گورے بھی مسجد کی دیانت کی قسم اٹھاتے ہیں


مسلمانوں کی جتنی تاریخی مساجد ہیں، بلکہ ہر شہر کی جامع مسجدیں ہی دیکھ لیں، سب میں ایک بات مشترکہ ہے یہ بات کہہ کر گورا تو چپ کر گیا۔ ہمارے پروں پر گھڑوں کے حساب سے پانی البتہ پڑ گیا۔ یہ سوچنا شروع کر دیا کہ یہ کمبخت اب کیا کہنے لگا ہے۔ کیا بتائے گا کہ مسجد کے پاس والے گھروں کی قیمت باقی گھروں سے کم ہوتی ہے یا کچھ اور بتائے گا۔

ایک بات کا خیال آیا سوچ کر ہی چیخ نکل گئی کہ او تیری کہیں یہ نہ بتانا شروع کر دے۔ گورا ہے کہیں بالکل ہی بے گیرتی پر نہ تل جائے

بادشاہی مسجد کے ساتھ شاہی محلے کا ذکر نہ کرنے لگ جائے۔ یہ خیال آیا اور ہم نے آنکھیں بند کر لیں سوتا بن گیا۔ دل میں یہی کہ مرے جو مرضی کہے میں تو اس محفل میں اب بیٹھا ہوا ہی نہیں ہوں، سو رہا ہوں۔ کسی نے پوچھا بھی تو میں کسی سوال کا جواب ہی نہیں دونگا۔ اجتماعی بزتی کا سامان ہونے لگا ہے اب کچھ کر تو سکتے نہیں تو کبوتر ہی بن جاتے آنکھیں بند کر کے۔

ہمارے سر میں سوچ کی ایسی لہریں آ جا رہی تھیں۔ گورا کافی کا گھونٹ بھر کے پھر رواں ہو چکا تھا۔

آپ کسی بھی پرانے شہر کی جامع مسجد دیکھ لیں وہ بہت ہی گنجان آباد جگہ پر ہوگی۔ اس مسجد کے اردگرد بازار لازمی ہو گا۔ مارکیٹیں ہوں گی یہ بہت ہی عوامی جگہ ہو گی ۔ جہاں ہر وقت بہت رش رہتا ہوگا۔ گورے کا بیان جاری تھا ہمیں البتہ اس کی ذرا پروا نہیں تھی۔ ہم اپنے خدشات کا شکار ہوئے بیٹھے تھے۔ سونے کی پوری ایکٹنگ ہو رہی تھی۔ اس کو نہیں پتہ تھا کہ وسی بابا کیا سوچ رہا۔ وہ بولے جا رہا تھا چپ ہو ہی نہیں رہا تھا۔

میں اب یہ سوچ رہا تھا شاید بچت ہو گئی ہے۔ یہ اب زیادہ سے زیادہ ہمارے سوک سینس کی ایسی تیسی کرے گا۔ شوق سے کرے ہماری اصل بات خرابی کا تو اس کو سائیں کو پتہ ہی نہیں، اب لگا رہے بولی جا۔ وہ بھی لگا رہا۔

کہنے لگا

مسجد کے ساتھ مارکیٹ مسلمانوں کی ایک بڑی امتیازی خوبی تھی۔ یہ اس بات کی ضمانت تھی کہ مسجد کے ساتھ مارکیٹ امن کی جگہ ہے۔ یہاں لین دین دیانتداری سے ہوتا ہے۔ کوئی تنازعہ اگر ہو گا تو اس کا فیصلہ دو قدم دور مسجد میں ہی ہو جائے گا۔ مسجد میں کسی رنگ نسل مذہب کی پروا لحاظ کیے بغیر فوری انصاف ہو جائے گا۔

کاروبار تجارت لین دین مسلماںوں کے لیے حساس ترین معاملہ تھا۔ اس سے متعلقہ امور روزمرہ معاملات کا فوری حل مسجد میں میسر تھا۔ ہر جگہ سے لوگ مسلامانوں کی مارکیٹ آتے تھے۔ مسجد ایک اعتبار دیانت کی علامت تھی۔ کاروبار کے تحفظ کی ضمانت تھی۔ یہ باتیں سن کر خود بخود آنکھیں کھل گئی تھیں۔ تھوڑا فخر تھوڑا سا غرور محسوس کیا۔

پھر ایک عاجزی ایک بے بسی نے آ لیا کہ ان مسجدوں میں کیسے لوگ بیٹھتے ہوں گے وہ کیا ہوئے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi