دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے جتنا شکار خود اپنے ہاتھوں اپنے ہی ہم جنسوں کا کیا ہے، اتنا کسی دوسری مخلوق نے نہیں کیا۔ چاہے جنگیں ہوں، سیاست ہو، محبت یا دھوکہ، ہر میدان میں انسان نے انسان کو نقصان پہنچانے، دھوکہ دینے اور مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ حیران کن بات ہے کہ انسان، جو سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور شعور رکھنے والی مخلوق ہے، اپنی ہی نسل کے لیے نقصان دہ بن گیا ہے۔ اس کے رویے میں دو رنگی اور تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ خود اپنی شناخت کو بھی مٹانے کے قریب ہے، اور اس کی شخصیت ایک ایسی پہیلی بن چکی ہے جسے حل کرنا شاید ممکن نہیں رہا۔

انسانی تاریخ میں ایسی ان گنت جنگیں ہوئیں جنہوں نے لاکھوں زندگیاں تباہ کر دیں، بے شمار خاندان برباد کر دیے اور انسانی معاشرت میں بد اعتمادی اور خوف کا بیج بو دیا۔ یہ جنگیں کسی اور مخلوق کی وجہ سے نہیں، بلکہ انسان کی خودغرضی، سیاسی عزائم، اور طاقت کی بھوک کا نتیجہ تھیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم جیسے واقعات نے یہ ثابت کیا کہ انسان نے اپنی طاقت کے لالچ میں خود کو اور دوسروں کو کس حد تک نقصان پہنچایا۔ اس کے باوجود، اس کا لالچ اور خونریزی کی پیاس آج بھی برقرار ہے اور وہ اسی تباہی کے راستے پر چلتا آ رہا ہے۔

رشتے انسان کی زندگی کا ایک قیمتی اور حساس پہلو ہیں، لیکن یہاں بھی انسان نے دوغلے رویے اور خود غرضی کو اپنا لیا ہے۔ چاہے وہ بھائی ہوں، دوست ہوں یا شریک حیات، ان رشتوں میں اب مخلصی اور بھروسے کی جگہ دھوکہ اور منافقت نے لے لی ہے۔ یہ بات اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ لوگ جو قریبی رشتوں میں ہوتے ہیں، وہی انسان کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں۔ انسانی رویوں میں یہ تضاد اور دو رنگی نہ صرف رشتوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو شک اور بد اعتمادی کا شکار بنا دیتے ہیں۔ جب کوئی اپنے قریب ترین لوگوں سے ہی دھوکہ کھائے تو اس کی زندگی میں اعتماد اور محبت کی اہمیت کم ہو جاتی ہے، اور وہ تنہائی اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

محبت انسان کی دل کی سب سے خالص اور پاکیزہ کیفیت مانی جاتی ہے، لیکن یہاں بھی انسان نے انسان کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ محبت کے نام پر دھوکہ، جھوٹ، اور فریب ایک عام سی بات ہو چکی ہے۔ لوگ محبت کی آڑ میں دوسروں کو استعمال کرتے ہیں، اور جب ان کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح کا دھوکہ نہ صرف انفرادی طور پر دل توڑتا ہے بلکہ معاشرے میں اعتماد اور محبت کے جذبات کو بھی مجروح کر دیتا ہے۔ آج کے دور میں محبت میں وفا اور اخلاص ایک نایاب چیز بن چکی ہے، اور اکثر لوگ محبت کو محض فائدے کے سودے کی طرح دیکھتے ہیں۔

دوست زندگی کا اہم حصہ ہوتے ہیں، مگر آج کے دور میں اکثر ایسے دوست دیکھنے کو ملتے ہیں جو دوست بن کر پیٹھ پیچھے دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر تو مددگار نظر آتے ہیں مگر اصل میں مشکل وقت میں ساتھ چھوڑنے یا فائدہ اٹھانے کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کے اس دوغلے رویے سے انسان کا دل ٹوٹتا ہے اور وہ شکوک اور بد اعتمادی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب دوست ہی دشمن کا روپ اختیار کر لیں تو یہ تعلقات کا دائرہ بہت محدود اور تنہائی سے بھرا ہو جاتا ہے۔

زندگی میں کئی لوگ مسافر کے بھیس میں آ کر اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی باتوں اور وعدوں سے دل موہ لیتے ہیں، اور جب ان پر اعتماد کیا جاتا ہے تو وہ دھوکہ دینے میں دیر نہیں کرتے۔ یہ لوگ دوسروں کی کمزوریوں کو سمجھ کر ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں، اور جب ان کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو وہ انسان کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ انسان کو نہ صرف جذباتی بلکہ مالی نقصان پہنچانے سے بھی نہیں چوکتے۔

اکثر لوگ سچائی اور ایمانداری کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن جب اصل امتحان آتا ہے تو وہ اپنے ہی اصولوں سے دور نظر آتے ہیں۔ جو لوگ ایمانداری اور سچائی پر فخر کرتے ہیں، وہ اکثر اپنے مفاد کے لیے اصولوں سے سمجھوتا کر لیتے ہیں۔ یہ کھوکھلی قسمیں اور اصول لوگوں کو خود سے ہی دور کر دیتے ہیں۔ درحقیقت، جو لوگ اپنے عمل سے سچائی اور ایمانداری کو ثابت کرتے ہیں وہی اصل انسان کہلاتے ہیں، ورنہ صرف باتیں کرنا آسان ہے۔

انسان کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ ترقی اور خوشحالی چاہتا ہے، مگر اس کے اندر انسانی ہمدردی اور اخلاص کی کمی ہے۔ وہ چاہے تو دوست، دشمن، عاشق یا مسافر بن کر سب کچھ بن جائے، لیکن اپنے اصل روپ یعنی ایک سچے انسان کے طور پر رہنا اس کے لیے سب سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ آج کے دور میں انسان کو اپنی فطرت پر غور کرنے اور اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک انسان اپنے اندر کی انسانیت کو زندہ نہیں کرتا اور دوسروں کے ساتھ خلوص اور ایمانداری کا برتاؤ نہیں کرتا، تب تک دنیا میں امن اور ہم آہنگی ممکن نہیں۔

انسان کی زندگی میں سکون اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب وہ اپنے اندر کی انسانیت کو زندہ کرے اور دنیا کے ہر تعلق کو خلوص اور ایمانداری سے نبھائے۔ جب انسان یہ سمجھ لے گا کہ دوسروں کا احترام اور ان کے ساتھ مخلص رویہ ہی اصل زندگی ہے، تب وہ اپنی زندگی کے اصل مقصد کو پا سکے گا۔ یہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو جانچنے اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرے تاکہ وہ ایک حقیقی انسان بن کر دوسروں کے لیے سکون اور امن کا ذریعہ بن سکے۔