ریاست کا قومیت میں ڈھلنا ضروری ہے!


قائدِ اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ ملک بیوروکریسی اور صنعت کاروں کی نذر ہو گیا۔ صنعت کار اور شاہی افسران سیاسی عہدوں پر بھی قابض ہو گئے اور قومی وسائل پر بھی۔ پچھلے کئی برسوں سے ہمارے ملک میں نام نہاد بے رحم جمہوریت کا راج ہے۔ اسی جمہوریت کے بارے میں جارج برنارڈ شا نے کہا تھا: ”جمہوریت انتخابات کا وہ متبادل ہے جو چند فاسدوں کی تقرری سے عوام کے استحصال کا باعث بنتی ہے“ ۔ پاکستان اور اس کے بے بس عوام کو یہی جمہوریت بہت چاہت سے لُوٹتی ہے۔

یاد رہے ووٹ محض کاغذ کی ایک چھوٹی سی پرچی نہیں بلکہ یہ ووٹر کی عمر بھی کی وہ کمائی ہے جسے وہ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ عوام نے آٹھ فروری کو جمہوریت کے تحت اپنی پسند کے نمائندے چُنے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے جو طرزِ عمل اختیار کیا اسے طاقت والوں نے مسترد کر دیا۔ آج بھی عوام سسک رہے ہیں اپنے حقوق کے لیے اپنے مسائل کے حل کے لیے جب کہ ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کے اہم نکات میں آزاد عدلیہ، عوام کے بنیادی حقوق، پسماندہ علاقوں کی ترقی، اقلیتوں کے حقوق اور دیگر بے شمار چیزیں شامل ہیں۔

جہاں ہمارے مجبور لوگوں کو ریاست نے بہت سے حقوق سے محروم کر رکھا ہے وہیں پر احتجاج جو بنیادی حق ہے کرنے والوں کو نہ صرف روکا جا رہا ہے بلکہ مرد تو مرد عورتوں تک کو سرِ عام سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے۔ جہاں محنت کش کو اس کی محنت کے مطابق اجرت نہیں دی جاتی۔ جہاں دولت کی تقسیم میں برابری نہیں وہاں امن کیسے قائم ہو گا؟ ریاست جب تک قومیت میں نہیں ڈھلے گی سیاست کی خود غرضیاں نہ ختم ہوں گی نہ ہی جمہوریت کو فروغ ملے گا۔

اس وقت پاکستان تمام عوام کے لیے مسائل کا ایسا پہاڑ ہے جسے روزانہ لوگ اپنے اپنے حصے کا کاٹتے ہیں مگر اگلے ہی روز وہ اس سے زیادہ بڑا ہو جاتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان اپنے بیانات، تقاریر اور خطابات میں پاکستان کو بدلنے کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس کے تناظر میں وہ لوگ جو انہیں اپنا لیڈر مانتے ہیں وہ اپنے لیڈر کو دیوانہ وار چاہتے ہیں۔ تھوڑا سا ماضی قریب میں جائیں تو لوگ اسی طرح بھٹو صاحب کو دیوانگی کی حد تک محبت کرتے تھے اگر کہا جائے کہ وہ پاپولسٹ سیاست دان ہونے کی وجہ سے تختہ دار پر چڑھائے گئے تو غلط نہ ہو گا۔

اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں مزید ابتری پھیل چکی ہے۔ کسی بھی ملک کی سیاسی، ثقافتی، سماجی اور معاشی حالات کی تاریخ انتخابات کے ذریعے ہر پانچ سال بعد رقم ہوتی ہے۔ پچھلے چند سالوں سے ملک کے اٹھارہ سے تیس سال تک کے مڈل کلاس کا رجحان پی ٹی آئی کی طرف زیادہ ہے جس میں کافی تعداد خواتین کی بھی ہے۔ صاف ظاہر ہے یہ سب لوگ اس شفاف تبدیلی کے خواہاں ہیں جس کے خواب کئی نسلیں دیکھتی آئی ہیں۔ وقت کے پہیے کے نیچے سب کو آنا ہی پڑتا ہے۔

پاکستان میں خوش بختی کا پرندہ ہُما جس کے بھی سر پر بیٹھ جائے سنگھا سن کی کرسی پر وہی خوش قسمت براجمان ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر کام کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اسی طرح بر سرِ اقتدار بادشاہ بھی ہُما کے اشاروں پر چلتا ہے ورنہ فلمی انداز میں کرسیٔ اقتدار سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں اوپر تلے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ ایک طرف اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے جس میں بھارت سے آئی صحافی برکھا دت سے میاں نواز شریف نے مودی کی کمی کا اظہار کیا جبکہ مودی اپنی حالیہ انتخابی مہم میں پاکستان مخالف بیانہ استعمال کر رہا ہے۔

ایس۔ سی۔ او کا اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں غزہ سے لبنان تک پھیلتی ہوئی جنگ تشویش ناک ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کو بھی دو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے جس کے نقصانات دنیا دیکھ رہی ہے۔ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کی وجہ سے کشمیری اور پاکستانی خوش نہیں۔ مگر نواز شریف صاحب کی خواہش پر کئی سوالات اُٹھتے ہیں کیونکہ انہوں نے کشمیر کے آرٹیکل 370 پر پاکستان کے اصولی موقف کا ذکر تک کرنا گوارا نہیں کیا۔

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ہمارے گھر آ کر بیان دیا کہ یہاں دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی ہے لہذا تجارت نہیں ہو سکتی۔ مگر ایک ہم ہیں کہ مرے جا رہے ہیں ان سے تجارت کرنے کو مگر کشمیر کے لیے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ دیکھا جائے تو بھارت اپنی ہی ساکھ کی خاطر اس اجلاس میں شرکت کو آیا۔ ورنہ اتنی بڑی تنظیم سے بھارت باہر ہو جاتا۔ خطے میں اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے پاکستان نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت نے ایک بات پکڑی ہوئی ہے کہ آپ کے یہاں دہشت گردی ہوتی ہے لہذا ہم یہاں تجارت نہیں کر سکتے۔

سوچنے کی بات ہے کشمیر کا معاملہ تو 76 سال سے چل رہا ہے اور رہ گئی دہشت گردی تو وہ اس خطے کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ کیا کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانا دہشت گردی کے زُمرے میں نہیں آتا۔ کشمیری بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ دوسری طرف SCO کے اجلاس کا ہونا بے شک ایک نہایت خوش کُن اقدام ہے مگر آپ دنیا سے یہ کیسے چھپائیں گے کہ آپ کے اپنے ملک میں تو اتفاق نہیں۔ جائز مطالبات پر احتجاج کرنا سب کا جمہوری حق ہے مگر افسوس کہ یہاں احتجاج کرنے والوں کی بہو بیٹیوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے۔ کیا انصاف کی بات کرنا گناہ ہے؟ کیا حق کے لیے آواز اُٹھانا جُرم ہے؟ کیا اربابِ اختیار چاہتے ہیں کہ لوگ اپنی زبانیں کاٹ کر آپ کی ہتھیلیوں پہ رکھ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments