ہاتھی دانت کے ٹکڑے پر لکھی گئی ٹویٹ


مارچ کا وسط آن لگا۔ جنوری کی ٹھنڈک اور مئی کی تپش اس طرح گلے مل رہی ہیں کہ پابلونرودا یاد آجاتا ہے جس نے محبوب کے نام نظم میں وعدہ کیا تھا ’میں تمہارے ساتھ وہی کروں گا جو بہار چیری کی سفید شاخوں سے کرتی ہے‘۔ کوئی پوچھے کہ بہار نے چیری کی شاخوں سے کیا کیا؟ پرانی کہر آلو دٹہنیوں سے معانی کے نئے برگ و بار دریافت کئے۔ آج کل ہمارے ہاں فیصلے کا انتظار ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اپنے ارمانوں کو کس مٹی میں بونا ہے۔

نوجوان دلوں نے آرزو سے طرح طرح کے پیمان باندھ رکھے ہیں۔ حافظ نے ’بعشقم آشنا کن‘ کی دعا مانگی تھی۔ بیرسٹر نسیم باجوہ کی جہاں دیدہ آنکھ مگر دعا کرتی ہے کہ قوم کی راہوں میں روشنی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عدالت عظمیٰ کے وقار پر حرف نہ آئے۔ منیر نیازی نے کہا تھا ’یہ شب کے اندھیروں کے مہکنے کی گھڑی ہے‘۔ موقع اچھا ہے، آئیے ہم بھی نگار ہستی کے نام عرض گزاریں کہ …. پھر التفات دل دوستاں رہے، نہ رہے

پاکستان کی تاریخ کے موجودہ عہد کو کس تاریخ سے شروع کیا جائے۔ 18 اگست 2008 ء سے جب پرویز مشرف نے استعفیٰ دیا۔ 18 فروری 2008ء جب بینظیر کی شہادت کے بعد نئے انتخابات منعقد ہوئے۔ 27 دسمبر 2007ء جب راولپنڈی کے جلسہ عام میں بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔ دیکھنے والی آنکھ دیکھتی ہے اور لکھنے والی انگلی لکھ کر آگے بڑھ جاتی ہے کہ ہماری تاریخ کا موجودہ مرحلہ 14 مئی 2006ء کو شروع ہوا جب لندن کے ایک گھر میں محترمہ بینظیر بھٹو اور محترم نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ اس دستاویز میں پاکستان کی نمائندہ سیاسی قوتوں نے عہد کیا تھا کہ جمہوری کشمکش میں غیر جمہوری مداخلت کا خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔

گیارہ برس سے قوم دو کناروں پر کھڑی ہے۔ ایک کنارے پر کھڑے گروہ نے دست دعا اٹھا رکھے ہیں کہ جمہوریت کی کشتی منجدھار سے سلامت نکلے۔ دوسرے کنارے پر کھڑے جانباز وقفے وقفے سے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں اور ڈانواں ڈول کشتی کے پیندے میں ایک نیا سوراخ کر کے فاتحانہ نعرے لگاتے اپنی دف میں لوٹ آتے ہیں۔ آپ غلط سمجھے! دریا کے دونوںکناروں پر کھڑے یہ حریف پارلیمنٹ اور فوج نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ ایک آئینی اور مقتدر ترین ادارہ ہے۔ فوج ریاست کا ایک قیمتی اور قابل احترام شعبہ ہے۔

پارلیمنٹ اور فوج پاکستان کی ریاست کے لاینفک حصے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے حریف نہیں ہو سکتے، اور انہیں ایک دوسرے کا حریف نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقی کشمکش دو فکری دھاروں میں ہے۔ ایک دھارا آمریت پسند ہے اور ایک دھارا جمہوریت پسند ہے۔ ہماری سیاست، صحافت، دانش اور ریاستی بندوبست میں وہ سوچ موجود ہے جو آمریت کی خوشہ چیں رہی ہے۔ اس ذہنیت نے جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والے وفاق کے جمہوری امکانات کے بارے میں الزامات، اندیشوں اور افواہوں کی ایک فہرست تیار کر رکھی ہے۔ یہ سوچ جمہوریت سے انحراف کو نہ صرف یہ کہ سانحہ نہیں سمجھتی بلکہ آئین کے سقوط اور قومی ریاست کے انہدام سے امیدیں وابستہ کرتی ہے۔ منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید، ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے۔

فکری طیف کے دوسرے کنارے پر انبوہ جمہور ہے جنہوں نے ووٹ کے ٹکڑے سے یہ ملک قائم کیا تھا اور عوام کی حکمرانی، قانون کی بالادستی اور جمہوری تسلسل میں بہتر زندگی کا خواب دیکھتے ہیں۔ آئین میں دیے گئے حقوق کو قوم کی اساس گردانتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والوں کے عقیدے،زبان اور قومیت کے اختلاف کو سازش نہیں بلکہ نعمت سمجھتے ہیں۔ یہ شکستہ پا مسافر پچاس کی دہائی میں عبدالرب نشتر اور حسین شہید سہروردی کہلاتے تھے۔ پھر یہ ذوالفقار علی بھٹو،غوث بخش بزنجو اور عبدالولی خان ہو گئے۔

پھر ہم نے انہیں بینظیر بھٹو، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی اور حاصل بزنجو کے روپ میں دریافت کیا۔ مشکل یہ ہے کہ قوم کے جسد اجتماعی میں آمریت کی سوچ رکھنے والے، دائیں بازو سے تھے یا بائیں بازو سے، آمریت کی بندوق کو اپنا کندھا فراہم کرتے رہے ہیں۔ ریاست اور معاشرت کے مختلف حصوں میں آمریت کی سوچ ایک دوسرے کو قدرتی اتحادی سمجھتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ظہور کے بعد اس گٹھ جوڑ میں حقیقی دراڑ پیدا ہو چکی ہے۔ آج پاکستان میں جمہوریت مانگنے والے ہی دہشت گردی کے اصل مخالف ہیں اور اہل درد کا یہ قافلہ عدلیہ، فوج اور صحافت سمیت پاکستان کے تمام اداروں کا استحکام چاہتا ہے۔ جمہوریت پسند گروہ آئین سے انحراف کی حمایت نہیں کر سکتا۔ یہ کمزوری نہیں، استقامت ہے۔ اس فرق کو سمجھنا چاہیے ۔

اہل صحافت کو بھی جاننا چاہیے کہ قوم کا حقیقی بیانیہ معیشت سے جنم لیتا ہے۔ معیشت…. محض ہسپتال اور سکول بنانے کا نام نہیں، معیشت دولت پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھانے کا بندوبست ہے۔ ہم نے نعرے لگانے میں بہت وقت ضائع کیا ہے۔ ہماری نسل کو آر سی ڈی کے خواب دکھائے گئے تھے۔ 1980 ءکی دہائی میں پیدا ہونے والے آر سی ڈی کے مخفف سے بھی آشنا نہیں۔ کبھی ہم امریکا کے بحری بیڑے کا انتظار کرتے ہیں ۔ کبھی ہمالیہ سے اونچی دوستی تراشتے ہیں۔ کچھ ملکوں کو برادر قرار دیتے ہیں۔ کچھ قوموں کے ایمان کی تجدید چاہتے ہیں، کچھ کو ازلی دشمن قرار دیتے ہیں۔ یہ سب نعرے ہیں۔

قوم کے مفاد کا تعین معیشت سے ہو گا۔ معیشت کے بل پر روس اور چین سے دوستی استوار ہو گی، ایران سے روابط مضبوط ہو ں گے، خلیج سے دوطرفہ بندھن باندھے جائیں گے، امریکا سے تجارت کی جائے گی اور یورپ کو یہ سمجھانا ہو گا کہ بیس کروڑ کی منڈی دنیا کے نقشے پر کیا مقام رکھتی ہے۔ ہماری صحافت میں معیشت کو جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم معیشت کو توپ خانے کی دوربین سے دیکھ رہے ہیں۔ اسے زرعی پیداوار، صنعتی ترقی اور تجارتی تعلقات کے محدب عدسے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اہل سیاست سے بھی التماس کرنا چاہیے کہ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے نہایت خوش آئند ہیں لیکن قوم کی موٹر کار چلانے والا انجن تعلیم ہے۔ ہماری آبادی ایک عمودی پہاڑ کی طرح بلند ہو رہی ہے۔ نوجوانوں کا ایک وسیع جنگل اس پہاڑ کے نچلے حصے میں ہے اور چوٹی کا حجم سمٹ رہا ہے۔ آبادی کے اس توازن کو فعال معیشت میں ڈھالنے کے لیے کارآمد تعلیم کی ضرورت ہے۔ ہمیں طے کرنا چاہیے کہ آئین کی شق 25 الف میں ہر شہری کے لیے بنیادی تعلیم کی جو ضمانت دی گئی ہے، وہ تعلیم دراصل کیا ہے ؟ یہ تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یا نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافے کو تعلیم کے لیے کافی سمجھا جائے؟ معیشت کی نج کاری ضروری ہے لیکن تعلیم کی نج کاری سے وہی نقصان ہو گا جو ہم نے قوم کے دفاع کی نج کاری سے اٹھایا ہے ۔

تعلیم میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن غربت کی سطح سے نیچے بسنے والے طبقات کو نجی شعبہ معیاری تعلیم مہیا نہیں کر سکتا۔ معیاری تعلیم کا مطلب ہے، ایسا ہنر جس سے روزگار کی ضمانت مل سکے اور سوچنے کی وہ صلاحیت جو نئی معاشرتی اقدار کے سانچے تراش سکے۔ ہمارے کان ایک عرصے سے حریم ناز سے جاری ہونے والی ٹویٹ کے عادی ہو چلے ہیں۔ 2017 ءکے موسم بہار میں قوم کو ہاتھی دانت کے ٹکڑے پر لکھی کوئی ایسی ٹویٹ پیش کرنی چاہیے جس پر جمہوریت، معیشت اور تعلیم کا پیغام کندہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).