قاضی فائز عیسیٰ: جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا


قیام پاکستان کے بعد ابتدائی سالوں میں، عدلیہ نے قانونی روایات نبھائیں تاہم سیاسی عدم استحکام میں عدلیہ کا کردار سیاسی اتھل پتھل اور ایسی قانونی تشریحات سے عبارت ہوا جو پس پردہ دباؤ اور باہمی تال میل سے کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ تمیز الدین ( 1954 ء) کیس اہم موڑ تھا جب عدلیہ نے، مقتدرہ کے دباؤ پر پہلی آئین ساز اسمبلی کی برخاستگی درست قرار دی۔ ”نظریہ ضرورت“ فوجی بغاوتوں کی قانونی حیثیت اور سول حکومتوں پر فوجی حکمرانی کی توثیق کا بار، بار جواز بنا۔ ایوب خان، ضیاء الحق، اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں عدلیہ کا کردار زیادہ پیچیدہ ہو گیا، ہر بحران میں حکومتی اقدامات کی قانونی حیثیت کے لیے ”نظریہ ضرورت“ کے انجیکشن نے اس کی ساکھ پر سوالیہ نشانات لگا دیے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کا دور، جو 2000 ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب افتخار چوہدری نے انسانی حقوق، بدعنوانی اور مفاد عامہ سے متعلق مسائل پر ازخود نوٹسز سے عدلیہ کو سیاست میں الجھایا۔ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتیں مفاد عامہ کے نام پر انتظامی معاملات میں مداخلت کرتی نظر آئیں۔

حالیہ برسوں میں، عدالتی فیصلوں پر تنقید یا تعریف اس بنیاد پر ہوئی کہ وہ قانون کے بجائے عوامی جذبات سے کس حد تک مطابقت رکھتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور عدلیہ کے لیے فوائد اور چیلنجز دونوں سامنے لایا۔ ایک طرف، سوشل میڈیا نے شہریوں کو نا انصافیاں اجاگر کرنے اور اداروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے آواز فراہم کی تو دوسری طرف، یہ پروپیگنڈے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا، جس نے رائے عامہ سے عدالتی کارروائیوں خصوصاً ہائی پروفائل کیسز کو متاثر کرنے اور ججوں پر قانون کے بجائے مقبول جذبات کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ جس سے عدالتی آزادی کے تصور کو ٹھیس پہنچی۔ قاضی فائز کی ریٹائرمنٹ سے عدلیہ کی تاریخ کا اک عہد تمام ہوا۔ والد کی طرح وہ بھی برطانیہ کے قدیم ترین تعلیمی ادارے مڈل ٹیمپل کے بار ایٹ لاء ہیں جس نے 29 اکتوبر 2024 کو انہیں مدعو کر رکھا ہے۔ 2009 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج اور 17 ستمبر 2023 ء کو چیف جسٹس بنے۔ 1 سال، 1 ماہ اور 8 دن میں ایسے مقدمات نمٹائے جن کی سماعت کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے انصاف اور قانون کی حکمرانی کے لیے غیر معمولی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی یا سوشل میڈیا دباؤ میں آنے سے انکار کیا۔ بعض حلقوں میں غیر مقبول ہونے کے باوجود اس اصول پر ثابت قدم رہے کہ عدالتی فیصلے عوامی رائے کے بجائے آئین اور قانون کے مطابق ہونے چاہئیں۔ ان کے چند فیصلوں کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔

•انسداد دہشتگردی عدالت کوئٹہ میں زیرِ سماعت اکبر بگٹی قتل کیس کی اسلام آباد عدالت منتقلی کی مشرف کی درخواست مسترد کی۔ •ایک فیصلے میں کالعدم اور انتہا پسند تنظیموں کے بیانات نشر کرنے پر پابندی لگائی•کوئٹہ سانحہ کمیشن کی سربراہی میں ان کے فیصلے پر حکومت ناراض ہوئی۔ •پاکستان میں تلور کے شکار کے اجازت نامے منسوخ کیے۔ •چیف جسٹس بنتے ہی سب سے پہلے اس مقدمے کی سماعت کی جو قانون عدالتی اختیار سماعت اور بینچز کی تشکیل کے حوالے سے تھا۔ یہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ تھا۔ اس مقدمے میں 8 ججز کے بینچ نے چیف جسٹس بندیال کے دور میں اسٹے آرڈر جاری کیا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات اور پروسیجر ایکٹ کا قانون من و عن تسلیم کیا۔ چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار 3 رکنی ججز کمیٹی کو سونپ دیا۔ •سپریم کورٹ کے 17 ججز کی اکثریت فوجی عدالتوں کے حامی تھی لیکن جسٹس قاضی فائز نے اپنی رائے فوجی عدالتوں کے خلاف دی۔ •میمو کمیشن کے سربراہ بنے تو صدر زرداری کو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات سے بری کیا۔ •فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عمران حکومت نے ان کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا جسے 10 رکنی فل کورٹ نے کثرت رائے سے کالعدم قراردیا۔ •چیف جسٹس بنے تو 4 سال سے نہ ہونے والی فل کورٹ میٹنگ بلائی۔ • فیصلوں کی شفافیت کے لئے عوامی مفاد کے مقدمات کی براہ راست نشریات کا اہم فیصلہ کیا۔ •پرویز مشرف کی سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ نومبر 2007 ء میں آئین کی پامالی پر خصوصی عدالت سے 17 دسمبر 2019 ء کو مشرف کے لیے جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کی سربراہی میں 2 / 1 سے سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا۔ 13 جنوری 2020 ء کو لاہور ہائیکورٹ نے اس سزا کو کالعدم اور خصوصی عدالت کو بے بنیاد قرار دے دیا تھا۔ جس کے خلاف اپیل چار سال بعد 10 جنوری 2024 ء کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں لارجر بینچ نے مشرف کی پھانسی کی سزا بحال کی۔ • 24 برسوں سے زیر التواء بھٹو قتل ریفرنس کی آخری سماعت 2010 ء میں ہوئی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ میں 8 چیف جسٹس تبدیل ہوئے۔ اس کی سماعت بھی قاضی فائز نے کی اور 44 سال پہلے کی تاریخی غلطی کو درست کیا۔ • 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی اور ارکان پارلیمنٹ سے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے نام پر ووٹ کا حق چھیننے سے متعلق آئین، ری رائٹ کرنے کے فیصلے بھی کالعدم قرار دیے۔ • معطل شریعت اپیلٹ بینچ بحال کیا۔ 21 سال سے زیر التوا مقدمات اور خواتین کو وراثت میں حق دینے کے فیصلے دیے۔ • ڈیم فنڈ اور 190 ملین ڈالر کیس میں سپریم کورٹ اکاؤنٹ سے تقریباً 90 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کے فیصلے دیے۔ •مظاہر نقوی کے خلاف کرپشن الزامات پر جوڈیشل کونسل کے ذریعے تادیبی کارروائی کی۔ •شوکت عزیز صدیقی کے خلاف جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم، ان کی مراعات اور پینشن بحال کی۔

•پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف فیصلے کے بعد ان کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائی گئی۔ یہ تنقید اور ٹرولنگ ان کے درج ذیل ”جرائم“ کی وجہ سے ہے۔ •کچھ لوگ پاپولر فیصلوں کی عادی تھے۔ قاضی صاحب نے کسی پارٹی کی خواہش، یا اپنی ٹرولنگ کی فکر کیے بغیر قانون کے مطابق فیصلے دیے۔ • سپریم کورٹ کی سماعت لائیو کر کے گرو گھنٹال وکلاء اور قانونی ماہرین کو ایکسپوز کیا۔ • اپنی آمریت کے بجائے پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کو سپریم تسلیم کیا۔ •کسی کی ”ضد“ میں آئین کو دوبارہ لکھنے سے انکار کیا۔ •ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں ان کے فیصلے پر جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کا اعلان ہوا۔ •پہلے جج تھے جنہوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثے رضاکارانہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈالے۔ •حکومت سے پلاٹ لیا، نہ گاڑی اور کوئی پروٹوکول پیدل بھی سپریم کورٹ آتے رہے۔ •زیارت میں اپنی آبائی زمین قائد ریزیڈینسی اور بلوچستان حکومت کو عطیہ کی۔ •آئین کی سبز کتاب ہمیشہ ساتھ رکھی، دیگر ممالک کے حوالے دینے والوں سے کہا کہ اپنے آئین کا حوالہ دیا کریں۔

اس تناظر میں قاضی فائز کا دور آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے یادگار رہے گا۔ انہوں نے جذباتیت کے بجائے شواہد اور قانونی نظیروں پر انصاف دیا۔ جسٹس قاضی کو جسٹس منیر سے تشبیہ دینا افسوسناک ہے۔ جسٹس منیر نے پاکستان میں آمریت کا بیج بویا جو آگے چل کر تناور درخت بنا۔ جسٹس قاضی نے آئین، قانون، پارلیمنٹ اور جمہوریت کا ہمیشہ دفاع کیا۔ پی ٹی آئی نے لندن میں احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ ”پاپولر“ لوگوں کی معیشت نفرت کی کھیتی سے وابستہ ہے جو ان کے لیے ڈالر اگاتی اور وہ اس سے راتب حاصل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عداوت محض اس لیے ہے کہ فائز عیسیٰ نے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا ڈنکا بجایا۔

آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments