یا بندہِ خدا بن یا بندہِ زمانہ


میرا گاؤں ہری پور شہر سے تیس کلو میٹر دور ہے۔ میرے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں یہ ایک کچی سڑک پہ واقع تھا۔ اس پہ چلنے والی بسیں اگرچہ راکٹ کہلاتی تھیں لیکن ان میں کوئی بھی ایسی نہ تھی جسے کھٹارہ کہنا زیادہ موزوں نہ ہو۔ ان کے اندر ڈرائیور سیٹ کے سامنے چھت سے نیچے بیل بوٹوں میں گھرے شیشے کے اوپر یہ فقرہ لکھا ہوتا تھا ”چلنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو، شاید یہ تمہاری زندگی کا آخری سفر ہو“۔ اس پندِ سود مند پر اس حد تک ضرور عمل کیا جاتا تھا کہ بس جونہی روانہ ہونے لگتی تمام مسافر دعائے خیر کے لیے ہاتھ اٹھا لیتے۔ دعا بس مختصر سی ہوتی تھی اور لگتا نہیں تھا کہ اس میں گناہوں کی معافی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس بدگمانی کی وجہ ایک تو دعا کا فارمل ہونا تھا اور دوسرا یہ خیال کہ ہم بھلا ایسے عاجز کہاں کہ اپنے آپ کو بندہ بشر سمجھیں اور کوتاہیوں پہ شرمندگی کا اظہار کریں۔

مجھے یہ نصف صدی پرانی بات تب یاد آئی جب کل ہمارے ایک بڑے جج صاحب عمرہ کی ادائیگی پہ روانہ ہوتے ہوئے اپنے سیاں جی کے نام ایک چٹھی چھوڑ گئے۔ میں نے سوچا میں خواہ مخواہ ان پڑھ اور نیم خواندہ دیہاتیوں کی دعائے خیر کے کانٹینٹ کے حوالے سے بدگمان رہا لیکن اب حیران ہوں کہ ان منصفوں میں سے ایک جو سنگ و خشت کی دراز عمارتوں کے ماتھے کے جھومر کے طور پر ”عدل کرو کہ یہ تقویٰ کے قریب ہے“ کو اپنا راہبر مانتے ہیں تقویٰ میں میرے گاؤں کی کچی سڑک کے مسافروں سے ایسے مختلف نہیں۔

ہر عہدے کی ایک دھج ہوتی ہے اور منصف کی دھج تو شاندار مانی جاتی ہے۔ ان کے دلوں میں کدورت کا ایسا گھر کر لینا کہ سفرِ حرم کے سمے بھی بندہ دل آزاری والے عمل سے اجتناب نہ کر پائے، نارمل نہیں۔ غصہ ایسا بے قابو کہ نہ اپنے اور مخاطب کے لیول کا خیال، نہ ہم پیشہ و ہم مشرب ہونے کا پاس، نہ ایسے موقع پر روا رکھی جانے والی رسمِ دنیا کا لحاظ۔ بس ایک ہی دھیان کہ غالب کے پرزے خوب خوب اڑانے ہیں۔

من میں اجلا پن عاجزی سے آتا ہے نہ کہ زعم سے۔ ایسے شخص کی مثال یاد کیجیئے کہ جو غالب کے نام سے موسوم تھا، جسے اس کے بعد کے زمانوں میں اس کے کمالِ فن کی بناء پہ کلِ غالب کہا گیا۔ حضرت بس نام کے ہی مسلمان تھے اور اپنا تعارف ایک موقع پر آدھے مسلمان کے طور پر کرایا تھا۔ گئی گزری مسلمانی پہ احساسِ شرمندگی دیکھیے کہ کعبہ جانے کا ارادہ کیا تو اس جرات پر خود کو یہ طعنہ دیدیا۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

ہمارے منصف ہیں کہ سفرِ حرم کے وقت بھی ان کا عمل عاجزی سے عاری ہے۔ شاید اس لیے کی ایسا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ماسوائے اس کے جو تن کو رب کا حجرہ مانتا ہو اور اس میں کبھی کبھی جھانکتا بھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments