حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب!



پچھلے دنوں ایک ہوائی سی اڑی، یقیناً کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔ دشمنوں کو اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں، بیٹھے بیٹھے ہوائیاں اڑایا کرتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ا ن کی اڑائی، ہوائیاں، ہمارے چہروں پہ چھوٹ جاتی ہیں اور پھر دشمن گنگناتے پھرتے ہیں،

؂ یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو

اگلا مصرعہ اکثر بھول جاتا ہے، اور کیوں نہ بھولے؟ نسیان کا مرض پرانا اور موروثی۔ خیر وہ ہوائی یہ تھی، کہ سکول کالج وغیرہ میں حجاب لینے والی لڑکیوں کو پانچ نمبر اضافی دیے جائیں گے۔ پھر سنا کہ ایسا نہیں ہے۔ بہت لے دے مچی، کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ۔ میں سب سنتی رہی۔ مجھے نہ تو اس قسم کے کسی فیصلے پہ حیرت ہوتی ہے اور نہ ہی میں اس پہ بحث کرنا چاہتی ہوں۔

دنیا کے ہر خطے کی اپنی آب وہوا ہے اور اس آب و ہوا کے مطابق ہی وہاں کے رسوم و رواج اور عقائد پروان چڑھتے ہیں۔ اسلام میں خواتین کے لیے پردے کے معاملہ پر کوئی ابہام نہیں ہے۔ مستور عورت کے لیے اسلامی معاشرے میں بہت سی آسانیاں بھی ہوتی ہیں۔

ہمارے خاندان کی بڑی بوڑھیاں کہیں آتی جاتی نہیں تھیں، کپڑے، زیور، سب گھر پہ لاکر دکھا دیے جاتے تھے، چونکہ گھر تھا اس لیے کوئی پردہ نہ کرتا تھا، البتہ کپڑوں کے تھان اور زیور کے ڈبے اٹھا کر لانے والا شخص ضرور لال صافی سے منہ ڈھانک لیتا تھا۔ یہی حال ماشکی، اور جمعدار کا تھا۔ اگر کبھی قسمت سے کسی کا کہیں جانے کا ارادہ بن گیا تو کتھئی رنگ کا ساٹن کا مصری برقعہ اوڑھ کر گاڑی تک جایا جاتا تھا۔ اگلے گھر میں بھی ڈیوڑھی سے یہ برقعہ اتار کر برقعہ اٹھانے والی کو پکڑا دیا جاتا تھا۔

پردہ کوئی ایسی قابلِ ذکر بات نہ تھی، جو کرتا تھا، کرتا تھا، نہ کرتا تھا اس کی مرضی۔ گھروں میں فراغت تھی، کسی کو مجبوری میں باہر نکل کے کام نہ کرنا پڑا تھا۔ پھر اچانک ایسا ہوا کہ عورت کے سر کا دوپٹہ بے حد اہم ہو گیا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ مصری برقعہ اوڑھنے والی میری پھپھیاں، لانگ سکرٹ پہننے اور دو چوٹیاں گوندھنے والی میری نانی کی بھی ویسی ہی عزت کرتی تھیں جیسی کسی بھی برقعہ پوش خاتون کی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ان ہی نانی اماں کی بڑی بیٹی، ساری زندگی نہ صرف برقعے کی پابند رہیں بلکہ کبھی تصویر بھی نہ کھنچوائی کہ بے پردگی ہوگی۔

مہتاب راشدی کا نام مجھے اس لیے یاد ہے کہ انھوں نے سر پہ دوپٹہ اوڑھنے کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا۔ میں نے ٹی وی پہ سر ڈھانکے عورتیں ہی دیکھیں۔ اشتہاروں میں، ڈراموں اور خبرناموں میں، میں عورت کا تصور سر پہ دوپٹے کے بغیر نہیں کر سکتی تھی۔ میرے سامنے زمانہ بدلا اور یوں بدلا کہ دوپٹہ غائب ہوا اور اس کی جگہ اسکارف آ گیا۔ یہ ایک چار گرہ، نہیں چار گرہ سے کچھ زیادہ،شاید آدھا میٹر کپڑا ہوتا ہے، جسے خواتین سر پہ نہائت دلکش انداز میں لپیٹ کے اس پہ بروچ وغیرہ ٹانک لیتی ہیں۔ اس طرح وہ کوئی فرانسیسی ماڈل محسوس ہوتی ہیں اور نظر بے وجہ اس حجاب سے جھانکتے چہرے سے الجھنے لگتی ہے۔ وہ ہی بے حیا نظر، جسے پردے کے حکم کی طرح ہی جھکے رہنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

خیر تو یہ حجاب یا اسکارف، میں نے ہر جگہ دیکھا۔ مسلمان عورتیں خواہ کسی بھی خطے کی ہوں ان کے سر پہ زیادہ تر اسکارف ہوتا ہے۔ اسی اسکارف کے اوڑھنے پہ مغرب میں ایک ہنگامہ مچا رہتا ہے۔ اسی مغرب میں جہاں کے فیشن ڈیزائنر اس حجاب کی تیاری میں منہمک رہتے ہیں اورفیشن انڈسٹری کے بڑے بڑے نام، یہ حجاب تیار کر رہے ہیں۔

حال ہی میں پلے بوائے میگزین پہ ایک خاتون نے حجاب لے کر ماڈلنگ کی۔ معنی خیزی سی معنی خیزی۔ مجھے نہ پردہ کرنے پہ اعتراض ہے اور نہ پردہ نہ کرنے پہ۔ لباس انسان کی ذاتی پسند نا پسند کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ بہت ممکن ہے ایک ہی عورت مختلف حالات میں مختلف طرح کا لباس پہنے۔ کبھی اس کو چادر بھی اوڑھنا پڑے۔ وہ ہی عورت، اپنی مرضی کے ماحول میں گلے میں دوپٹہ بھی نہ ڈالے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ساری دنیا کو عورتوں کے سر کے پردے کی فکر ہے۔ یہ حجاب کیوں اوڑھتی ہیں۔ یہ حجاب کیوں نہیں اوڑھتی۔ کسی ملک میں حجاب، کے پانچ نمبر دینے پہ غور ہو رہا ہے اور کسی ملک میں حجاب لینے والیوں کی حیثیت مشکوک ہے۔ سارا سارد ن اپنی گدلی آنکھوں کو میچ میچ کر اور بکراہندی سوچوں میں الجھ الجھ کر عورتوں کے سر پہ لیے ، یا نہ لیے جانے والے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت پہ غور کرنا چھوڑیئے! عورتیں خوب جانتی ہیں کہ انہیں سر ڈھانکنا ہے یا نہیں۔

آپ سب حضرات سے اپیل ہے کہ ازراہِ کرم! بانچھوں سے بہتی رال پونچھیئے اور دنیا سے جنگ اور بھوک کے خاتمے کے لیے ذہن لڑایئے۔آپ کا بہت شکریہ!

Mar 19, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).