کیا ایران اکیلا رہ گیا ہے؟ ‎


مشرق وسطیٰ کے موجودہ تنازعے میں ایران کی پراسرار خاموشی ایک معمہ بن چکی ہے۔ قبل ازیں، یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ ایران نے اپنے اعلیٰ عہدیداروں اور قریبی اتحادیوں پر حملوں کا اس قدر نرمی سے جواب کیوں دیا؟

یہ سلسلہ 2020 ء میں شروع ہوا، جب امریکہ نے ایک اعلیٰ ایرانی فوجی اہلکار کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا۔ پھر اس سال کے شروع میں اسرائیل نے شام میں ایران کے قونصل خانے پر بمباری کر کے اس کے کئی فوجی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے حماس کے ایک رہنما اسماعیل ہنیہ، جب وہ تہران کے ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے، کو قتل کر دیا تھا۔ اور اب پچھلے آٹھ دس دنوں میں اسرائیل نے لبنان میں حسن نصراللہ کو نشانہ بنا کے حزب اللہ، جو تاریخی طور پر حماس سے بھی زیادہ ایران کے قریب رہا ہے، کی قیادت کو ختم کر دیا ہے۔

اس سب کے جواب میں ایران نے بہت کم رد عمل دکھایا ہے۔ اس نے 2020 ء میں عراق میں امریکی اڈوں پر کچھ میزائل داغے اور اب اپریل میں اسرائیل پر سینکڑوں میزائل برسائے۔ لیکن کسی بھی حملے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا، اور ایران نے مزید کوئی ایکشن بھی نہیں لیا۔ ابھی تک، اس نے حزب اللہ پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کا بھی کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

گو وقتاً فوقتاً ایرانی حکومت امریکا سے اپنی دشمنی کا اظہار ”امریکا مردہ باد“ کے نعروں کے ساتھ کرتی رہتی ہے اور بار بار اسرائیل کی تباہی کا عزم بھی دہراتی رہتی ہے۔ مگر مشرق وسطیٰ کی ایک پرجوش طاقت کے طور پر ایران کے ردعمل کی کمی سبھی کے لیے اچنبھے کا باعث ہے۔

ایران پہ الزام ہے کہ اس نے حزب اللہ اور حماس جیسے گروپوں کے ایک نیٹ ورک کو فروغ دیا، جس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ ایران نے ایران کی شیعہ علما کی حکومت کے برعکس، سعودی عرب، جو کہ امریکہ کا سب سے اہم عرب اتحادی ہے، کی بھی مخالفت کی ہے۔

ایرانی حکومت کو کئی طریقوں سے اسرائیل مخالف اور مغرب مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ ایران کا مقصد ہمیشہ سے مشرق وسطیٰ کا سب سے طاقتور ملک بننا ہے۔ خطے میں ایران کی طاقت ایک ایسے ملک کے طور پر اس امیج کے طور پہ مشہور تھی جو نہ صرف بیان بازی سے بلکہ اسرائیلی سائٹ اور افراد کو بالواسطہ اور بلاواسطہ نشانہ بنا کر اسرائیل کو للکارتا رہا ہے۔

تاہم ایران نے اپنے دشمنوں کے حملے کے باوجود حالیہ تنازعات سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وضاحت صرف یہ دکھائی دیتی ہے کہ ایران اس وقت اپنے اس امیج کے مقابلے میں کہیں کمزور ہے جتنا وہ دنیا میں اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے۔ اپریل سے پہلے ایرانی رہنماؤں کو یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے حملے اسرائیلی اور امریکی دفاع کو خاطر خواہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اپریل میں اپنے شامی قونصل خانے پر بمباری کے بدلے میں اسرائیل پر ایران کے حملہ کا نتیجہ مایوس کن تھا۔ اسرائیل نے امریکہ اور دیگر ممالک کی مدد سے ایران کے تقریباً تمام میزائلوں اور ڈرونوں کو مار گرایا۔ جس کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ ایران بے بس اور مایوس ہے۔

جب اسرائیل نے اپنی کامیاب جوابی کارروائی شروع کی اور ایک ایرانی جوہری تنصیب کی حفاظت کرنے والے طیارہ شکن نظام کو نشانہ بنایا۔ اس حملے سے اسرائیلی پیغام واضح تھا کہ وہ بغیر شناخت کے ایرانی دفاعی نظام میں داخل ہو سکتا ہے اور ایران کے طیارہ شکن نظام کو تباہ کر سکتا ہے جو اس کی حساس ترین جگہوں کی حفاظت کرتا ہے۔ جولائی میں تہران کے ایک گیسٹ ہاؤس میں بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کا قتل ایران کے لیے اسی طرح شرم کا باعث تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ ان واقعات نے ایران کی حکومت کے اندر اسرائیل کے ساتھ بڑے تنازع کے ممکنہ نتائج کے بارے میں خوف کا ایک تاثر پیدا کر دیا ہے۔ ایران کو علم ہو گیا ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت میں بہت سے عناصر ہیں جو تہران پر بمباری کرنے کا بہانہ چاہتے ہیں، اور ایران کی طرف سے کوئی بھی براہ راست حملہ فوری طور پر اسرائیل کو یہ بہانہ مہیا کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ایران جانتا ہے کہ اسرائیل کی اعلیٰ فوج ممکنہ طور پر ایک ایسے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچائے گی جو پہلے ہی بڑی حد تک بین الاقوامی سردمہری کا شکار ہے اور شدید اقتصادی مسائل سے نمٹ رہا ہے۔

ایرانی عوام اپنی حکومت سے اس کی مذہبی انتہا پسندی اور بحران زدہ معیشت کی وجہ سے پہلے ہی غیر مطمئن ہیں اور یہ امر نوشتہ دیوار ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے لوگوں کی عوامی حمایت کے بغیر طویل مدت میں جنگ نہیں جیت سکتا۔

چناں چہ ایسا لگتا ہے کہ ایران کے رہنماؤں نے احتیاط کا انتخاب کیا ہے۔ امید ہے کہ اس تناؤ کو ختم کرنے کے لئے مستقبل میں بہتر حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل نے لبنان پر زمینی حملہ بھی شروع کر دیا ہے جو حزب اللہ کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).