پختونخوا ملی عوامی پارٹی پر غیر سیاسی الزام
کسی بھی سیاسی پارٹی، ادارے یا تنظیم وغیرہ کا ایک بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ یہ اپنے پروگرام اور پالیسی رکھتا ہے۔ یہی بنیادی پالیسی اس کا بیانیہ ہوتا ہے۔ جو بہت سوچ بچار اور زمان و مکان کے مطابق مرتب کیا جاتا ہے۔ اسی بیانیہ کی بنیاد پر ہی کسی سیاسی پارٹی کے منشور کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اس طرح کسی پارٹی کا منشور ہی اس کا بیانیہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی پارٹی اپنے منشور کے مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے منظم، اجتماعی اور جمہوری جدوجہد کرتی ہے۔ جس کے لیے وہ اپنا آئین بھی مرتب کرتی ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن رہتی ہے۔
منشور (بیانیہ) وہ بنیادی دستاویز ہوتی ہے۔ جو پارٹی کے بنیادی اغراض و مقاصد اور پروگرام بتاتی ہے۔ تجاویز، منصوبے اور طریقہ کار طے کرتے ہوئے منصوبوں کو عملی شکل دینے کا طریقہ طے کرتی ہے۔ اور یہی پارٹی اور اس کے رہنماؤں کا مجوزہ پروگرام ہوتا ہے۔ جو کسی طور جامد نہیں ہوتی اور ارتقائی عمل کا انجذابی خصلت رکھتی ہے۔ نئے حالات، ضروریات، مقاصد اور اقدار کو مدنظر رکھتی ہے۔ جدید حالات کو اپناتا ہے اور نئے مواقع سے مستفید ہونے کی خصوصیت رکھتی ہے۔ مسلسل تجربے، مشاہدے، علم اور اصلاحی عمل سے بہت کچھ سیکھ کر سمیٹ لیتی ہے۔ ایسا سب کچھ کرتے ہوئے اپنے بنیادی پروگرام کے چوکھٹ سے باہر نہیں جاتی۔
دنیا بھر کے ممالک اپنا نظام کو چلانے کے لیے، اس کے بنیادی خط و خال اور مخصوص پالیسی پر استوار آْئین رکھتے ہیں۔ جو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک مشترکہ اور قابل قبول طریقہ کار وضع کرتا ہے۔ آئین اور منشور کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ساتھ ہی قانون ساز اداروں کے ساتھ آئینی عدالتیں بھی ہوتی ہیں۔ آئین میں پارلیمان کے ذریعے مقررہ طریقہ کار کے مطابق نئے قوانین بھی بنائے جاتے ہیں۔ پرانے اور غیر ضروری اور غیر موثر قوانین کو ختم بھی کرتے اور نئے نئے قوانین بناتے بھی ہیں اور موجود قوانین میں ضرورت کے مطابق ترامیم بھی کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ آئین کے بنیادی خیال اور نکتہ نظر کے مطابق کیا جاتا ہے۔ پھر بھی دانستہ یا غیر دانستہ اگر کوئی قانون اس بنیادی پروگرام سے متصادم ہو۔ تو اعلیٰ عدالتیں اس کا تجزیہ کرتی ہیں اور بنیادی کسوٹی پر تول کر تنسیخ، ترمیم وغیرہ کرتی ہے۔ اسی طرح عدلیہ بھی قانون سازی کرتی رہتی ہے۔
منشور اور آئین دونوں کوئی جامد شے نہیں ہے اور نہ ہی یہ مقدس کتابوں اور صحیفوں کی طرح غیر متبدل ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ حالات اور ضروریات کے مطابق جدید تقاضوں سے ہم آہنگی کے لیے متبدل ہوتے ہیں۔ بس شرط یہی ہوتی ہے کہ بنیادی پروگرام سے ہٹ کے نہ ہوں۔
سیاسی پارٹی بھی اپنے بیانیہ (منشور) کو عملی کرنے کے لیے اور جمہوری انداز سے اپنے مقاصد کے لیے حصول کے لیے ایک طریقہ کار کے ذریعے منظم جد و جہد کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے آئین بنائے رکھتی ہے۔ کوئی بھی پارٹی اپنے بیانیہ اور آئین میں کسی بھی قسم کا اضافہ، تنسیخ و ترمیم آئینی طریقہ کار کے مطابق کرتا ہے۔ اور جب بھی ایسی کوئی تنسیخ، اضافہ یا ترمیم خواہ منشور میں ہو کہ آئین میں آئینی طریقہ کار کے مطابق جمہوری عمل کے ذریعے کی جاتی ہے وہ جائز، قانونی اور سب کو قابل قبول ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اتفاق رائے یا کثرت رائے سے ایسا ہوتا ہے تو یہ ہرگز پارٹی کے بنیادی نکتہ نظر اور بیانیہ کے خلاف ہو ہی نہیں سکتا۔
الزام سے لگایا جا رہا ہے۔ کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے اپنا بیانیہ تبدیل کر دیا ہے۔ اس الزام کے پیچھے حالات، واقعات اور نیت جو بھی ہو۔ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی جدوجہد کی تاریخ تحریک آزادی کے زمانے سے جاری ہے۔ اس وقت ہی سے پختون قوم پرستوں ایک بہت بڑی تعداد اس کے سیاسی نظریہ اور بیانیہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جو اس کا پورا پورا ادراک رکھتا ہے اور اس کے لیے بے مثال قربانیاں بشمول شہادتیں دے کر پارٹی کا جھنڈا بلند رکھا ہوا ہے۔ پارٹی جنوبی پختونخوا (پختون بلٹ) بلوچستان صوبائی اسمبلی کا حصہ بھی رہی ہے اور حکومتی شراکت دار بھی۔ ساتھ ہی ساتھ اس کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی پختونوں کی نمائندگی اور خدمت کے مواقع ملتے رہے ہیں۔
ستمبر 21، سال 2024، کو پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے کے اہم اور طاقتور، مرکزی جرگہ (کونسل) کا اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک بھر سے 2400 مندوبین نے شرکت کی۔ جس نے پارٹی آئین میں بہت ہی معمولی سی ترامیم اتفاق رائے سے منظور کر لیں۔ ان ترامیم کے مطابق صرف ضلعوں اور نچلے اداروں کے عہدوں کے نام تبدیل کیے گئے۔ جیسے پہلے ضلعی سیکریٹری اور ضلعی سینئر معاون سیکریٹری ہوا کرتا تھا۔ اب ضلعی صدر اور ضلعی جنرل سیکٹری ہوں گے اور نچلے اداروں میں بھی۔
ساتھ ہی مرکز سے لے کر نچلے ادارے تک تنظیمی ترامیم کی گئی۔ اب کابینہ صرف آئینی عہدوں پر مشتمل ہو گا۔ جبکہ ایگزیکٹیو کا ادارہ ختم کیا گیا اور ایگزیکٹیو کے تمام ممبران متعلقہ ادارے کے کمیٹی کے ممبران ہوں گے۔ یہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہے۔ جبکہ منشور یا بیانہ میں نہ تو کوئی ترمیم کی گئی نہ ہی اس کی نسبت کوئی سوال اٹھایا گیا۔ حالانکہ ایسی کوئی ترمیم اس با اختیار فورم پر جمہوری اور آئینی کے مطابق کر بھی دیا جاتا تو کوئی معیوب بات نہ تھی۔
اس کے باوجود پختونخوا ملی عوامی پارٹی پر بیانیہ کی تبدیلی کا جو الزام ہے، ایسا الزام ہی سرے سے غیر سیاسی اور مضحکہ خیز ہے۔
- پختونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی جرگے اور حکومتی ذمہ داری - 09/06/2025
- آئیں ایک تجربہ کر لیں - 30/03/2025
- کیا پختون من حیث القوم مجرم ہیں؟ - 08/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).