سیمسن جاوید کی کتاب گل و خار


حال ہی میں مجھے سیمسن جاوید کی کتاب ”گل و خار“ پڑھنے کا موقع ملا۔ اس کتاب کو پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ ایک صحافی کے کالم ادبیات میں ایک منفرد اضافہ ہوتے ہیں۔ سیمسن جاوید نہ صرف ایک کہنہ مشق صحافی ہیں بلکہ ایسے لکھاری بھی ہیں جو پاکستانی مسیحیوں کی جانب سے مین اسٹریم میڈیا میں ایک مضبوط آواز ہیں۔ چونکہ وہ کسی طور مذہبی شخصیت نہیں، بلکہ ایک سماجی مبصر کی حیثیت سے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں، اس لیے یہ کاوش اور بھی قابل قدر ہے۔ اُنہوں نے سیاسی میدان میں نا انصافیوں، امتیازی سلوک، ناتواں اور بے آواز لوگوں کی آواز بن کر لکھا ہے۔

سیمسن جاوید کی تحریریں میں نے گزشتہ کئی سالوں سے مختلف مسیحی جریدوں اور اخبارات میں پڑھیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں تحریر کے فن پر خوب عبور حاصل ہے۔ حالیہ برسوں میں ان سے آن لائن پروگراموں میں ملاقات کا بھی موقع ملا، اور ایک ایسے ہی پروگرام میں انہوں نے اپنی نئی کتاب کا ذکر کیا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ گزشتہ دنوں میں کراچی سے ملتان اپنی ٹریننگ کے سلسلے میں گیا جہاں پاکستان کرسچن رائٹر گلڈ کے مرکزی صدر اور مصنف جناب جاوید یاد نے یہ کتاب مجھے تحفے میں پیش کی۔

160 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو خوبصورت ٹائٹل، ہارڈ بائنڈنگ اور عمدہ کاغذ پر شائع کیا گیا ہے، جس کی قیمت 1200 روپے ہے۔ کتاب سیمسن جاوید نے اپنے والدین اور بڑے بھائی آرتھر جان کے نام کی ہے، جنہوں نے انہیں معاشرے میں سر اٹھا کر جینے اور حق و سچ کی آواز بلند کرنے کی جرات بخشی ہے۔ ٹائٹل پر گل کا نشان اور سیمسن جاوید کی تصویر موجود ہے جبکہ بیک پیج پر ڈاکٹر صلاح الدین حیدر، ڈاکٹر اختر انجیلی، امجد پرویز ساحل، جاوید یاد اور رضی الدین رضی کے تاثرات درج ہیں۔

کتاب میں موجود 146 مضامین پاکستان میں مذہبی اقلیتوں، خصوصاً مسیحی کمیونٹی، کے مسائل اور ان پر سماجی و حکومتی ردعمل کو بیان کرتے ہیں۔ سیمسن جاوید نے ان واقعات کو ایک سماجی مبصر کی طرح پیش کیا ہے۔ اگرچہ وہ بیرون ملک مقیم ہیں، مگر ان کی تحریروں میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے سیاسی اور سماجی مسائل کی جھلک ملتی ہے۔

سیمسن جاوید کی تحریروں کا مقصد ایک مسیحی کا نوحہ نہیں بلکہ ایک ذمہ دار صحافی اور مبصر کا اظہار ہے۔ انہوں نے نہ صرف حکومتی عہدیداروں، مسیحی سیاستدانوں، اور مذہبی رہنماؤں کے کردار پر تنقید کی ہے بلکہ سفید لباس میں موجود کالی بھیڑوں کو اجاگر کر کے کمیونٹی کو خود احتسابی کی ترغیب بھی دی ہے۔ پاکستانی معاشرہ جہاں ایک ترقی پذیر حالت میں ہے، وہاں اس کے بے شمار مسائل کے حل کے لیے اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔

سیمسن جاوید کی کتاب ”گل و خار“ نئے مسیحی لکھاریوں کے لیے ایک مثال ہے اور مذہبی اقلیتوں کے مسائل کی وکالت بھی کرتی ہے۔

اس کتاب میں پاکستانی صحافت اور اس کی معاشرتی اہمیت کے حوالے سے گہرا جذبہ اور فہم ظاہر ہوتا ہے۔ اُنہوں نے نہایت خوبصورتی سے بطور صحافی، مذہبی سیاسی و عوامی مسائل پر مبنی طرزِ تحریر اور اس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے۔ سیمسن جاوید کی صحافتی اور سماجی خدمات قابل ذکر ہیں۔

سیمسن جاوید جیسے صحافی نے مذہبی اقلیتوں کے مسائل کو ایک غیر جانب دار اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے بیان کیا ہے، ان کی تحریر میں پاکستانی معاشرتی و سیاسی نظام کی عکاسی کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے کردار کی اہمیت کا بھی بھرپور انداز سے اظہار ملتا ہے۔ یقیناً ایسے موضوعات پر ان کی بصیرت اور مشاہدہ پاکستانی صحافت کے لیے بیش قیمت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments