افسانہ بدبخت: ننگر چنہ


اس کے معصوم چہرے پر مسکراہٹوں کے میلے کا منظر تھا اور وہ خوشی سے پھولے نہ سماتی تھی ہاتھ پاؤں مہندی میں سرخ دیکھ کر بہت ہی خوش ہو رہی تھی۔ اڑوس پڑوس کی جوان اور بوڑھی عورتیں اس کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ سرخ رنگ کے نئے کپڑے پہن کر اس کے گال بھی خوشی کے مارے لال ہو گئے تھے۔ آج سے قبل سردی ہوتی کہ گرمی، وہ پرانے اور اترن کے کپڑے پہن کر پھرتی رہتی اور ان پھٹے پرانے کپڑوں میں اس کا بدن چھپائے نہ چھپتا۔ موسم سرما ہو کہ گرما، اس کے پاؤں میں جوتی تک نہ ہوتی اور اب جبکہ اس کو دو عدد نئے سینڈل ملے تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔

پڑوسنیں اس پر فدا ہو رہی تھیں، ورنہ وہی عورتیں اس سے پہلے اسے بدبخت کے نام سے پکارتی اور نفرت کی نظر سے دیکھا کرتی تھیں۔ اب تمام کی تمام اسے ماں بہن کی طرح دلار کر رہی تھیں۔ وہ عورتوں کی محبت اور شفقت دیکھ کر زمانے کی تمام تر تلخیاں، سارے دکھ بھلا بیٹھی۔ وہ تو ماں کے قتل اور باپ کے پھڑک پھڑک کر مرنے کو بھی فراموش کر چکی تھی۔ اس کے ساتھ پیش آ چکے حوادث کلائیوں میں بھری رنگین چوڑیوں کی رعنائی میں گم ہو گئے، ورنہ اس سے پہلے تو ہر وقت، ہر پل اس کے ذہن پر خوف کا بوجھ لدا ہوتا، خوشیاں روٹھی رہتیں اور آنکھیں بھی بجھی بجھی ہوتی تھیں۔

وہ پانچ برس کی تھی کہ اس کے باپ نے اس کی ماں پر سیاہ کاری کا جھوٹا الزام لگا کر کلہاڑی سے قتل کر دیا تھا۔ وہ کلہاڑی کے وار سے اپنی ماں کی دولخت ہو چکی کھوپڑی دیکھ کر بہت چلائی اور ماں کے لہولہان بدن سے لپٹ گئی تھی اور جب ماں کو مٹی کے حوالے کیا گیا، تب لوگ مقتولہ کو سیاہ کار کہہ رہے تھے۔ یہ بات آج تک اس کی سمجھ میں نہ آئی کہ لوگ آخر کیوں اس کی ماں کو کاری (کاری کے سندھی میں لغوی معنی سیاہ رنگ کے ہیں، اصطلاحاً سیاہ کار کے ) کہہ رہے تھے۔ جب کہ اس کا رنگ تو دودھ جیسا سفید تھا۔

اس نے ماں کے گزر جانے کے بعد سینکڑوں دکھ جھیلے، چھوٹی عمر میں ہی باپ کا تشدد برداشت کرتی رہی۔ باپ اسے بدبخت کہنے لگا تو وہ پورے گاؤں کے لیے بدبخت ہو گئی۔ چھوٹے ہوں کہ بڑے، سب اسے بدبخت کے نام سے پکارنے لگے۔ اس کا اصل نام کبھی کسی نے بھول کر نہیں لیا۔ ماں کے قتل کے بعد اس کے باپ کو ایک پراسرار مرض نے جکڑ لیا۔ بیماری کے علاج کے لیے اس کے باپ نے اول تو اپنی دو بیگھے زمین بیچی، پھر بھی افاقہ نہ ہوا تو ڈھور ڈنگر بیچ دیے، لیکن صحت نصیب نہ ہوئی اور آخر میں پچاس ہزار کے بدلے اسے بھی گائے بکری کی طرح ملا آچر کے ہاتھ بیچ دیا۔ باوجود اس کے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، اور اس کا باپ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔ وہ لاوارث ہو گئی۔ ماں نہ باپ، بہن نہ بھائی۔ ملا آچر اسے اپنے گھر لے آیا، تب وہ صرف آٹھ برس کی تھی اور اب وہ گیارہ برسوں کی بھی نہ ہوئی تھی کہ ملا آچر اس سے بیاہ کر رہا تھا۔

سورج پہاڑوں کے عقب میں چھپ گیا تو اس نے اپنے بدن کو تھکن کے جال میں جکڑا ہوا محسوس کیا وہ بیٹھ بیٹھ کر اکڑ چکی تھی۔ اس نے سونے کی کوشش کی تو قریب بیٹھی ہوئی عورتوں نے سونے نہ دیا۔ اس کے چہرے پر عجیب و غریب تاثر ابھرا، لیکن کچھ کہہ نہ سکی۔ گھر میں شادی کے گیتوں سے ایک ہنگامہ بپا تھا۔ باراتی بھی وہی تھے۔ سسرالی بھی وہی۔ آسمان پر جیسے جیسے اندھیرا گہرا ہوتا گیا، ویسے ویسے اس کا دل الجھنوں کا شکار ہوتا گیا۔ اڑوس پڑوس کی بڑی بوڑھیاں اس کے کانوں میں کھسر پھسر کرنے لگیں، کچھ نیا نیا سمجھانے لگیں، لیکن اس نے سنی ان سنی کردی۔ اب اسے زوروں کی نیند آ رہی تھی، آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ باہر رسم نکاح شروع ہوئی۔ تین مرد اندر آئے، جنہوں نے نکاح کے متعلق رضامندی پوچھی تو اس نے عورتوں کے کہنے پر قبولیت کا اقرار کر لیا۔ تینوں مرد باہر چلے گئے تو اس نے سوچا کہ اب یہ ہنگامہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اسے بڑی سخت نیند آ رہی تھی۔ اس نے پھر سونے کی کوشش کی لیکن پڑوسنوں نے اسے بیدار کیے رکھا۔

خاصی دیر کے بعد ملا آچر کمرے میں داخل ہوا۔ ملا آچر اور اس کے درمیان کچھ رسموں کی ادائیگی کے بعد تمام عورتیں کمرے سے باہر چلی گئیں۔ کمرہ بند ہو چکا تھا ملا آچر اس کے باپ کی عمر کا تھا چھوٹا قد، لمبی داڑھی اور آواز میں لکنت۔ وہ پہلے بھی ایک شادی کر چکا تھا، لیکن عرصہ ہوا وہ عورت مر چکی تھی

ملا آچر اس کی چارپائی پر دراز ہو گیا۔ وہ بھی اپنے اوپر رلی تان کر لیٹ گئی۔ جلد ہی اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ نیند کی ندیا میں تیرنے ہی لگی تھی کہ اچانک نیند سے چونک کر بیدار ہو گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ ملا آچر کے ہونٹ اس کے معصوم گالوں کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہے ہیں اور انگلیاں پیٹ پر تھرک رہی ہیں۔ وہ ڈر گئی، خوفزدہ ہو گئی۔ اب ملا آچر کے ہونٹوں کو اپنے پیٹ پر محسوس کرنے لگی۔ اسے گھن آنے لگا لیکن کچھ کہہ نہ سکی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ اب کیا ہو رہا ہے اور نہ ہی کچھ سوجھ رہا تھا کہ کیا کیا جائے؟

اس کا دل ان جانے خوف کے مارے بلیوں اچھلنے لگا۔ اس نے آنکھیں کھول کر ملا آچر کی طرف دیکھا۔ وہ ایک مہیب شیطانی مسکراہٹ لیے اسے تسلیاں دینے لگا، زیرو بلب کی روشنی میں ملا آچر کا وجود مزید دہشتناک ہو گیا تھا۔ اچانک ملا آچر کا ہاتھ اس کے ناڑے تک پہنچا اور وہ غصے کے مارے لال بھبوکا ہو گئی۔ اس نے اپنی پوری قوت سمیٹ کر ملا آچر کو دھکا دیا۔ وہ دور جا کر گرا تو اس نے چارپائی سے اتر کر کمرے سے باہر جانے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنی سعی میں کامیاب ہو نہ سکی، کیونکہ ملا آچر کے ہاتھ اس کی شلوار میں پڑ چکے تھے۔ اس کے دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی کہ سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگا اور خوف اس کی نس نس میں خون بن کر دوڑنے لگا۔ وہ کوے کی چونچ میں پھنسی مینڈکی کی طرح پنڈا چھڑانے کی تگ و دو کرنے لگی۔ ملا آچر نے جلدی جلدی جیب سے سو سو کے پانچ نوٹ نکال کر اسے تھما دیے۔ اس کا بچپنہ سو سو کے نئے نوٹوں سے ٹھگ لیا گیا اور وہ چپ ہو گئی۔

وہ جس نے اپنی پوری عمر میں پانچ روپے کا نوٹ بھی نہ دیکھا تھا، اسے سو سو کے پانچ کرارے نوٹ ملے تو اس کے من میں مسرت کی ایک زبردست لہر دوڑ گئی۔ ملا آچر کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ لوٹ آئی۔

”دیکھ“ ملا آچر کے ہونٹ اس کے کان کے قریب پھسپھسا نے لگے ”میں تمہارا شوہر ہوں، میں نے پچاس ہزار دے کر تمہارے ساتھ بیاہ کیا ہے۔ اب تم میری بیوی ہو۔ دیکھو جب تمہارا باپ مر گیا تھا اور دنیا میں تمہارا کوئی نہیں تھا، اس وقت میں نے تجھے رہنے کو گھر دیا، روٹی دی اور زندگی دی۔“ ملا آچر اسے آہستہ آہستہ رام کرنے لگا۔

”چلو ٹھیک ہے۔ خاموشی سے سو جاؤ“ اس نے ملا آچر کو کہا ”جیسے ایک گڈا ایک گڑیا کے ساتھ سویا کرتا ہے“ اس کے معصوم سے ذہن میں شادی ایک کھیل کے مانند تھی، گڈے اور گڑیا کا کھیل، جس میں وہ میاں بیوی بنتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ سو جاتے ہیں اور پھر کھیل ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے چھوٹے سے ذہن میں یہ بات آئی کہ جوں ہی رات ختم ہوگی توں ہی یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ یہی اطمینان ہونے کے بعد وہ آرام سے سو گئی اور نیند کے بازؤوں میں قید ہوتے ہی خوابوں کے جھولے میں ہلکورے کھانے لگی۔ نیند میں کیا دیکھتی ہے کہ وہ ماں بن گئی ہے اور اس نے ایک بہت ہی خوبصورت بیٹے کو جنم دیا ہے، جسے دودھ پلا رہی ہے۔ اچانک اس کا بیٹا خون کی الٹیاں کرنے لگتا ہے۔ وہ پریشان ہو جاتی ہے اور چلانے اور بین کرنے لگتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے کپڑے لہو میں لت پت ہو گئے۔ وہ اب بلند آواز چیخنے لگتی ہے اور اس کا بیٹا خون کی قے کرتا مر جاتا ہے۔ وہ ننھی سی لاش کو اٹھا کر گھر سے نکل آتی ہے اور دیکھتی ہے کہ اس کے گھر کے باہر لاتعداد نابالغ لڑکیاں اپنی اپنی گود میں لاشیں لیے کھڑی ہیں۔

وہ ایک دم ہڑبڑا کر نیند سے اٹھ گئی۔ آنکھیں کھلنے پر اسے لگا کہ تمام دنیا کا اندھیرا اس کے کمرے میں در آیا ہے۔ گہرے اور دم گھٹنے والے اندھیرے کا احساس ابھی ختم ہی نہ ہوا تھا کہ اس پر دوسرا خوفناک انکشاف ہوا کہ وہ عریاں ہے اور اس کی شلوار۔ ملا آچر جونک کی طرح اسے چمٹا ہوا تھا۔ وہ صرف ملا آچر کا چہرہ دیکھ سکتی تھی، اور وہ دانت نکال کر بھرے انداز میں مسکرا رہا تھا۔ اسے لگا کہ ملا آچر کے دانت حد سے زیادہ بڑے ہو چکے ہیں۔

اسے لگا کہ ملا آچر کے دانت آہستہ آہستہ اس کے گوشت میں اتر جا رہے ہیں اور اس کا گوشت ادھڑ رہا ہے۔ وہ درد کی شدت کے مارے تڑپنے اور سسکنے لگی اور اس کے آگے گڑگڑا نے لگی۔ اس کی آنکھوں سے قطار در قطار آنسو بہنے لگے۔ اس نے جال میں پھنسی مچھلی کی طرح اپنے آپ کو چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن کسی بھی صورت کامیاب نہ ہو سکی۔ ملا آچر کے نوکیلے اور لمبے دانت اس کے بدن میں اترتے چلے گئے۔ اس نے سمجھ میں نہ آنے والے لیکن شدید درد سے مجبور ہو کر ایک تھپڑ ملا آچر کے منہ پر جڑ دیا۔ لیکن وہ تھا کہ اس کے بدن کے ساتھ جونک کی طرح چمٹا ہی رہا۔ اس کا سر چکرانے لگا اور اندھیرے میں روشنی کی کرنیں اڑتی نظر آنے لگیں۔ آسمان گرتا ہوا اور زمین تھرتھراتے محسوس کرنے لگی۔ جب تکلیف برداشت سے باہر ہو گئی تو اس نے چلانے کی کوشش کی، لیکن ملا آچر نے فوراً اپنی ہتھیلی اس کے منہ پہ جمادی۔ اس کی چیخ گھٹ کر رہ گئی۔

”خاموش بدبخت!“ ملا آچر نے بائیں ہاتھ کا زوردار تھپڑ مارا۔ اس کی ناک سے خون بہنے لگا۔ بدن کا نچلا حصہ پہلے ہی خون میں نہا چکا تھا۔ منہ بند ہونے اور اذیت کے بڑھ جانے کے باعث اس کی آنکھوں کے دیدے باہر نکل آئے۔ منہ پر ہاتھ جما ہونے کے باعث اس کا دم گھٹنے لگا۔ اس نے ایک بار پھر چیخنا چاہا، لیکن روح کی گہرائیوں سے نکلی چیخ اس کے حلق میں پھڑپھڑا کر رہ گئی اور دوسرے لمحے وہ بالکل ساکت ہو گئی۔ اس کی آنکھیں اندھیرے کی سمت کہیں گڑ کر پتھرا گئی تھیں۔

ملا آچر کے دانت پھر بھی اس کے بے جان گوشت کو ادھیڑ تے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments