پارلیمنٹ کی غلط فہمی اور سپیکر کی معاملہ فہمی
وسعت اللہ خان - تجزیہ کار
عزت مآب سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے بس میں جو کچھ تھا، انھوں نے کر دیا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق منگل کی صبح تقریباً تین بجے پارلیمنٹ کے احاطے میں گھسنے والے نقاب پوشوں کے ہاتھوں تحریکِ انصاف کے لگ بھگ 10 ارکانِ اسمبلی کو اٹھا کر باہر کھڑی پولیس کے حوالے کرنے کے آپریشن کا سخت نوٹس لیتے ہوئے سپیکر صاحب نے پارلیمنٹ کے حفاظتی عملے کے سربراہ (سارجنٹ ایٹ آرمز) سمیت پانچ سیکورٹی اہل کاروں اور کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے مستعار کچھ نچلے درجے کے الیکٹریشن ٹائپ ورکرز کو عارضی طور پر بادلِ نخواستہ معطل کر دیا (البتہ شدید مہنگائی کے پیشِ نظر ان کی تنخواہیں معطل نہیں ہوئیں)۔
ان سکیورٹی اہلکاروں کا فرض تھا کہ وہ پارلیمانی احاطے میں گھسنے والوں کی مزاحمت کرتے اور عمارت کی بجلی عارضی طور پر معطل کرنے کے ’پُراسرار احکامات‘ نہ مانتے۔ (حالانکہ یہ کام تو بڑے بڑے ریاستی طرم خان نہیں کر پا رہے چے جائیکہ یہ مسکین سرکاری اہلکار۔)۔
عزت مآب سپیکر نے آئی جی اسلام آباد کو طلب کر کے ان کی لفظی گوشمالی بھی کی۔ شاید جنابِ سپیکر نے آئی جی سے یہ استفسار بھی کیا ہو کہ باہر تو آپ کی پولیس کھڑی تھی۔ پھر نقاب پوش اندر کیسے گھسے؟ وہ آپ کے بندے تھے یا پھر آسمانی تھے۔ انھیں کس نے بھیجا؟
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کے معاملے میں کوتاہی برتنے پر سارجنٹ ایٹ آرمز اور دیگر چار سکیورٹی اہلکاروں کو چار ماہ کے لیے معطل بھی کیا ہے
اس پر آئی جی صاحب نے شاید کندھے اُچکا کے سر جھکا لیا ہو یا پھر ’جی سر ہم ان لوگوں تک انشا اللہ جلد پہنچ جائیں گے‘ ٹائپ کوئی چالو سی یقین دہانی کروائی ہو۔ جیسا کہ اسلام آباد کا ہر آئی جی ہر عدالت میں طلبی کے بعد کرواتا ہے۔
شاید سپیکر صاحب نے آئی جی صاحب سے یہ بھی کہا ہو کہ جن لوگوں نے پارلیمانی احاطے کی حرمت پامال کی ان کے خلاف میری مدعیت میں پرچہ کاٹا جائے۔ شاید آئی جی صاحب نے اس پر بھی ’جی سر، جی سر‘ کہتے ہوئے کہا ہو کہ ’ہمیں ابتدائی تفتیش مکمل کر لینے دیں۔ پھر آپ جو بھی کہیں گے کر لیں گے انشا اللہ۔‘
ویسے اس واقعے کی ’آزادانہ و شفاف تحقیقات‘ کے لیے ایک ایڈیشنل سیکریٹری کی سربراہی میں چار سینیئر بیوروکریٹس پر مشتمل جانچ کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔
یہ کمیٹی پارلیمنٹ کے سکیورٹی انتظامات اور اس کے احاطے میں ’غیر متعلقہ عناصر‘ کی نقل و حرکت پر رپورٹ تیار کرے گی۔ پھر رپورٹ کا کیا ہو گا؟ یہ واضح نہیں۔
مگر چھان بین شروع ہونے سے پہلے ہی جنابِ سپیکر کی جماعت مسلم لیگ نون کی حکومت کے وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے ممکنہ تحقیقات کی کشتی میں یہ کہہ کر سوراخ کر دیا کہ کسی رکن اسمبلی کو پارلیمنٹ بلڈنگ میں گھس کے حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔ البتہ سی سی ٹی فوٹیج میں صرف دو ارکان اسمبلی دکھائی دے رہے ہیں جنھیں پارلیمنٹ ہاؤس کی سروسز برانچ سے پکڑا گیا۔
(گویا وزیرِ اطلاعات یہ تاثر دے رہے ہیں کہ سپیکر صاحب نے ناقص معلومات کی بنیاد پر اہلکاروں کی معطلی کا فیصلہ کر دیا۔ سپیکر صاحب کو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ پارلیمنٹ کی سروسز برانچ پارلیمنٹ کے احاطے میں ضرور ہے مگر پارلیمنٹ کا حصہ نہیں۔ لہذا وہاں جو کچھ بھی ہو وہ پارلیمنٹ کے کسٹوڈین کے دائرہ اختیار سے باہر ہے)۔
سپیکر صاحب نے پارلیمنٹ کی کارروائی خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے اپوزیشن اور حکومتی ارکان پر مشتمل ایک اٹھارہ رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ (بالکل ایسے جیسے محرم اور ربیع الاول کے موقع پر امن کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں)۔
