ہمارا آبائی محلہ
آپ گوجرانوالہ۔ سیالکوٹ روڈ پر محو سفر ہیں، ڈسکہ آنے کو ہے، آپ کی لاری چیمہ والی نہر کا پل پار کر کے لاری اڈے پر رکتی ہے تاکہ ڈسکہ کی سواریاں اتر جائیں۔ آپ اگر یہاں نہ اترنا چاہیں تو آپ اس سے آگے سول ہسپتال والے چوک پر بھی اتر سکتے ہیں۔ وہاں بھی نہ اتریں تو آگے جا کر آٹھ نمبر چونگی پر بھی اتر سکتے ہیں۔ میری طرح زیادہ تر مسافر مگر لاری اڈے پر ہی اتر جاتے ہیں۔ لاری اڈے پر شہر کو جانے والے تانگے کھڑے ہیں۔
آپ چاہیں تو سواریوں والے تانگے پر بیٹھ جائیں یا سالم تانگہ لے لیں۔ موسم اگر گرم نہ ہو تو لاری اڈے سے ہمارے آبائی محلے کو پیدل بھی جایا جاسکتا ہے۔ مجھے جب راستے میں مرکزی بازار میں موجود دادا کی دکان پر رک کر جانا ہوتا تو میں پیدل ہی چل نکلتا، اور اگر سیدھا دادی کے پاس گھر جانا ہوتا تو تانگے پر جا بیٹھتا۔ آج تو ہم سالم تانگے پر جائیں گے تاکہ راستے میں یادیں تازہ کرتے جائیں۔
تانگے والے سے بیس روپے میں معاملہ طے کرنے کے بعد میں اگلی سیٹ پر جا بیٹھتا ہوں، سگریٹ سلگاتا ہوں اور شہر کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے سول چوک آتا ہے، اگر آپ کو سنیما جانا ہو یا سول ہسپتال تو آپ بائیں مڑ جائیں۔ بائیں مڑ کر آپ سیدھے چلتے جائیں تو آپ کے دونوں طرف رنگوں اور ہارڈویئر کی دکانیں آئیں گی۔ یہاں پر ایک زمانے میں ہمارے ایک چچا نے ہارڈویئر کی دکان کھولی تھی۔ میں ان دنوں اکثر ان کے پاس جا بیٹھتا تھا۔
آپ کچھ آگے جائیں تو دائیں جانب ایک سنیما آتا ہے، آپ مزید آگے جائیں تو سیالکوٹ روڈ آجاتی ہے، جس کے اس پار آپ کو سول ہسپتال نظر آتا ہے۔ اسی سڑک پر آگے جاتے جائیں تو ڈسکہ کا واحد کرکٹ اسٹیڈیم آ جاتا ہے۔ ایک زمانے میں وہاں جانا لوگوں کی واحد تفریح ہوتی تھی۔ میں سنیما تو کبھی نہ جا سکا مگر اسٹیڈیم کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔
سول چوک کے دائیں جانب چھوٹا سا سول لائنز کا علاقہ ہے جس میں سرکاری افسران کے دفاتر اور مکانات ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میرا کبھی بھی اس علاقے میں جانا نہیں ہوا، میں نے اس کو ہمیشہ باہر ہی سے دیکھا ہے۔ ہم سول چوک سے سیدھے نکل جاتے ہیں تو تھوڑا آگے بائیں جانب ایک گَلا مڑ رہا ہے جسے مشن کمپاؤنڈ والا گَلا کہتے ہیں۔ آپ اس گلے میں داخل ہو جائیں تو بائیں جانب انگریز کے زمانے کا ایک بنگلہ آتا ہے جس کی حالت کو میں نے دن با دن خراب ہوتے ہی دیکھا ہے۔
زمانے نے اسے روند ڈالا ہے مگر لوگ پھر بھی اس میں مقیم ہیں۔ بنگلے کو بائیں جانب چھوڑتے ہوئے آگے بڑھیں تو دائیں جانب بورڈنگ اسکول کی عمارت ہے جو اپنے زمانے میں پرشکوہ رہی ہوگی۔ اس میں اب بھی بچے پڑھتے ہیں۔ میرے والد (متوفی 1999) بتایا کرتے تھے کہ ایک زمانے میں اس کا بڑا نام ہوتا تھا۔ بورڈنگ اسکول کے سامنے ایک بڑا گراؤنڈ ہے جس میں فٹ بال کے پول لگے ہوتے تھے۔ لڑکے اب بھی اس میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اب تو برسات میں گراؤنڈ تالاب کا منظر پیش کرتی ہے۔
آپ تھوڑا آگے بڑھیں تو بائیں جانب گرجا گھر کی شاندار عمارت ہے جو آج بھی پورے جوبن پر ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ عابد زندہ ہو تو معبد کبھی نہیں مرتا۔ یہ وہی گرجا گھر ہے جس کے باہر انجیل مقدس کی آیات پڑھ کر مجھے لگا تھا کہ الہامی مذاہب کا اصل ایک ہی ہے۔ مشن کمپاؤنڈ والا گلا، بورڈنگ کی وہ عمارت اور بنگلہ زوال کا شکار ہیں مگر گرجا گھر قائم و دائم ہے۔
مشن کمپاؤنڈ والے گلے کو چھوڑ کر آگے نکل جائیں تو بائیں جانب کرسچن ہائی اسکول، تھانے، کچہری اور سول کلب کی عمارتیں آتی ہیں۔ مجھے لگا کہ اسکول کے علاوہ ان میں سے کسی عمارت میں بھی عام آدمی کے لیے کچھ بھی نہیں رکھا۔ یہ عمارتیں دور غلامی کی یادگاریں ہی تو ہیں۔ تانگہ آگے بڑھتا ہے اور ہم کچہری چوک پہنچنے والے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیے، ہم جس سڑک پر چل رہے ہیں اس کے دائیں جانب والا علاقہ پرانا ڈسکہ کہلاتا ہے جبکہ بائیں جانب والا علاقہ نیا ڈسکہ کہلاتا ہے، اور ہمارا آبائی محلہ نئے ڈسکہ میں ہے۔
سول کلب کے بعد کچہری چوک تک الیکٹرانکس کے ساتھ مچھلی اور بکرا کڑاہی والوں کی دکانیں ہیں۔ مجھے یاد آیا کسی زمانے میں کچہری کے سامنے دادا کے دوست صوفی دین محمد کا ٹائپنگ اور عرضی نویسی کا اڈا تھا۔ یہیں سے میرے والد نے ٹائپنگ سیکھی تھی۔ میں نے صوفی صاحب کو کام کرتے تو نہیں دیکھا مگر ان کے بیٹے سے اپنے ڈومیسائل کے لیے عرضی لکھوائی تھی۔
کچہری چوک سے سیدھا جائیں تو فوارہ چوک سے ہوتے ہوئے آپ کالج روڈ پر آ جاتے ہیں جو پھر بہت اگے جا کر آپ کو سیالکوٹ روڈ پر لے جاتا ہے، مگر راستے میں بہت کچھ آتا ہے، وہ سب پھر کبھی۔ ہم کچہری چوک سے بائیں مڑ جاتے ہیں اور اب ہم سمبڑیال روڈ پر ہیں۔ ہم آگے بڑھتے ہیں تو ہماری بائیں جانب شفا خانہ حیوانات کی عمارت آتی ہے، اس کو سب سلوتر خانہ کہا کرتے تھے۔ اس میں سامنے ایک بڑا سا گراؤنڈ ہے اور پیچھے ڈاک بنگلے جیسی عمارت۔
میں نے اس کو ہمیشہ باہر سے آتے جاتے سینکڑوں مرتبہ دیکھا ہے۔ اس کے ساتھ چائے کی ایک دکان تھی جہاں سے میں کبھی کبھی چائے پیا کرتا تھا۔ سلوتر خانے سے تھوڑا آگے دائیں جانب ایک مارکیٹ والی گلی اندر جاتی ہے۔ اس گلی میں اندر جائیں تو آپ صرافہ بازار میں نکل جاتے ہیں۔ صرافہ بازار کے سامنے تاج دین چائے والے کی دکان ہے، وہی تاج دین جو شیشے کے چھوٹے گلاسوں میں بے حد مزے کی چائے پلایا کرتا تھا۔ تاج دین کی دکان کی بغل والی گلی سے ہو کر آپ مرکزی بازار میں آئیں تو گھڑی ساز کی دکان سے بائیں جانب جالندھر میڈیکل اسٹور کے ساتھ دادا کی بڑی ساری صرافہ کی دکان تھی۔ جس کے سامنے سے گزرتے ہوئے تاج دین اپنے چائے والے ِچھکے میں سے ایک چائے کا گلاس دادا کو بھی پکڑا جاتا تھا۔
سمبڑیال روڈ پر ہم آگے بڑھیں تو کچھ فاصلے پر بائیں جانب لڑکیوں کا اسلامیہ اسکول آ جاتا ہے۔ یہ اسکول چونکہ ہر انتخاب میں پولنگ سٹیشن بنتا تھا اس لیے ہمارا خوب دیکھا بھالا ہے۔ اس کے ساتھ تقسیم سے پہلے کی ایک شاندار عمارت ہے جو اب تو بس گرنے ہی والی ہے مگر ایک زمانے میں بہت شاندار تھی۔ آگے بڑھیں تو دائیں جانب صوبیدار بازار ہے جو آگے جا کر مچھلی بازار سے جا ملتا ہے، اور جہاں یہ دونوں بازار مرکزی بازار کے ساتھ چوراہا بنتے ہیں وہیں ہمارے ڈسکہ میں محرم کا ماتم ہوا کرتا ہے۔
اسی چوراہے پر وہ قیمے کی مزیدار ٹکیاں بنانے والا بھی تو کھڑا ہوتا ہے۔ صوبیدار بازار کے سامنے سے آگے بڑھیں تو کچھ دور جا کر بائیں جانب تیلیوں والا گلا آتا ہے۔ یہ وہی گلا ہے جس میں ایک زمانے میں ہندوؤں کی شمشان گھاٹ اور تالاب ہوتا تھا۔ یہی گلا آگے حکیم غلام رسول کے مطب پر لے جاتا تھا۔ حکیم غلام رسول ڈسکہ کا آخری حکیم تھا جس کے ہاتھ میں شفا تھی۔ یہی گلا آگے جاکر بائیں مڑ کر اس طرف نکل جاتا ہے جہاں مشن کمپاؤنڈ اور گرجا گھر تھا۔ اسی گلے کی ایک گلی میں دادا حکیم کا گھر ہے جس میں اب ان کی تیسری نسل رہتی ہے۔ ہم ایک زمانے میں اسی گھر کی چھت پر رکھے ہوئے اصیل مرغ دیکھنے جایا کرتے تھے۔ دادا حکیم کے بیٹے چاچو ِجلی مرغ پالنے اور لڑانے کے شوقین تھے۔ اسی گلے میں انکل لطیف کا کارخانہ بھی تو تھا جو ملت ٹریکٹر کے پرزے بنایا کرتے تھے۔
تیلیوں والے گلے کے ساتھ قصر شیریں والوں کی دکان ہے جو ایسی لاجواب قلاقند بناتے ہیں جو کہیں اور سے نہیں ملتی۔ ان کے سامنے رانوں کی کوٹھی ہے جو دراصل ایک بڑے گردوارے کے ملبے پر بنی ہوئی ہے۔ کوئی صاحب بتانے لگے کہ گردوارے کا ملبہ آج بھی کوٹھی کے پیچھے پڑا ہے۔ آگے بڑھیں تو بائیں جانب غوثیہ مسجد ہے جس کے خطیب مولوی رفیق صاحب ہمارے استاد تھے، اب ان کے بچے مسجد میں امام ہیں۔ اور آگے بڑھیں تو آپ پہنچ جائیں گے بوڑھ والے چوک میں، اور اب آپ داخل ہونے والے ہیں ہمارے آبائی محلے میں۔
لیکن یہاں ہم تانگہ چھوڑ دیں گے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے تو ایک بوڑھ کا درخت اپنے انجام کے قریب تھا۔ بوڑھ کے پیچھے چار دکانیں تھیں، ایک پر چارہ بیچا جاتا تھا، دوسری راجہ کا حمام تھا، تیسری لالے چھباں کی کرائے کی سائیکلوں کی تھی اور چوتھی پر چائے بیچی جاتی تھی۔ ان سب کے ساتھ لکڑی کا ٹال تھا۔ شام کو لالے کی دکان پر محفل لگتی تھی اور دن بھر راجے کا حمام محلے کا ڈرائنگ روم بنا رہتا تھا۔
بوڑھ والے چوک سے دائیں جانب ایک گلا چڑھائی چڑھتا ہے اور اس کا نام محلہ ٹھٹھیاراں ہے کیونکہ یہ آگے جا کر بازار ٹھٹھیاراں کو ملتا ہے اس لیے محلہ ٹھٹھیاراں کہلاتا ہے۔ آپ ہمارے آبائی محلے میں داخل ہو رہے ہیں، آپ کی بائیں جانب بھلے اور اس کے بھائیوں کی لاجواب پتیسہ بنانے کی دکان ہے، ان سے گرما گرم پتیسہ لے کر کھانے کا وہ مزہ ہے جو کسی بھی اور مٹھائی میں ممکن نہیں۔
ان کی دکان کے ساتھ جونی کا مکان ہے جو کہ اب بس گرنے ہی والا ہے۔ میں ہمیشہ سے اس مکان میں جانا چاہتا ہوں مگر کبھی نہیں جا سکا، حالانکہ جونی کی دادی ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ جونی کے ساتھ چاچو ایوب اور سودے کا گھر ہے۔ اس گھر سے ہمارے گھرانے کے پرانے مراسم ہیں، یہ بھی جموں کے مہاجر ہیں۔ ان کے گھر کے سامنے ہمارے محلے کی سب سے بڑی اور ایک وقت میں پرشکوہ رہنے والی عمارت ہے۔ یہ گوردوارے کی عمارت ہے۔ عابد جا چکے ہیں اور معبد اداس ہے، مگر پھر بھی اس معبد نے انسانی خدمت کا حق ادا کرنا نہیں چھوڑا ہے۔
گوردوارے میں داخل ہوں تو بائیں جانب چبوترے پر بنی عمارت گر چکی ہے، صرف سیڑھیاں باقی ہیں جن پر چڑھ کر ہم بیرونی دیوار پر جا بیٹھتے تھے۔ گوردوارہ نانک شاہی اینٹوں سے تعمیر شدہ ہے۔ گوردوارے کے دائیں جانب اور سامنے کمرے ہیں جن میں جولاہوں نے اپنی کھڈیاں لگا رکھی ہیں، اور وہ کھیس بنتے رہتے ہیں۔ گوردوارے کا صحن ہمیشہ سے بارات اور مرگ کی دیگیں پکانے کے کام آتا رہا ہے۔ منظر، میرے دادا، میرے والد اور آخری مرتبہ دادی کی وفات پر بھی کھانے وہاں ہی پکا گئے تھے۔
ہم جب بھی آوارگی سے بیزار ہو جاتے تو گوردوارے کی عمارت مین جا گھستے، وہاں گھومتے، ملبے میں نا جانے کیا تلاش کرتے۔ پیپل کا وہ درخت جو گوردوارے کے صحن مین لگا تھا اس کی ٹھنڈی چھاؤں کا لطف لیتے۔ گوردوارے کی عمارت اس بات کا ثبوت تھی کہ تقسیم سے پہلے ہمارا، محلہ سکھوں کا محلہ تھا۔ یہاں ایک دو گھر مسلمانوں کے ہوں گے باقی سب غیر مسلم تھے۔
گوردوارے کے ساتھ گلی ہے اور گلی کے ساتھ ہمارا آبائی مکان ہے۔ گوردوارے کی عمارت کے بعد ہمارے آبائی مکان سے پہلے دائیں اور بائیں دو گلیاں نکلتی ہیں۔ بائیں والی گلی جس کو ہمارے مکان کی پشت لگتی ہے اس میں گوردوارے کے ساتھ علیے موچی کا گھر ہے، اس کے ساتھ بھلے وغیرہ کا گھر ہے، اس کے ساتھ ماسی حمیدہ ماچھن کا گھر ہے اور ان کے ساتھ جولاہوں کا گھر ہے جو تنے کے منے کے والی ہندوستانی زبان بولتے ہیں۔ حمیدہ ماچھن کے گھر کے سامنے کھولا ہے، اور کھولے کے ایک کونے پر حمیدہ ماچھن کا تندور ہے جہاں وہ اور اس کی بیٹی رانی دوپہر اور رات کو روٹیاں لگاتی ہیں۔
سارا محلہ ان سے روٹیاں لگواتا ہے۔ حمیدہ ماچھن کو سب بھوا کہتے ہیں، وہ سب کے ساتھ کمال شفقت سے پیش آتی ہے۔ وہ کتنی غریب ہے مگر حوصلے کی کتنی امیر ہے۔ کھولے کے ساتھ گونگی کا گھر ہے۔ ہم کھولے میں کھیلتے رہتے ہیں اور گونگی ہمیں منع کرتی رہتی ہے۔ یہ گلی آگے جاکر ایک اور گلی پیدا کرتی ہے جس میں ماچھیوں کے مکان ہیں۔ یہ ماچھی بھی مہاجر ہیں، چھپڑوں سے سنگھاڑے، مچھلیاں اور پرندے شکار کر کے لاتے ہیں اور بیچتے پھرتے ہیں۔
جو گلی دائیں جانب والی ہے اس میں لالے چھباں کا مکان ہے، دھوبیوں کا مکان ہے اور پھر اگے جاکر کلی گروں کا مکان ہے۔ کلی گر بھی عجیب لوگ تھے، پیشہ برتن کلی کرنے کا تھا مگر اب زیادہ کام ماچھیوں والے کرنے لگے تھے۔
ہمارے آبائی گھر کے سامنے امی جی وغیرہ کا مکان تھا، وہ سب کو سپارہ پڑھایا کرتی تھیں۔ یہ گھر بھی مہاجروں کا ہی تھا، شاید جموں کے ہی مہاجر تھے۔ ہمارے گھر کے ساتھ ماموں خالد اور ماموں گُلو کا گھر ہے۔ ان کی والدہ خالہ جی اور بہنوں انٹی ناہید اور باجی رانی کا ہماری والدہ اور تائی مان کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ ان کا گھر تقسیم سے پہلے کا بنا ہوا تھا اور آج تک ویسے ہی ہے حالانکہ مکین کب کے دنیا اور وطن چھوڑ کے جا چکے۔ اب بھی میں جب اپنے آبائی گھر جاتا ہوں تو اس مکان کو چھت سے ضرور دیکھتا ہوں۔ ہمارے محلے میں زیادہ تر مکان تقسیم سے کچھ پہلے ہی بنے تھے اس لیے وہ تادیر سلامت رہے۔
ہمارے محلے کے اگلے حصے پر بازار ٹھٹھیاراں سے پہلے حاجی حلوائی اور شیر دین کی دکانیں تھیں۔ حاجی حلوائی دودھ دہی کے ساتھ گاجر کی مٹھائی بیچا کرتا تھا۔ وہ مٹھائی ڈسکہ میں اور لوگ بھی بناتے ہیں مگر حاجی کا جواب نہیں تھا۔ شیر دین پان، سگریٹ اور چائے کی دکان چلاتا تھا۔ ہم دادا کے ساتھ اکثر اس کی دکان سے چائے اور کھتائی کھانے جایا کرتے تھے۔ اب اس کی دکان بند ہے جبکہ حاجی کی دکان اس کا بیٹا چلاتا ہے۔
میں اپنے آبائی محلے میں جاتا رہتا ہے مگر اب میں وہاں اجنبی ہوتا جا رہا ہوں۔ اب کی بار میں وہاں گیا تو عجیب سی بات میرے ذہن میں آنے لگی کہ جس روز تقسیم کے وقت اس محلے کے اصل مکین یہاں سے جانے پر مجبور ہوئے ہوں گے تو کیا منظر ہو گا، وہ کن گلیوں کن رستوں سے کن سوچوں کے ساتھ یہاں سے نکلے ہوں گے ۔ ہو سکتا ہے یہاں آ کر آباد ہونے والے اپنی تباہی کی جو داستان سناتے ہیں، ان کی داستان بھی ایسی ہی ہوگی۔
- ہمارا آبائی محلہ - 24/09/2024
- پھر ذکر کریں لاہور کا - 07/09/2024
- ہمارے ڈسکہ میں محرم کے وہ دن - 18/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).