حالات کا موڑ: شکست تخت پہلوی (11)
پرشین گلف میں واقع جزیرہ ’کیش‘ صدیوں سے تجارت اور بحری قزاقوں کی آماجگاہ رہا۔ شاہ نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں پہلی بار کیش دیکھا۔ جہاں ماہی گیری اور اسمگلنگ زوروں پر تھی۔ وہ اس جزیرے کو دیکھ کر مبہوت ہو گئے۔ کیش کا لمبا ساحل، آب وہوا اور لوکیشن یہ تعطیلات کے لیے بہترین مقام بن سکتا ہے۔ کیش ایران سے دور بھی نہیں تھا۔ شاہ کیش کو مغربی دنیا کے لیے بھی ایک سیاحت کا مقام بنتا دیکھ رہے تھے۔ پہلوی خاندان مارچ 1976 میں نوروز منانے کیش گیا۔ کیش میں ان کا محل سادہ لیکن آرم دہ تھا۔ فرح اور بچے بھی یہاں آ کر بہت خوش ہوتے۔ وہ سب سوئمنگ کرتے لیکن دور نہیں جاتے کیونکہ وہاں شارک مچھلیوں کا خطرہ تھا۔ لیکن شاہ بہت دور تک تیرتے۔
جب سارے مہمان ساحل پر لطف اندوز ہو رہے تھے شاہ کو کچھ اہم فیصلے کرنے تھے۔ دو سال پہلے دربار کے وزیر علم نے انہیں تجویز دی تھی کہ وہ اپنے اختیارات میں دوسروں کو شریک کریں۔ شاہ کو بھی اب اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ جمہوریت کا سسٹم لانا ہو گا۔ شاہ کی اپنی صحت کے مسائل تھے اور ساتھ ہی نئے وارث کے لیے وقت کی تنگی۔ تیل کی دولت نے ایران کو امیر تو کر دیا لیکن اس طرح ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ شاہ نے اس پر ایک کمیٹی بنا دی جس کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ شاہ کو کئی طرح کے چیلنج درپیش ہیں۔ معیشت، اداروں کی کرپشن، سیاست پر پابندی، نوجوانوں کا غصہ، بیرونی طاقتوں خاص کر امریکہ کی مداخلت اور شہروں میں بڑھتی ہوئی ورکنگ کلاس کے مسائل۔ شاہ ابھی تک سیاسی اداروں کو فعال نہیں کرسکے۔ پہلوی ریاست تین روایتی ستونوں پر کھڑی تھی۔ علما، تاجر جنہیں بازاری کہا جاتا ہے اور دانشور۔ شاہ کا خیال تھا کہ 1963 کا کریک ڈاؤن، انقلاب سفید اور تیل کی بہتات سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ 1976 تک ان تینوں گروپس نے آپس کے اختلافات چھوڑ کر اتحاد کر لیا اور ریاست کے خلاف فعال ہو گئے۔ علما اور اینٹلیکچولز کی شکایات تو سمجھ میں آتی تھیں لیکن تاجروں کا اس اتحاد میں شریک ہونا اس وجہ سے تھا کہ ان کی تجارت کرپشن کی وجہ سے نقصان میں جا رہی تھی۔
اگر مسجد ایران کا دل ہے تو بازار سانس لینے والے پھیپڑے۔ بازار صرف دکانوں کا مجموعہ نہیں، یہ بڑی طاقت ہے۔ یہاں روزانہ کئی سو ملین ڈالر کا لین دین ہوتا۔ بڑے تاجر بھی اور چھوٹے دکاندار بھی۔ بازار ہمیشہ کسی مسجد کے موڑ یا کنارے پر ہوتے اور اس کی ایک معقول وجہ ہے۔ علما ان تاجروں پر پورا اعتماد کرتے اور ان کے ذریعہ سے اپنی رقوم کی ٹرانزیکشن کرواتے۔ 1976 کے آخر تک علما کی آمدنی کا کل 80 فیصد خیراتی کاموں، مذہبی مدرسوں، ناشروں اور دینی کالجوں میں انویسٹ ہوتا تھا۔ بازاری علما کو مظاہرے کرنے کے لیے ہجوم اکٹھا کرنے میں بھی مدد کرتے۔ مثال کے طور پر اگر علما کو رمضان یا محرم میں لاکھوں کی تعداد میں جلوس نکالنا ہوتا تو انہیں توقع ہوتی کہ بازار سے پانچ ہزار کا ہجوم آ جائے گا جو جلوس کا نظم و نسق سنبھال لے گا۔ تہران کے جنوبی اور مشرقی حصہ میں خمینی کے حامیوں کا زور تھا۔ جمہوریت کی عدم موجودگی میں ’بازاری‘ بھی ملاؤں کے مذہبی جلوسوں میں شامل ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے۔
شاہ ایران کو فرانس جیسا مضبوط اور مربوط ملک بنانا چاہتے تھے۔ شاہ اور ان کی حکومت نے تاجروں اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کے لیے قوانین بنائے۔ بازاریوں نے اس بات پر احتجاج کیا کہ نئے قانون کے تحت ہر تاجر کو اپنے ملازموں کا ڈیٹا دینا ہو گا خواہ وہ جز وقتی کام کرتے ہوں تاکہ کام چھٹنے کی صورت میں انہیں سوشل ویلفیر سے مدد مل سکے۔ تاجروں نے اس حکومت کی بے جا مداخلت قرار دیا۔ ایرانی اپنی طبیعت کے لحاظ سے شکی ہیں اور حکومت کے اس قدم کو ٹیکس میں اضافہ کا شاخسانہ سمجھا۔ تاجر طبقہ پریشان تھا کہ شاہ کی ریفارمز کی وجہ سے ان کی طاقت اور دولت خطرے میں ہے۔
تیل کی دولت بہتی آ رہی تھی۔ ایران میں لوگوں کا معیار زندگی روزانہ کی بنیاد پر بلند ہو رہا تھا۔ تہران کا موازنہ سان فرانسسکو سے کیا جانے لگا۔ عوام کی قوت خرید بڑھی تو خریداری بھی بڑھنے لگی۔ تہران دن میں ابر اور اسموگ میں گھرا نظر آتا لیکن رات میں شہر کے ریسٹورانٹ اور نائٹ کلب کھچاکھچ بھرے ہوتے۔ شہر کے متمول افراد بہترین خاویار کھاتے, بیلی ڈانس رقاصہ کے لباس میں نوٹوں کی گڈیاں ٹھونستے نطر آتے۔
مغربی ممالک کی معیشت تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے کمزور ہونے لگی اور وہ کساد بازاری کا شکار ہونے لگے تو ایران کی چڑھتی ہوئی طوفانی معیشت کو بھی جھٹکے لگنے لگے۔ ان ملکوں نے تیل اور اس سے بنی مصنوعات کی خریداری کم کر دی۔ شاہ کے لیے یہ غیرمتوقع صورت حال تھی۔ وہ خود بھی کئی بڑے پراجیکٹس میں پیسہ لگا چکے تھے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ لوگوں کا معیار زندگی جلد از جلد بلند ہو جائے تاکہ وہ کسی انقلاب کی طرف نگاہ نہ ڈالیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ تیل کمپنیاں تیل کی فروخت کی ذمہ دار نہیں تھیں۔ مارکیٹ ڈاؤن ہونے سے ایران کے تیل کے بھرے بیرل دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دوسرا بڑا غلط قدم جو شاہ نے اٹھایا وہ خود اپنے پیر پر کلہاڑا مارنے کے مترادف تھا۔ تخت کو ریاست سے الگ رکھنے کے لیے انہوں نے دو معمولی سیاسی پارٹیوں کو کالعدم کر کے اینی نئی پارٹی بنام ’رستاخیز پارٹی‘ کا اجرا کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ ’شاہ کی پارٹی‘ تھی جس کا صرف اور صرف یہی مصرف تھا کہ شاہ اور تخت کو مضبوط کیا جائے۔ رستاخیز پارٹی کا اجرا 1906 کے آئین کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ تیسرا غلط قدم کلینڈر کی تبدیلی تھی۔ پہلے سے رائج اسلامی ہجری کلینڈر کو شمسی کلینڈر سے بدل دیا گیا جو کوروش کی پیدائش کے دن سے شروع ہوتا۔ کوروش 599 قبل مسیح دنیا میں آئے۔ اس اقدام سے مذہبی حلقوں میں مزید بے چینی بڑھی۔ ایرانی رات کو سوئے تو وہ سال 1355 میں تھے اور جب جاگے تو سنہ 2535 تھا۔ اس وقت تک شاہ اور ان کے وزیر اعظم تنہائی کا شکار ہو چکے تھے لیکن شاہ اپنی سوچ پر قائم تھے۔ ایک بار نہایت خود اعتمادی سے کہا ”میرا طریقہ یہ ہے کہ مشورہ کرو، پھر جو رائے آئے، اس کے عین برعکس اقدام کرو“۔ ایک اور بار اسی فخر سے کہا ”میں نہ صرف فیصلے کرتا ہوں بلکہ میں سوچتا بھی ہوں“
جب ایران کی معیشت کمزور ہوئی تو مذہب نے طاقت پکڑ لی۔ مسلمانوں نے ماڈرن ازم کو رد کر دیا جس میں بدعنوانی بڑھی اور سیاست پر قدغن لگی۔ لوگ مذہب کی طرف مڑ رہے تھے۔ ان کے خیال میں اس ترقی اور ماڈرن ازم نے انہیں ذہنی سکون نہیں دیا۔ نومبر 1974 میں سعودی حکام نے بتایا کہ اس سال حج میں زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ایران میں عوام کی پہلی بے چینی جون 1975 میں ایک بڑے مظاہرے کی شکل میں سامنے آئی۔ آیت اللہ خمینی کے حامیوں نے قم میں فیضیہ کے مقام پر جلسہ کیا تھا۔ شاہ کا ابتدائی رد عمل اس پر یہ تھا ”یہ ’سیاہ پوشوں‘ اور ’سرخوں‘ کا ناپاک گٹھ جوڑ ہے“۔ ان کے سامنے جب خمینی کا نام لیا جاتا تو وہ کہتے ”خمینی؟ یہ نام یہاں اب کوئی نہیں لیتا۔ شاید کچھ دہشت گرد کبھی کبھار اس کا ذکر کرنے ہوں گے۔ اور بس“۔
ایرانیوں نے خود کو مذہب کی طرف موڑ لیا۔ صرف غریب اور ان پڑھ ہی نہیں، حکومتی اہلکاراور ٹاپ رینک کے جنرل بھی مذہبی ہونے لگے۔ مقدس مقامات کی زیارت کو جاتے، قرآن کی تعلیمات کے اسٹڈی گروپس میں داخل ہو گئے۔ جمعہ کی نماز میں تمازیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ وہاں مالدار اور با اثر لوگ بھی آتے اور نادار لوگوں کے مطالبات کی حمایت کرتے۔ امور خواتین کی وزیر مہناز افکخانی کا کہنا ہے ”لگتا تھا کہ ہمیں مذہب کی ضرورت تھی۔ ہم بہت تیزی سے بڑھ رہے تھے ایک ایسے مقام کی طرف جو ہمارا نہیں تھا۔“
اکتوبر 1976 میں اسد اللہ علم نے شاہ سے بات کی کہ شاہ کی بہن شہزادی فاطمہ اور شاہ کی ساس مادام دیبا اور چند دیگر خواتین کو زیارت کے لیے مشہد کے مقدس شہر جانا ہے اور اس کے لیے انہوں نے آرمی کے 707 جہاز کی درخواست کی ہے۔ شاہ برہم ہو گئے۔ ”ان کے خیال میں ملٹری کے جہازوں کا اور کوئی کام نہیں جو وہ ان خواتین کو زیارت پر لے جائے؟“ شاہ جس بات کے لیے بالکل تیار نہیں تھے وہ یہ تھی کہ ان کی اپنی بیٹی شاہناز نے سیکولرازم کو خیرباد کہہ کر مذہب اپنا لیا۔ وہ جوان خوش شکل شہزادی جسے سان فرانسسکو کے پھول سے مشاہبت دی جاتی تھی اب سر سے پیر تک سیاہ لباس میں ملبوس رہتی اور اس پر سیاہ چادر۔
شہزادی شاہناز شہنشاہیت سے باغی ہوئیں اور اب مذہی ہو گئیں۔ ان ہی کی طرح نئی نسل کے اور لوگ بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ اپنی ثقافتی جڑوں سے کٹ گئے ہیں۔ بیرونی یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کے واپس لوٹنے والے حیرت سے دیکھتے کہ اس ملک میں کتنے سنجیدہ سماجی مسائل ہیں۔ انہوں نے شاہ کو ہی اس غربت اور جہالت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ محروم طبقہ مذہب کی طرف رخ کرگیا۔ بہت کم لوگ قرآن پڑھ سکتے تھے، جو پڑھ سکتے تھے، وہ بھی شیعہ مذہب کی گہرائی تک پہنچ نہیں پاتے لیکن پھر بھی وہ خود کو اس سے وابستہ سمجھتے تھے۔ شہزادی شاہناز کے شوہر خسرو جہان بانی شادی سے پہلے ہی اپنی منگیتر کے کزن شہزادہ پاتریک پہلوی کے گھر منتقل ہو گئے تھے۔ پاتریک پہلوی شاہ کے بھائی شہزادہ علی رضا کے بیٹے تھے اور ولیعہد کی پیدائش سے قبل تخت طاوس کی وراثت میں ان کا بھی نام تھا۔ علی رضا ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ پاتریک کی والدہ کیتھولک تھیں۔ ان کا تعلق پولینڈ سے تھا اور پاتریک کی تربیت اسی مذہب کے تحت ہوئی۔ بڑے ہونے پر ان کی دلچسپی ’تائوازم‘ فلسفے کی طرف ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی مختلف مذاہب کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ پاتریک ایران واپس آئے اور دوبارہ سے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ وہ آیت اللہ مالایری کے جو ایک سخت گیر ملا تھے شاگرد بن گئے اور اپنے چچا کو سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
اس وقت پاتریک پہلوی کی رومانی دوستی کیتھرینا عدل کے ساتھ تھی جو پروفسر عدل کی بیٹی تھی۔ عدل شاہ کے سرجن تھے اور ان کے گنے چنے دوستوں میں سے تھے۔ کوہ پیمائی کے ایک حادثے میں کیتھی مفلوج ہو گئی اور پاتریک سے دوستی ختم ہو گئی۔ وہیل چیئر پر بیٹھی کیتھی سخت ڈیپرشن کا شکار ہوئی اور اس نے منشیات میں پناہ لی۔ بالآخر کیتھی نے بہنام حجت سے شادی کرلی جو خود بھی نشے کا عادی تھا اور ایک میجر جنرل کا بیٹا تھا۔ جس بات کی امید ہی نہیں تھی وہ ہو گئی۔ کیتھی حاملہ ہوئی اور ایک بیٹی کو جنم دیا۔ نشے میں دھت رہنے والے جوڑے نے اپنی زندگی کو ایک نیا موڑ دیا اور پاتریک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاسی اسلام میں داخل ہو گئے۔ لیکن وہ ایک قدم آگے بڑھ گئے 1975 میں دونوں پہاڑوں پر فرار ہو گئے۔ خفیہ طور پر کچھ ہتھیار اور آتش گیر مواد بھی لے گئے۔ ان کی نیت ریاست کو الٹانے کی تھی۔ وہ زیادہ دور نہ جا سکے کیونکہ کیتھی مفلوج تھی بمشکل چل سکتی تھی۔ ان کے ساتھ دو بچے بھی تھے، کیتھی کی بیٹی اور بہنام کا پہلی بیوی سے ایک بیٹا۔ انہوں نے ایک حملہ کیا اور کئی مقامی پولیس افسروں کو ہلاک کر دیا۔
سیکیورٹی فورس نے جلد انہیں آن لیا اور غار میں اس جوڑے کو فائرینگ کر کے ہلاک کر دیا۔ دونوں بچے بچ گئے وہ اپنے والدین کی لاشوں کے نیچے دبے ہوئے تھے۔
اس المیے نے پہلوی خاندان اور اونچی سوسائٹی کو ہلا کر رکھ دیا۔ شاہ اور ملکہ کیتھی کو اس کے بچپن سے جانتے تھے اور ان کے خاندانی تعلقات تھے۔ کیتھی کی بدلتی ہوئی زندگی اور اچانک موت نے سب کو غمزدہ کر دیا۔ شہزادہ پاتریک پہلوی نے ایک بیان میں شاہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اس بیان کے نتیجے میں انہیں تہران کی مشہور جیل ایوین جانا پڑا۔ کسی وقت وہ تخت طاوس کے وارثوں میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیل میں ان پر سترہ دن تک پوچھ گچھ میں ذہنی تشدد کیا گیا۔ جیسے ہی وہ رہا ہوئے انہیں نظر بند کر دیا گیا۔
شہزادی سروناز نے جو شاہ کے سوتیلے بھائی عبدل رضا کی بیٹی تھیں کھل کر بیان دیا کہ وہ شاہ سے شدید نفرت کرتی ہیں۔ اور انقلاب کی رہنمائی کریں گی۔ سب سے زیادہ شہزادی شاہ ناز اور خسرو جہان بانی کیتھی کے المناک انجام سے دکھی ہوئے۔ وہ سب آپس میں دوست تھے۔ ردعمل کے طور پر انہوں نے بھی خمینی کے اسلام کو قبول کر لیا۔ شاہ کو اس بات کا دلی صدمہ تھا کہ ان کی اپنی بیٹی ان کے خلاف ہے۔ شاہ ناز اور ان کے شوہر خسرو نے پہلوی وراثت سے انکار کر دیا تھا لیکن مراعات کا تقاضا کرتے رہے۔ وہ سعد آباد کے ایک ویلا میں مفت رہائش رکھتے تھے۔ خسرو اپنی بیوی کو مالی مدد کے لیے بار بار شاہ کے پاس بھیجتے۔ ان کے تعلقات مجاہدین کے ساتھ بھی تھے جو کئی ریاست مخالف کارروائیوں میں سرگرم تھے جن میں حکومتی اور سیکیورٹی افسران کا قتل، پولیس پر حملے اور امریکی ملٹری افسر کا قتل شامل تھے۔ وہ شہنشاہیت کے شدید مخالف تھے۔ اگر شاہ کو کسی بغاوت کی فکر تھی تو ایک باغی تو ان کی اپنی کھانے کی میز پر بیٹھا تھا۔
شاہ کا علاج بہت رازداری سے جاری تھا۔ فرانس سے ڈاکٹرز رات کے اندھیرے میں آتے اور اندھیرے میں ہی واپسی کی پرواز لیتے۔ ڈاکٹر فلادرین نے کل ملا کر 47 وزیٹس کیں۔ پہلی 19 فروری 1975 میں اور آخری بار دسمبر 1978 میں جب انقلاب زوروں پر تھا۔ وہ ہر ماہ کے تیسرے سنیچر کو آتے اور پیر کو واپس چلے جاتے۔ ڈاکٹر کی آمد اور ان کا قیام نہایت خفیہ رکھا جاتا۔ شاہ کو دوایں لکھ دی جاتیں اور تہران کی ایک فارمیسی سے نہایت رازداری سے منگائی جاتیں۔ تہران میں شاہ ڈاکٹر عباس صفاویانی کی زیر نگرانی رہتے جو دربار کے وزیر علم کا علاج بھی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ شاہ کے ذاتی ڈاکٹر جنرل آیادی جن کا کام شاہ کی دواؤں کی نگرانی کرنا تھا۔
شاہ کے خون کا ٹسٹ ان کے ایک خدمت کار امیر پور شجاع کے نام سے تہران کی لیبارٹری سے فرانس کی لیبارٹری میں لے جایا جاتا۔ ہر پانچ دن بعد امیر پورشجاع فون پر دواؤں کا آرڈر دیتے اور ایک ڈرایؤر کو بھیج کر یہ دوائیں منگاتے۔ جنرل آیادی کا کام تھا کہ ان دواؤں کو بوتلوں میں بھریں۔ ہر بوتل میں پانچ دن کی دوا ہوتی۔ چھٹے دن پھر ڈارئیور بھیجا جاتا اور دوا منگائی جاتی۔
فرنچ ڈاکٹروں کی ٹیم نے تشوش کا اظہار کیا کہ شاہ کو دوا کی صحیح مقدار نہیں دی جا رہی۔ آیادی سے یہ ذمہ داری واپس لے لی گئی لیکن شاہ نے انہیں کوئی الزام نہیں دیا۔ ڈاکٹر حیران تھے کہ دوا کا اثر کیوں نہیں ہو رہا۔ تلی بڑھی ہوئی تھی اور خون ٹسٹ کی رپورٹ بھی اچھی نہیں تھی۔ ان یہی خیال تھا کہ شاہ کو جانے انجانے میں دوا کی درست مقدار نہیں دی جا رہی یا بوتلوں میں غلط گولیاں بھری گئی ہیں۔
دواؤں میں گڑبڑ کا معاملہ حل نہ ہوا۔ 1976 میں نوروز منانے جب شاہی خاندان کیش گیا تو فرح نے نوٹ کر لیا کہ شاہ کے لبوں پر سوجن ہے۔ جون میں شاہ نے جنرل آیادی سے پیٹ میں درد، جلد کی سوزش اور سر درد کی شکایت کی۔ موسم گرما کی آخر میں جا کر دواؤں کا صحیح استعمال شروع ہوا
شاہ خود کو کتنا ہی مضبوط ظاہر کر لیں اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے تھے کہ وہ ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ تخت کی وراثت کا مسئلہ اپنی جگہ تھا۔ ولیعہد ابھی کم سن تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ ولیعہد بیس برس کا ہو جائے تو وہ اقتدار اسے سونپ دیں۔ اس کا اظہار وہ کئی بات انٹرویوز میں کر چکے تھے۔ کیش جانے سے دو ہفتے قبل انہوں نے نیوز ویک کو ایک انٹرویو میں کہا ”شہزادے کو پہلے ہائی اسکول پاس کرنا ہے اور پھر ملٹری کی ٹرنینگ ہوگی۔ یورپ کے شاہی خاندانوں میں بھی یہی ہوتا ہے۔ شہزادے ملٹری کی ٹریننگ لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ بادشاہ کمانڈر ان چیف بھی ہو عوام اپنے بادشاہ کو اپنا باپ، استاد، رہبر اور قابل اعتماد حکمران سجھتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں کہا“ میرا ارادہ ہے کہ جلد ریٹائر ہو جاؤں۔ ساڑھے بارہ برس تک۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو۔۔۔”
- شہادت کی پیاس: شکست تخت پہلوی (12) - 30/09/2024
- حالات کا موڑ: شکست تخت پہلوی (11) - 14/09/2024
- تیل کا بادشاہ: شکست تخت پہلوی (10) - 26/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).