پاکستان کی تاریخ میں پارلیمنٹ کے احاطے میں بہت کچھ ہو چکا ہے۔ مثلاً 23 ستمبر سنہ 1958 کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے جگن ناتھ ہال میں ہونے والے مشرقی پاکستان صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں کوئی قرار داد مسترد ہونے پر سر پھٹول ہو گئی اور کسی رکنِ اسمبلی نے ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری کے سر پر پیپر ویٹ دے مارا۔ چار دن بعد زخمی ڈپٹی سپیکر ہسپتال میں چل بسے۔
دس ستمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں گھس کے ارکانِ اسمبلی کو اٹھانے کا واقعہ اپنی نوعیت کی پہلی واردات ہے جس میں پارلیمانی ارکان کے بجائے ماتحت اداروں کے نقاب پوشوں نے آئین کی ماں کے سر سے دوپٹہ کھینچ لیا
سنہ 1975 میں سٹیٹ بینک اسلام آباد کے ہال میں منعقد ہونے والی قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے جب ہنگامہ آرائی کی تو سپیکر کے حکم پر سارجنٹ ایٹ آرمز اور ان کے سکیورٹی عملے نے مولانا مفتی محمود سمیت حزبِ اختلاف کے متعدد ارکان کو ڈنڈا ڈولی کر کے پارکنگ لاٹ میں احترام کے ساتھ زمین پر رکھ دیا۔
آج کل پارلیمان میں حکمراں مسلم لیگ نون کے ارکان ہنگامہ آرائی اور نازیبا زبان کے استعمال کا سہرا پی ٹی آئی کے غصیلے ارکانِ اسمبلی کے سر باندھتے ہیں۔ مگر 2012 کے بجٹ اجلاس میں حزبِ اختلاف مسلم لیگ نے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی موجودگی میں وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی تقریر نہ صرف سننے سے انکار کر دیا۔ بلکہ بجٹ کی کتابیں پھاڑ ڈالیں۔ کچھ ارکان وزیرِ اعظم کی طرف لپک پڑے۔ انھیں بچانے کے لئے پیپلز پارٹی کے ارکان نے انسانی زنجیر بنائی اور پھر دھکم پیل، مار کٹائی، ماں بہن شروع ہو گئی۔
مزاج اس قدر بے قابو تھے کہ بے بس قائدِ حزبِ اختلاف چوہدری نثار علی خان بھی اپنی نشست پر سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔ تب بھی آج کی طرح ایوان کی کارروائی پرامن طور پر چلانے کے لئے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنی تھی۔
مگر دس ستمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں گھس کے ارکانِ اسمبلی کو اٹھانے کا واقعہ اپنی نوعیت کی پہلی واردات ہے جس میں پارلیمانی ارکان کے بجائے ماتحت اداروں کے نقاب پوشوں نے آئین کی ماں کے سر سے دوپٹہ کھینچ لیا۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف جن کی شدھ پارلیمانی زبان کے چار دانگِ عالم میں چرچے ہیں۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے احاطے سے ارکان کو اٹھائے جانے کو غیر معمولی واقعہ سمجھنے کے بجائے سیاسی کشیدگی کے تسلسل کی کڑی قرار دینے کی کوشش کی۔
اگست سنہ 2014 میں اسی پارلیمنٹ کی آہنی باڑھ پر دھلے ہوئے کچھے بنیان سکھانے والی حزبِ اختلاف پی ٹی آئی دس ستمبر کی واردات کو جمہوریت کا نائن الیون قرار دے رہی ہے تو دوسری جانب سرکار اسے ایک اتفاقی حادثے سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں سپیکر ایاز صادق کا اپنے ہی سیکورٹی عملے پر علامتی غصہ نکالنا بھی بڑی بات ہے۔ ادھار میں ملی پارلیمنٹ کا کسٹوڈین اور کرے بھی تو کیا کرے۔
بچپن میں جب ماں کبھی کبھار الٹی جھاڑو یا کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے پٹائی کرتی تھی تو میں صحن میں بندھی بکری کے کان کھینچ کر خود کو ٹھنڈا کر لیتا تھا۔
اب بس یہ فکر ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری واقعہ ہو۔ ورنہ اگلی تصویر یہ بن سکتی ہے کہ کچھ پراسرار بندے بھرے ایوان سے کچھ ارکان کو بغلوں میں ہاتھ دے کر باہر لے جا رہے ہیں اور باقی ایم این اے لاتعلق بنے یہ سوچ رہے ہیں کہ خدا کا شکر ہے اس بار ہم نہیں ہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).