ اب کیا کروں جی۔ بچہ دانی پھٹنے کا انتظار۔ اور کر بھی کیا سکتی ہے عورت کہ میکے نامی بے اثر جگہ سے ہر دورے پہ یہی پھکی کھلائی جاتی ہے گزارا کرو۔ قربانی سے ہی قدر ہوتی ہے جی جی یہی کوئی پچاس سال کے بعد ۔ بندہ پوچھے یہ پچاس سال میں ہونے والی قدر کا اچار ڈالنا ہے کیا۔ رکھو اس قدر کو اپنے پاس۔ یہ قدر کم اور مفت کی نوکرانی کی طلب زیادہ ہوتی ہے۔

کیا ہے یہ آدھے منٹ کا مزہ آخر جو دنیا کی کسی شے سے حاصل ہو کر ہی نہیں دیتا۔ صرف دنیا میں بچوں کی بہاریں لگا کر ہی ملنا ہے۔ چار سال کی شادی اور تین بچے خراماں خراماں آرہے ہوتے ہیں۔ کسی کی پاؤں میں جوتی نہیں تو کسی کے کپڑے پھٹے ہیں۔ ڈاکٹر ساب سستی دوائی دینا جی غریب لوگ ہیں۔ رحم کرو جی۔ ہاں جی بس تم بیوی کے حال پہ رحم نا کرنا۔ ہر سال نیا ماڈل نکالنا۔ اور آدھے منٹ کے مزے کی خاطر بچہ دانی بھری رکھنا۔

اور سنیں۔ ایک نو بیاہتا لڑکی آئی۔ ساتھ گھر کی تین چار پکی سی بی بیاں۔ بڑا جی مسئلہ بن گیا۔ تسی کجھ کر سو۔ اچھا کیا ہو گیا۔ وہ جی میرے شوہر کہتے ہیں تم میں کیا مسئلہ ہے جو تم میرے ساتھ فارغ نہیں ہوتی۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ بمشکل سر نوچنے سے خود کو روکا اور اس عظیم انسان کے بارے میں دریافت کیا تمہارا بندہ تو ہو جاتا ہے نا فارغ؟ جی وہ تو فوراً ہو جاتے ہیں بس مجھے کوئی دوائی دے دیں میرا مسئلہ ٹھیک ہو۔ ہاں جی دوائی کی ضرورت تو واقعی تمہیں ہی ہے بندہ تو ویسے بھی فارغ ہی ہے۔ چلو کوئی نہیں آدھے منٹ کا مزہ تمہیں ملے نا ملے بندے کو ملتا رہے بس۔ اور چاہیے بھی کیا انسان کو۔

ہر مہینے ماہواری نا آنے پہ یقین بے یقینی کے درمیان جھولتی کم عقل عورت آخر سمجھ بھی کیسے سکتی ہے اس جادوئی آدھے منٹ کے فضائل۔ یہی تو ہے زندگی کا حاصل۔ ایک کافی عمر رسیدہ سی بی بی الٹرا ساؤنڈ کرونے آئی۔ ماہواری کے مسائل اس عمر میں ہو جاتے ہیں یہی سوچ کر پوچھا کوئی ماہواری کا مسئلہ ہے۔ جی اس مہینے آئی نہیں نا۔ آئی نہیں مطلب۔ وہ جی کیا کریں بندے تو نہیں نا رکتے۔ غور سے دیکھا۔ کم از کم ساٹھ سال کی بی بی کا شوہر پینسٹھ کا تو ہو گا۔ خاتون کی صحت بتاتی تھی کہ خوراک کپڑا آرام نام کے گناہوں سے تو اسے دور ہی رکھا گیا لیکن زور ایک ہی کام پہ رکھا گیا۔ جی وہی۔ جس سے بندے نہیں رکتے۔ اس ہجوم کا کام بس یہی ہی رہ گیا۔ کھانا اور بچے پیدا کرنا۔ نا پڑھنا ہے نا سوچنا ہے۔ بس یہی کام کرنا ہے اور کیے جانا ہے۔

تیسری دنیا میں تو یہ مسائل قابلِ فہم ہیں لیکن کیا کریں کہ امریکا جیسے ملک میں بھی ٹرمپ پیدا ہو گیا ہے۔ اسقاطِ حمل کے حوالے سے اس کی سوچ بھی کچھ ہمارے والی ہی ہے۔ امریکن عورتیں بھی تھر تھر کانپ رہی ہیں کہ پاکستان والے کام یہاں بھی نا شروع ہو جائیں۔ چلیں امریکی تو اس کا بھی کوئی حل نکال ہی لیں گے لیکن پاکستانی عورت کو اپنی بچہ دانی پہ اختیار شاید اگلے سو سال بھی نا مل پائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments