انوار فطرت اور ”سمندراااااا “
یہ لگ بھگ بائیس تئیس برس پرانی بات ہوگی میں نے معروف برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوز پر ایک مضمون لکھا تھا۔ ظاہر ہے اس میں سلویا پلاتھ کا ذکر بھی آنا تھا کہ اس شاعرہ کی زندگی اور موت کے ساتھ یہ نام جڑا ہوا تھا۔ ان دنوں ہمارے درویش صفت شاعر اور صحافی انوار فطرت روزنامہ ”جنگ“ راولپنڈی کا ہفتہ وار ادبی صفحہ ترتیب دیا کرتے تھے۔ میں نے یہ مضمون انہیں بھیج دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ مضمون چھاپتے، مجھے فون کر دیا کہ میں نے ٹیڈ ہیوز کے نام کو لاعلمی میں ویسے نہیں لکھا جیسے وہ ادا کیا جاتا تھا۔
انہوں نے میری تصحیح کی اور پوچھا کہ کیا میں نے سلویا پلاتھ پر بھی کوئی مضمون لکھا ہے پھر دیر تک ہمارے درمیان سلویا پلاتھ کی زندگی اور شاعری پر بات ہوتی رہی۔ ٹیڈ ہیوز پر مضمون انہوں نے بہت نمایاں کر کے شائع کیا اور یہ دونوں مضامین میرے بین الاقوامی شاعری کے تراجم اور اس باب کے مضامین پر مشتمل کتاب ”سمندر اور سمندر“ میں شامل ہیں۔ اس کتاب کا انتساب راولپنڈی کے تین نمایاں ترین نظم نگاروں کے نام کیا گیا تھا جن میں سے ایک انوار فطرت ہیں۔ یہ تمہید میں نے یوں باندھی ہے کہ میرے سامنے اس وقت انوار فطرت کی ایک نظم ہے ”سمندراااااااا“ ، اور یہ نظم سلویا پلاتھ کو معنون کی گئی ہے۔
کچھ برس پہلے انوار فطرت کی اسی نظم پر زیف سید کے ”حاشیہ“ میں بھی مکالمہ چلا تھا، تب سے لے کر اب تک یہ نظم مجھے کئی بار متوجہ کر چکی ہے اور ہر بار ایک نئی جہت دکھاتی رہی ہے۔ ابھی پرسوں ”ادارہ اردو“ میں جدید اردو نظم پر مکالمہ چل رہا تھا تو مجھے یہ نظم یاد آ گئی تھی اور میں نے عرض کیا تھا کہ آج کی نظم غزل کی طرح محض سننے سنانے والی چیز نہیں رہی، کہ اس میں صوتی اور بصری امیج بھی برتے جانے لگے ہیں ؛ کہیں صوتی، کہیں بصری اور کہیں دونوں۔
اسی لیے تو انوار فطرت نے ”سمندراااااااا“ کو یوں لکھا ہے کہ پڑھیں تو ”سمندر“ پکار میں آئے اور پکار ایسی کہ الف کی ایزاد کی گئی مقدار کو ادا کرتے ہوئے دونوں ہونٹ ایک دوسرے کو پرے دھکیل دیں۔ اتنا پرے کہ سمندر کی وسعت کا گماں ہو۔ یہ عنوان ادا کرتے ہوئے سمندر کی وسعت نطق میں بھی اتر آتی ہے۔ سمندر کو دیکھنا بھی اسی ایک عنوان میں ہے۔ کچھ اس طرح جیسے بپھری ہوئی موجیں ساحل پر آتے جاتے ریت پر لکیریں چھوڑ جاتی ہیں، ”سمندراااااااا“ میں اضافی ”الف“ ساحل پر لہروں کے چھوڑے ہوئے نشانات کو تصویر کر رہے ہیں۔
کہتا چلوں کہ ”سمندراااااااا“ محض عنوان کے لیے چنا ہوا ایک لفظ نہیں ہے اور یہ جو سمندر جیسے بصری امیج کو صوتی امیج میں بہم کر لیا گیا ہے تو اس نے اس کی معنویت میں کچھ نئی جہتیں ایزاد ہو گئی ہیں۔ اچھا بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ شاعر نے سمندر کے اسم کو نئی تخلیقی امکان کے مقابل کرنے کے لیے الفیائی ایزاد کا سہارا لیا اور بس، مگر آپ جب اسے انوار فطرت کی نظموں کا مجموعہ کھول کر پڑھنا چاہیں گے تو احساس ہوا گا کہ ایزادی الف کی تکرار دور جاتے ہوئے اپنی قامت چھوٹی کرتی جاتی ہے۔
ایسے میں مجھے یہ صدا دور بہت دور جاتے اور معدوم ہوتے ہوئے بھی لگی اور ساتھ ہی اس صدا کو لگانے والا بے پناہ اذیت کی گود میں گرتا ہوا بھی محسوس ہوا ہے یوں جیسے اول اول سمندر کو پکارتے ہوئے چھاتی کے اندر گونج اٹھی ہو اور نرخرہ چیرتے ہوئے چیخ بن گئی ہو مگر آخر ایک درد نے اسے دبوچتے ہوئے معدوم کر دیا ہو۔ مجھے یاد ہے 2003 ء میں انوار فطرت کی نظموں کی کتاب ”آب قدیم کے ساحلوں پر“ آئی تو اس کے سیاہ سرورق پر عین وسط میں دور تک پانیوں میں ایک جنبش نظر آتی تھی، یہ جنبش جیسے دائیں اور بائیں کو تھی مگر دور افق میں گم ہوتے ہوئے نیل گوں ہو رہی تھی۔
ساتھ ہی پانی کی اس کائنات کو کاٹتی اور افق کو اٹھتی لیکن گھومتی ہوئی روشنی سی بھی تھی جس کے قدموں کا عکس تک ساحل سمندر کی ریت (کہ جو سیاہی میں گم ہو گئی تھی) میں دیکھا جا سکتا تھا۔ یوں کہئیے یہ روشنی کا بدن ایک نور چھپاکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ سرورق انوار نے راحت سعید کے ساتھ مل کر بنایا تھا جو کتاب کی عقبی جلد تک انہی پانیوں کی جنبشوں کو لیے جاتا تھا۔ اس دوسری جانب انوار نے اپنے دستخط کر کے ایک نظم بھی اپنے قاری کو فراہم کر دی تھی۔ پہلی سطر میں لفظ ”دور“ لکھا ہوا تھا مگر یوں نہیں جس طرح میں نے لکھا ہے یا آپ لکھا کرتے ہیں کہ اس میں دو عدد واؤ بڑھا کر اسے ”دووور“ کر لیا گیا تھا۔ جی چاہتا ہے کہ میں انوار فطرت کے تخلیقی مزاج کو سمجھنے کے لیے نظم یہاں نقل کر دوں :
”د و و و ر
میری بے جہت پہنائیوں کے
کسی کنج گم گشتہ میں
دود گماں انگیز کے سناٹوں کے اس پار
وہ آب قدیم گونجتا ہے
جس کے سانولے جزیروں کے ساحلوں پر
میرے خوابوں میں معدوم ہوتے خوابوں کے غول
ورود و غیاب کرتے ہیں اور میری ویران آنکھوں کے مندروں میں
میری ناآسودہ کامناؤں کی
تھکی آتماؤں کے ہونٹ
کسی اسم خفی کے ورد میں
لرزاں رہتے ہیں
خاموشیاں
سرگوشیاں کرتی
ادھر ادھر سرسراتی ہیں ”
جس طرح اپنی کتاب کی پیشکش میں آپ انوار فطرت کے ایک الگ طرح کے مزاج کو دیکھ رہے ہیں، اس کی اس نظم میں بھی اسے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ اچھا، یہ تو میں نے بتایا ہی نہیں کہ انوار فطرت نے اپنی کتاب کی جلد کے استر اور اس سے ملحق ورق کو بھی سیاہ رنگ کا رکھا اور جب مجھے کتاب عطا کی گئی تو محبت سے مخاطب کرنے کے بعد اسی سیاہ استر پراس نے چمکتی ہوئی روشنائی سے، جس میں نیلا رنگ لرزاں تھا، یہ لائنیں بھی لکھ دی تھیں :
”کیسی طلسمات ہے
ہم جو چھوتے ہیں خود کو
تو جیسے نہیں ہیں
جو دیکھیں
تو جیسے ہمارے سوا کچھ نہیں ہے ”
مجھے یاد نہیں کہ کیا واقعہ ہوا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ وہ ستمبر کی بارہ تاریخ تھی اور سال 2018 ء کا کہ انوار فطرت میرے فیس بک پیج پر آئے مجھے ”بھائی محمد حمید شاہد“ لکھ کر مخاطب کیا آگے ”دی موسٹ کانفیڈنشل“ لکھ کر آگے جو لکھا جب جب پڑتا ہوں، پورا وجود کانپنے لگتا ہے ؛ لیجیے یہیں مقتبس کر رہا ہوں :
”مجھے تجھ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں جو میں کسی اور سے نہیں کر سکتا۔
اُن کے پاس پٹاریوں میں فتووں کے زہریلے سانپ ہیں، وہ ڈراتے ہیں
اور ہر ایک کو ناف کے اطراف میں رہنے کی تلقین کرتے ہیں،
حکایتیں، روایتیں اور آیتیں بھی انہیں بہت آتی ہیں۔
دنیا بہت باتونی ہے، باتوں کے سروں سے باتیں نکالتی چلی جاتی ہے۔
انگلیوں کی درزوں سے دعائیں بہ جاتی ہیں، اوکوں میں صحرا رہ جاتے ہیں،
آب سراب تک ’خواب‘ ہو جاتے ہیں، بہ شرطِ کہ نیند آ جائے،
نیند راشن کارڈ پر ملتی ہے، زرِ ضمانت میں آنکھیں جمع کرانی پڑتی ہیں
البتہ صبر کی افیون اعتماد ادا کر کے بآسانی دست یاب ہے،
سو شہر اونگھتا رہتا ہے، اسی پینک میں نالیاں خلیجیں بن چکی ہیں،
اس پار والے اسی پار رہ گئے،
خواب گاہوں سے دروازے نوری برسوں کے فاصلوں پر ہیں سو اندر والے اندر ہی رہ گئے۔
قبریں خالی ہیں اور سڑکوں پر خاموش لاشوں کی بھیڑ نے ٹریفک جام کر ڈالی ہے۔
لفظوں میں طاعون پھیلا ہوا ہے، دھڑا دھڑ مردار ہو رہے ہیں،
فضاء میں کاربن بہت جمع ہو گئی ہے اور ہوا میرے دوست نے مجھے بتایا تھا کہ ”ہوا مر گئی ہے“
ہاں! آکسیجن کے کمی کے باعث ’اسے‘ برین ہیمرج ہو گیا تھا،
مرنے سے پہلے اس پر طویل کوما طاری رہا، کچھ بتا بھی نہیں پائی تھی۔
بوڑھی دنیا سٹھیائی ہوئی ہے، بڑبڑاتی رہتی ہے، بات سے بات نکالتی ہے
لیکن کوئی موضوع مکمل نہیں کر پاتی۔
ہم بہ ہر حال مطمئن ہیں، تینوں وقت کھانے کو پیٹ بھر بھوک مل جاتی ہے، پینے کو پیاس کی بھی کمی نہیں۔
اور ہاں یاد آیا کہ روحوں کو ننگ نے آ لیا ہے ان کے لیے تھوڑا سا بدن درکار ہے
اور بھی بہت سی باتیں کرنی ہیں
تو کہاں ہے؟ کبھی مل! ”
مجھے نظم ”سمندراااااا“ پر بات کرنا چاہیے اور میں ذاتی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ کیا کروں میں کہانی کی فضا میں رہتا ہوں۔ مجھے نظمیں بھی وہ خوش آتی ہیں جن میں کوئی نہ کوئی کہانی ہو اور جب اس کہانی میں شاعر کا وجود بھی ایک بھید کی صورت ہلکورے لے رہا ہوتو میری دلچسپی کا سامان بڑھ جاتا ہے۔ خیر، مجھے اعتراف ہے کہ نظم تخلیق کے بعد ایک حد تک خود مکتفی ہو جاتی ہے۔ یہ نظم بھی ہو گئی ہوگی۔ ایک ایسی نظم جس میں خود شاعر کی دوسری نظموں اور اپنے وجود کی دھمک سمائی ہوئی ہے۔
شاعر جب نظم میں ”کبود رنگ کارواں“ کو ”دوریوں کے پیچواں سراب“ کی جانب جاتے ہوئے دکھاتا ہے تو وہی نیلا رنگ اپنی معنویت بھی قائم کر لیتا ہے جس کا ذکر میں اوپر کر آیا ہوں۔ یہاں یہ کبود رنگ کارواں دوری، گمراہی اور بے وفائی جیسے مفاہیم کو بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔ ”گھنیری شب کا باغ“ اپنے نئے معنی قائم کر رہا ہے۔ بظاہر شاعر ”جہنمی نواح“ میں سانس لیتے ہوئے ”باغ“ کا استعارہ لے آیا جو ”نشاطیہ کیفیت“ کے لیے مناسب ہوتا مگر میں نے جس رُخ سے اسے دیکھا ہے اس طرف آپ کو لے جانے سے پہلے مجھے نظم کے اس حصے کو دہرانا ہے۔ نظم کے عنوان کے ساتھ:
سمندراااااااا
وہ کارواں
کبود رنگ کارواں بھٹک چکے ہیں
دوریوں کے پیچواں سراب میں
گھنیری شب کے باغ سے
تجھے پکارتا ہوں میں
یہاں ما بعد الطبیعیاتی حوالہ بھی ذہن میں تازہ رکھتے ہیں اور اساطیری حوالہ بھی، کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر ”کبود رنگ“ اور ”سمندر“ کی رعایت سے ہم ان سائنسی حوالوں کو بھی ذہن میں حاضر کر لیں جو نظم کے ڈیپ اسٹرکچر میں معنیاتی سلسلہ بنا رہے ہیں۔ سمندر یہاں تصوف والا ایسا ”کل“ نہیں ہے جس کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی کا روشن دھارا فنا ہو رہا ہے بلکہ یہاں کبود رنگ کارواں کا دوریوں کے پیچواں سراب میں گم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اِس ”کل“ کے ساتھ دوری کا رشتہ قائم ہوا ہے، یہ کارواں دور جا چکا مگر اپنی اصل سے کتنا دور جا پائے گا، سو یہاں ”سراب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
اگلی ہی لائن میں جس ”گھنیری شب“ کے باغ کی بات ہو رہی ہے اسی میں تو یہ کارواں اترا ہوا ہے، اور اس کارواں کے لیے مجموعی طور پر یہ باغ ہے مگر ایک تخلیق کار کے لیے یہ رات کی سیاہی کا سا ہے۔ ”باغ“ آپ جانتے ہی ہیں کہ لگایا جاتا ہے، سو انسان نے اپنی تخلیقی جبلت سے منحرف ہو کر جس اشتہا میں اپنی رفتار بڑھائی، اس نے ایک باغ کا اشتباہ تو پیدا کیا، کہہ لیجیے ؛ آسائشوں کا باغ، مگر اپنی اصل میں وہ ایسی رات کا سا ہے جس میں ایک تخلیق کار پہنچ کر ”سمندرااااا“ پکار اٹھتا ہے۔
یہیں ایک اور وضاحت بھی کیے دیتا ہوں کہ اگرچہ سمندر کو ”کل“ کی صورت شناخت کیا جاسکتا ہے مگر فی الاصل یہ کل نہیں ہے ”کل“ کا مظہر ہے۔ ( کیوں اور کیسے؟ ، اس کی وضاحت، آپ کی اجازت سے ذرا مؤخر کر رہا ہوں۔ ) اب ہم سہولت سے آگے بڑھ سکتے ہیں کہ تخلیق جس کرب میں مبتلا ہے، اس کی صدا سے سات گنبدوں کے دائروں کا لرزنا، سمندر کے پانیوں کا اپنا دامن سمیٹ لینا کہ ریت کا بہنے لگنا اور شش جہت بگولے کا چرخ کھانے لگنا، سمجھ میں آنے لگتا ہے۔
باقی کے مناظر نظم کے اسی معنیاتی سلسلہ کو لے کر آگے چل رہے ہیں اب موقع آ گیا ہے کہ ہم سمندر کے اندر ”ترا عکس“ دیکھیں، بس ایک عکس نامکمل سا کہ ”کل“ کا پورا عکس یہ سمندر بھی دکھانے سے معذور ہے، تو تخلیقی آدمی جو اپنی تشنگی اور عدم تکمیلیت کو پا چکا ہے، اس عکس کی جھلک دیکھتا ہے، سمندر کو پکارتا ہے جو کبود رنگ کارواں کی سرابی مہم جوئی کی وجہ سے کچھ اور فاصلے پر جا چکا ہے۔ اچھا دیکھئے کہ وہ سمندر جس کی لہریں ایک تخلیق کار کی سانسوں سے ایک ارتعاش پیدا کر رہی تھیں، عین اسی لمحے گھنیری رات کا باغ بنانے والے کبودی کارواں سے کچھ اور فاصلے پر ہو جاتا ہے۔ یہ فاصلہ ایک طرف تو محض دو قدم کا ہے جب کہ دوسری طرف اسی علاقے میں جہنم زار پڑتا ہے :
”سلگ رہی ہیں ہڈیاں
رگوں میں دھات کھولتی ہے
گوشت میں جہنموں کا
نہم روز ہے رکا ہوا
فضا میں چرچراتے ماس کی بساند ہے ”
یہ جہنم زار ہمارا اپنا بنایا ہوا ہے، یہ آدمی ہی ہے کہ اس کے سبب شہر ریت ہو رہے ہیں، بستیوں میں راکھ اڑ رہی ہے، زمین کو چیر کر خود کو چیرا جا رہا ہے، تقسیم کیا جا رہا ہے اور پوری کائنات ریزگی کے سانحہ سے گزر رہی ہے، جی وہ کائنات جو آدمی کا مقدر تھی اس کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے اس میں دہکتی ہوئی تیرگی کھولتے ہوئے لاوے کی صورت بہنے لگی ہے۔ ایسے میں ایک تخلیق کار اپنے روح کے کرب کا اظہار سمندر کو مخاطب کرتے ہوئے کرتا ہے تو اس کی صدا میں اپنے کبود رنگ کارواں کے لیے بے پناہ دکھ بھی سمٹ آیا ہے۔
”سمندرااااااا
میرے کبود رنگ کارواں ”
میں جانتا ہوں کہ نظم میں کہانی کی تلاش بعض احباب کو کھلتی ہے، مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ جو نظم کہانی کا دائرہ (چاہے بہت دھندلا ہی سہی) ، بنائے بغیر توڑ دے، مجھے وہ کھلنے لگتی ہے۔ یہ میں اس لیے لازم سمجھتا ہوں کہ اس طرح معنیاتی سطح پر نظم کی جمالیات اپنا چہرہ مکمل کرتی ہے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ کٹا پھٹا چہرہ جمیل نہیں ہوتا۔ اس کہانی کی تلاش میں اور شاعر کے مزاج کو سمجھنے کی راہ سے میں نے یہ بھی جانا ہے کہ سیاہ رنگ/گھنیری رات/سائے، آغاز کی جانب دور تک جاتا سلسلہ/ حال کی نا آسودگیاں، کجیاں /مستقبل کی طرف دیکھتی آنکھیں، انسان کا اپنا وجود جو ہے اور نہیں ہے اور اسی طرح سمندر، دور تک اس میں اٹھتی لہریں وغیرہ سب اس کے ہاں مل کر ایک معنیاتی نظام متشکل کرتے ہیں۔
اور ہاں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ ابتدا میں ”کبود رنگ کارواں“ سے تخاطب کا گماں ضرور ہوتا ہے مگر فی الاصل یہ تخاطب اور کلام، سمندر سے ہے اسی کی توجہ آغاز میں ”وہ کارواں“ کہہ کر اور اسے ”کبود رنگ“ بتا کر، اس کی جانب چاہی گئی ہے۔ یوں اس کا التزام رکھ دیا گیا ہے کہ نظم کا راوی اس کارواں کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے مختلف ہے۔ آخر میں تخاطب سمندر ہی سے ہے مگر یہاں لسانی تاثیر بدل گئی کہ ”مرے کبود رنگ کارواں“ کو ”وہ“ کہہ کر نہیں لکھا گیا پڑھتے ہوئے ”یہ“ کا تاثر خود بہ خود پیدا ہو جاتا ہے اور آہ چھاتی میں گونجنے لگتی ہے۔ خیر، اس نظم میں جس طرح ایک ماورائی منظر بنایا گیا ہے، ما بعد الطبیعیات کو حیات کی تفہیم کے لیے برتا گیا ہے، صوتیات سے مصرعے سجل کیے گئے ہیں، عکس کو، پانی کو، ریت کو اور انسانی وجودوں کو دم بہ دم بنتی ایک ویسٹ لینڈ کا رزق ہونے دیا گیا ہے اس نے اس نظم کو بلاشبہ کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔
۔
- ستارہ رقص میں ہے - 29/05/2025
- سمندر، جزیرے اور جدائیاں - 25/05/2025
- جلیل عالی : برگ و ثمر سے آگے - 20/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).