اوئے بچی چیک کر ذرا، کیا غضب مال ہے


گزشتہ دنوں حاشر ابن ارشاد کی ایک پوسٹ نظروں سے گزری جو انہوں نے اپنی فیس بک وال پر شیئر کی تھی، ایک بچی جو ایک طویل عرصہ کے بعد اپنے وطن عزیز میں جہاں وہ پلی بڑھی تھی واپس آتی ہے تاکہ اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے مل سکے لیکن گھر پہنچنے سے پہلے ہی ائرپورٹ پر اس کے ساتھ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ ٹھٹھک کے رہ جاتی ہے اور اپنا سانحہ کچھ اس انداز میں پیش کرتی ہے۔

”میں نے بنا کسی خوف و خطر کے دنیا بھر میں اکیلے 24 گھنٹے بھی سفر کیا ہے مجھے ذرا سی پریشانی نہیں ہوئی لیکن وطن عزیز کے ائرپورٹ پر لینڈ کرنے کے کچھ ہی لمحوں بعد میں دس افراد کے جتھے کے بیچ اٹکی ہوئی ہوں جو ناصرف مجھے عجیب و غریب نظروں سے تاڑ رہے ہیں اور ساتھ میں یہ جملہ بھی بول رہے ہیں
”اوئے بچی چیک کرو“
بہت شکریہ میرے ملک کے باسیو! میرا اس قدر متاثر کن استقبال کرنے کا۔
اپنا سامان وصول کرنے اور اپنی فیملی کے ساتھ ملنے سے پہلے مجھے تکلیف پہنچائے اور رلانے کا شکریہ۔

ف ** دس کنٹری اینڈ پیپل، مجھے خوشی ہے کہ میں نے یہ ملک چھوڑ دیا اور مستقبل میں بھی میرا واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے“

یہ ایک طرح سے زور دار قسم کا طمانچہ ہے جو اس بچی نے ہماری بدبودار ذہنیت اور سماج پر رسید کیا ہے اور اس منافق سماج کے بڑوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ معاشرہ بچیوں کے لیے غیر محفوظ ہے۔

یہاں جنسی بھیڑیے بستے ہیں جو اپنی جنسی بھوک مٹانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

کچھ عرصہ پہلے بھی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں ایک خاتون میڈیسن لینے کے لیے کسی میڈیکل اسٹور پر جاتی ہے، جہاں ایک ادھیڑ عمر کا ایک باریش بزرگ اس کے ننگے بازو کا پہلے تو بغور جائزہ لیتا ہے، جب خاتون اس کی اس حرکت پر ذرا سرزنش کرتی ہے تو وہ ٹھرکی بوڑھا آ گے سے کہتا ہے کہ

”تمہارے ننگے بازو کو دیکھ کر میرا عضو تناسل تناؤ میں آ گیا ہے۔ اپنے بازو ڈھانپ کر رکھا کرو“
اس بہادر خاتون نے اس بڈھے ٹھرکی کی وڈیو بنا ڈالی اور اسے معافی مانگنے پر مجبور کر دیا۔

حاشر نے اپنی بیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وہ بھی جب کبھی پاکستان آتی ہے تو کچھ اسی قسم کے تاثرات کا اظہار کرتی ہے جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔

میری بیٹیاں تو اکثر مجھ سے سوال کرتی رہتی ہیں

”بابا جب ہم اسکول یا اکیڈمی جاتی ہیں تو لوگ بچیوں کو گھور گھور کر کیوں دیکھتے ہیں اور عجیب و غریب حرکتیں کیوں کرنے لگ جاتے ہیں؟“

میں ان کو کہتا ہوں کہ آپ کو کچھ بھی عجیب لگے یا کوئی انکل راستہ کاٹنے کی کوشش کرے تو آپ نے ڈرنا بالکل نہیں ہے بلکہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ مزاحمت کرنی ہے اور درپیش صورت حال کا عقل مندی سے سامنا کرنا ہے، مجھے یقین ہے کہ تم کر سکتی ہو۔

رہا معاشرہ تو اس نے سدھرنا بالکل بھی نہیں ہے، بند اور جامد سماج ٹھہرے ہوئے گدلے پانی کی طرح ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بدبودار ہوتے چلے جاتے ہیں۔

یہاں تو معصوم بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جو معاشرتی شکاریوں کا آ سان ترین ہدف ہوتے ہیں، بچیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں ان کو تو ٹریٹ ہی پرایوں کی طرح سے کیا جاتا ہے، ان کو تو تعلیم بھی مجبوری میں دلوائی جاتی ہے تاکہ سماجی ناک کا بھرم بھی رہ جائے اور رشتے بھی اچھی جگہ پر ہو جائیں۔

ہم میں سے کتنوں کو اس بات کا پتا ہے کہ جو ہم روزانہ کی بنیاد پر مخصوص ذہنیت کے سائے تلے بچیوں کو وعظ و نصیحت یا تلقین کرتے رہتے ہیں اس کا ان کی ذہنی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟

ان کو باقاعدہ سیکھ دی جاتی ہے کہ انہیں سماج میں خود کو پاکدامن ثابت کرنے کے لیے کیسے بچ بچا کے چلنا ہے۔ انہیں تاکید کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ کیسے بیٹھنا ہے، کس سمت چلنا ہے، کیا پہننا ہے اور کس طرح سے چلنا ہے۔

ان کے وجود، رہن سہن اور ذہن پر نجانے کتنوں کی نظر ہوتی ہے، ذرا سے انحراف پر نجانے کیسے کیسے طعنے سننا پڑتے ہیں حتیٰ کہ کردار تک پر سوال اٹھا دیے جاتے ہیں۔

جن کے وجود پر اتنے ساروں کا کڑا پہرہ لگا ہو ان کی شخصیت و شناخت تو ویسے ہی مسخ ہو جاتی ہے وہ بھلا اس قدر گندے سماج میں اعتماد کے ساتھ کیسے گھوم سکتی ہیں؟

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ آئے روز درندگی و بربریت یا ریپ کے جو واقعات ہوتے ہیں ان کے اثرات ہماری بچیوں کی ذہنی صحت کو کس طرح سے ادھیڑ کے رکھ دیتے ہیں؟

آ خر ان کے ذہنوں میں بھی تو کئی طرح کے سوالات کلبلاتے ہوں گے؟

وہ سوچتی تو ہوں گی نا! کہ جب ہم گاڑی یا رکشہ میں سفر کرتی ہیں تو سامنے بیٹھا ہوا مرد فوراً سے اپنے عضو تناسل کو کھجانا یا دو انگلیوں کے بیچ لے کر دبانا کیوں شروع کر دیتا ہے؟

یونیورسٹی میں مارکس یا جی بی کے چکروں میں مرد اساتذہ یا کلرک ہمارا ذہنی و جسمانی استحصال کیوں کرتے ہیں؟

کیا ہم محض جنسی کھلونے ہیں جن کا کام صرف مردوں کو جنسی تسکین پہنچانا اور انہیں خوش کرنا ہے؟
اور انہیں اپنا جائز کام کروانے یا حق لینے کے لیے اپنی عزت کی بلی کیوں چڑھانا پڑتی ہے؟
انہیں ہر وقت یہ کیوں سننا پڑتا ہے کہ مرد تو بس یونہی ہوتے ہیں بس خواتین کو ذرا سنبھل کر رہنا چاہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments