مخالف لیڈروں کو مار کر جنگ جیتنے کی اسرائیلی کوشش


اسرائیل نے حماس کے لیڈر یحییٰ سنوار کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ وزیرِ خارجہ اسرائیل کاٹز نے تصدیق کی ہے کہ جمعرات کو غزہ میں کارروائی کے دوران حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار مارے گئے ہیں۔ وزیرِ خارجہ نے اسے اسرائیل کی ’فوجی اور اخلاقی کامیابی‘ قرار دیا ہے۔ لیڈروں کو نشانہ بنانے کی اسرائیلی حکمت عملی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل حماس اور حزب اللہ کی ہائی کمان کو نشانہ بنا کر ان گروہوں کو توڑنا اور علاقے میں عسکری مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

یحییٰ سنوار جولائی کے آخر میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اس گروہ کے لیڈر بنائے گئے تھے۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائی کی پوری مدت میں یحییٰ سنوار غزہ ہی میں موجود رہے تھے۔ یاد رہے اسماعیل ہنیہ کو تہران کے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں ایرانی دارالحکومت میں موجود تھے۔ اسرائیل نے اگرچہ اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ایران کا دعویٰ رہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیلی انٹیلی جنس نے ہی مروایا تھا۔ ہنیہ کی ہلاکت گیسٹ ہاؤس میں ہونے والے ایک دھماکہ میں ہوئی تھی جس کی تفصیلات سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ حماس نے اس کے بعد یحییٰ سنوار کو اپنا نیا لیڈر منتخب کیا تھا۔ وہ اس وقت بھی غزہ میں اسرائیل کے خلاف جنگی کارروائیوں کی قیادت کر رہے تھے۔ انہیں 2011 میں وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت نے ایک اسرائیلی یرغمالی فوجی کی رہائی کے بدلے میں دیگر فلسطینی قیدیوں کے ہمراہ رہا کیا تھا۔ اس کے بعد سے سنوار نے حماس کی قیادت میں نمایاں مقام حاصل کیا اور وہ اس کے عسکری ونگ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سخت گیر اور جنگ جو لیڈر تھے۔

امریکہ نے یحییٰ سنوار کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ اسرائیل کا دعویٰ رہا ہے کہ وہی گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملہ کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ اس حملہ میں 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے جبکہ 250 کے لگ بھگ لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ ان میں سے 105 یرغمالیوں کو گزشتہ سال نومبر میں ایک عارضی جنگ بندی کے دوران رہا کرایا گیا تھا تاہم اب بھی گزشتہ سال اکتوبر میں اغوا کیے گئے لوگوں میں سے ایک سو سے زائد لوگ حماس کے قبضے میں ہیں اور اسرائیل ایک سال سے زیادہ غزہ میں فوجی کارروائیوں کے باوجود انہیں رہا کروانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ یرغمالیوں کے اہل خاندان اسرائیلی حکومت پر جنگ بند کرنے اور حماس کی قید سے اسرائیلی شہریوں کو واپس لانے کے لیے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں لیکن نیتن یاہو کی حکومت نے اب جنگ کا دائرہ لبنان تک وسیع کر دیا ہے جہاں وہ حزب اللہ کے ٹھکانوں کے علاوہ اس کے لیڈروں کو مارنے کی تاک میں ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوآؤ گیلنٹ نے یحییٰ سنوار کے مارے جانے پر کہا ہے کہ ’ہمارے دشمن چھپ نہیں سکتے۔ ہم ان کا پیچھا کریں گے اور ماریں گے‘ ۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ایک بیان کہا ہے کہ ’یحییٰ سنوار کا قتل یرغمالوں کی فوری طور پر رہائی اور ایسی تبدیلی کا امکان پیدا کرے گا جو غزہ کو ایک نئی حقیقت کی طرف لے جائے گا جو حماس اور ایرانی کنٹرول کے بغیر ہو‘ ۔ یہ تصور کرنا ممکن نہیں ہے کہ اسرائیل کا یہ خواب کیسے پورا ہو گا کہ وہ مزاحمت کرنے والے لیڈروں کی ہلاکت کے بعد یہ سوچنے لگے کہ اب اس کے مدمقابل لوگ ہتھیار پھینک کر اسرائیل کی شرائط پر غلامی کی زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ ایسا خواب دیکھنا در حقیقت اس سچائی سے انکار کے مترادف ہو گا کہ اسرائیل غزہ کے نہتے لوگوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ایک سال سے زائد مدت سے کی جانے والی جارحیت میں اگر ہزاروں لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے تو اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں نوجوانوں کو اسرائیل کے سامنے سینہ سپر ہونے پر آمادہ کرچکا ہے۔ جس انداز اور جارحانہ طریقے سے اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کے مکینوں اور مغربی کنارے پر فلسطینیوں کا جینا حرام کیا ہے اور بچوں کے سامنے ان کے اہل خاندان کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس کی روشنی میں اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک لیڈر کے مرنے سے فلسطینیوں یا حماس کی مزاحمت ختم ہو جائے گی۔ البتہ اسرائیلی لیڈر جنگ میں ناکامی کے بعد اپنے عوام کو تسلی دینے کے لیے چند لیڈروں کی ہلاکت کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

سوال کیا جاسکتا ہے کہ حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو کیسے ناکام کہا جاسکتا ہے جبکہ اس نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور وہاں آباد پچیس لاکھ لوگوں کو دربدر ہونے پر مجبور کیا ہے۔ ایک جگہ سے منتقل ہونے کے بعد غزہ کے لوگ دوسرے مقام پر سانس لینے کے قابل بھی نہیں ہوتے کہ انہیں ایک بار پھر نقل مکانی کا حکم سنا دیا جاتا ہے۔ ان کوششوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح غزہ کے لوگ ہار مان جائیں لیکن ان لوگوں کے ہار ماننے کی بجائے مسلسل آزادی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی اسرائیل کی ناکامی ہے۔ ایک سال کی مسلسل جنگ اور اقوام متحدہ کے جائزوں کے مطابق نسل کشی جیسے حالات کے باوجود غزہ کے لوگ سب کچھ گنوانے کے بعد بھی اپنی زمین پر ہی مرنے اور وہیں دفن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میانمار کے روہنگیا کے برعکس غزہ کے شہریوں نے عارضی اور ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں سمندر کے راستے اس جہنم سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسرائیل بموں، میزائلوں، بری فوج کی پیش قدمی کے باوجود اپنی دھرتی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہی اسرائیل کی ناکامی ہے۔

کہا جاسکتا ہے کہ حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے برعکس دہشت گرد ہتھکنڈوں کا طریقہ اختیار کیا۔ کسی حد تک یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ 7 اکتوبر کا حملہ صریحاً اشتعال انگیزی تھا اور اسی ایک واقعہ کی وجہ سے اسرائیل کو جنگ جوئی کا موقع ملا اور اب اس نے حماس کے علاوہ حزب اللہ کا خاتمہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ لیکن یہ باتیں ایک انتہا پسند اسرائیلی حکومت اور اس کی عسکری مشینری کے جھوٹے پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ اگر اسرائیل کامیاب ہو رہا ہوتا تو وہ کبھی مد مقابل عسکری گروہوں کے لیڈروں کو غیر قانونی ہتھکنڈوں سے ہلاک کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ اگر فوجی کارروائیوں میں اسرائیل سرخرو ہے تو اسے ایک کمانڈر کے مرنے پر کامیابی اور خوشی کے شادیانے بجانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ درحقیقت مخالف لیڈروں کو مار کر ایک طرف اسرائیل مخالف عسکری گروہوں کے حوصلے پست کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اپنے لوگوں کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ حالات اس کے کنٹرول میں ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے ہلاک کر سکتا ہے۔ حالانکہ اگر اسرائیلی فوج کو غزہ میں کامیابی مل گئی ہوتی تو وہ اب تک اپنے باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کرا چکا ہوتا۔ ابھی تک صرف وہی لوگ حماس سے واپس لیے جا سکے ہیں جنہیں اس نے خود واپس کرنے کا فیصلہ کیا یا جو اس دوران میں ہلاک ہو گئے اور ان کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کی گئیں۔

اسی طرح اگر غزہ میں اسرائیل کے عسکری اہداف پورے ہو گئے ہوتے تو اسے لبنان پر حملہ کرنے اور جنوبی لبنان میں زمینی کارروائی کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اسرائیلی حکومت بدحواسی میں جنگ کا دائرہ وسیع کر رہی ہے اور یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ امریکہ بالآخر اس کی ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے لیے خود براہ راست کارروائی پر مجبور ہو جائے گا۔ اسی نیت سے ایران کے ساتھ براہ راست تنازعہ کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ ورنہ ایران نے اس ایک سال کے دوران براہ راست اسرائیل کے ساتھ الجھنے سے گریز کیا ہے۔ البتہ جب اسرائیل نے شام میں ایرانی فوجیوں کو ایک فضائی حملے میں ہلاک کیا تو اپریل میں ایران کو پہلی بار اسرائیل پر میزائل و ڈرون حملہ کرنا پڑا۔ اس ماہ کے دوران ہونے والا بیلاسٹک میزائل حملہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کو ہلاک کرنے کا انتقام لینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اعلان بھی کیا گیا تھا کہ ایران اب اشتعال انگیزی میں اضافہ نہیں چاہتا لیکن اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی تو ایران کا جواب خوفناک ہو گا۔ اسرائیل اب ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اسرائیلی حکومت نے اہداف کا تعین کر لیا ہے تاہم امریکہ کی طرف سے میزائل شکن سسٹم تھاڈ کے آنے اور تنصیب کا انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ ایران کے جوابی حملہ کے لیے دفاع کو پہلے سے ہی مستحکم کر لیا جائے۔ تھاڈ میزائل شکن سسٹم امریکہ کا جدید ترین دفاعی نظام ہے جسے فعال رکھنے کے لیے امریکہ اپنے فوجی بھی اس سسٹم کے ہمراہ اسرائیل بھیج رہا ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ امریکہ کی ایسی ہی امداد کے بل بوتے پر وہ ایک طرف حماس کا خاتمہ کرے گا، لبنان میں حزب اللہ کو مفلوج و ناکارہ کردے گا اور دوسری طرف ایران کی عسکری قوت کو تباہ کر کے وسیع المدت امن کی طرف پیش قدمی کرسکے گا۔

لیکن جنگ جوئی سے امن حاصل نہیں ہوتا۔ امن کے لیے فریقین کو مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں۔ اسرائیل اس کے برعکس صرف اپنی عسکری طاقت کی بنیاد پر مخالفین کو ہراساں کر کے یا دباؤ میں لاکر امن حاصل کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ اسی حکمت عملی کی وجہ سے اسرائیل گزشتہ 75 سال میں امن حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ وہ امن نہیں، اس علاقے میں اپنی بالادستی اور بدمعاشی قائم کرنا چاہتا ہے۔ غزہ کے علاوہ لبنان اور ایران کے لوگوں نے اس خواہش کے خلاف سینہ سپر ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان حالات میں ایک مزید لیڈر کو قتل کرنے سے اسرائیل جنگی کامیابی یا امن قائم کرنے کا مقصد حاصل نہیں کرسکے گا۔

مخالف لیڈروں کو ہلاک کر کے کامیابی حاصل کرنے کی خواہش ہی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل بنیادی طور سے تخریبی عسکری حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اس نے گزشتہ ایک سال کے دوران حماس و حزب اللہ کے متعدد لیڈروں کو ہلاک کر کے جنگ جیتنے کا اعلان کیا ہے۔ 30 جولائی کو بیروت میں ایک حملے میں حزب اللہ کے لیڈر فواد شکر کو مارا گیا۔ 31 جولائی کو تہران میں حماس کے لیڈر اسمعیل ہنیہ کو قتل کر کے ایران کے ساتھ براہ راست تنازعہ میں اضافہ کیا گیا۔ ستمبر کے دوران پیجر و واکی ٹاکی دھماکوں کے ذریعے حزب اللہ کے متعدد کارکنوں اور لیڈروں کو نشانہ بنا گیا۔ 28 ستمبر کو حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کو ایک شدید فضائی حملہ میں مار دیا گیا۔ 7 اکتوبر کو نیتن یاہو نے حزب اللہ کی ممکنہ قیادت سنبھالنے والے ہاشم سیف الدین کی ہلاکت کا اعلان کیا۔ آج غزہ میں حماس کے لیڈر یحییٰ سنوار کو مارنے کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایران کے خلاف جوابی کارروائی میں بھی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے علاوہ ایرانی لیڈروں کو مارنے کی حکمت عملی بھی تیار کی گئی ہے۔ اسی لیے ایران نے حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعد اپنے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کو کسی خفیہ محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔

کیا اسرائیل، مخالف عسکری گروہوں اور ملکوں کے لیڈروں کو مار کر اس جنگ میں کامیاب ہو جائے گا۔ اسرائیل کا اپنا خیال ہے کہ اس کی حکمت عملی کامیاب ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ مخالف گروہ بھی جواب میں اسرائیلی لیڈروں کو ٹارگٹ کرنے کے طریقے اختیار کریں۔ اس طرح یہ تصادم مشرق وسطیٰ سے نکل کر علاقے اور دنیا کے متعدد دوسرے ملکوں تک پھیل سکتا ہے۔ کیوں کہ کسی دوسرے ملک میں دشمن کے کسی لیڈر کو مار دینے کا طریقہ خود اسرائیل نے ہی متعارف کرایا ہے۔

سید مجاہد علی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2933 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments