کیا خوشی ایک سراب ہے؟


 

پچھلے دنوں میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ کراچی میں ایک پروگرام بنام ”داستان گوئی اینڈ ریڈنگ فرام کافکا ٹیکسٹس“ میں شریک ہوا، جس میں سعادت حسن منٹو اور کافکا کی تصنیف کردہ کہانیاں پیش کی گئیں۔ کافکا اور منٹو کی تصاویر کو ایک ہی اسٹیج پر دیکھ کر دل میں خیال آتا ہے کہ ان دو شخصیات کو ایک ہی نشست میں جوڑنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ حالانکہ دونوں مختلف ثقافتوں، زبانوں، اور دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ان دونوں کے خیالات اور نظریات کا مطالعہ کریں گے تو بآسانی سمجھ پائیں گے کہ ان دونوں کی کہانیوں میں وہی تلخ سچائی، انسانی تکالیف، اور زندگی بطور المیہ دکھائی دیتی ہے۔

کافکا کی تحریروں میں انسان نہایت بے بس اور روایات کی زنجیروں میں قید نظر آتا ہے، اور زندگی ایک حادثہ لگتی ہے جس میں نہ مقصد ہے اور نہ ترتیب۔ ثقافتی روایات اور معاشرتی زنجیروں میں قید انسان ایک عجیب سی خوف اور مایوسی کا شکار نظر آتا ہے اور شاید یہی دو نمایاں انسانی روحانی بیماریاں ہیں۔

سعادت حسن منٹو ایک حقیقت پسند مصنف تھے جس نے اپنے وقت کے انسانی مسائل اور برصغیری سماج کے منافق چہرے سے پردہ ہٹایا۔

دونوں شخصیات کے خیالات کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انسان بلا تفریق رنگ و نسل، ثقافت، زبان اور دور کے، زندہ رہنے کی تکلیف کا تجربہ یکساں کرتا ہے۔ اور اس کے وجود پر زندگی کی بے معنویت اور بے مقصدیت کے آثار یکساں نظر آتے ہیں۔ گہرائی میں جا کر اندازہ ہوتا ہے کہ انسان نہایت کمزور، زمان و مکان کی قید میں بند، اور جذبات سے مغلوب مخلوق ہے۔

Franz Kafka

ہر حساس شخص اپنی زندگی میں کہیں نہ کہیں جا کر ایک وجودی بحران کا شکار ہو جاتا ہے جس میں وہ بے چین و بے اطمینان رہنے لگتا ہے اور اس کا وجود ہر لمحہ اسے زندگی کے اصل مقصد کھوجنے کی طرف متوجہ کرتا ہے اور یہ وجودی بحران ایک درد کی صورت انسان کے اندر موجود رہتا ہے اور خاموش ترین لمحات میں اسے سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے، اس کا کیا مقصد ہے؟ زندگی میں مقصد کی تلاش درحقیقت خوشی اور اطمینان کی تلاش ہے۔

خوشی جس کا تصور صدیوں سے انسان کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ دنیا کے بڑے فلسفی، مصنف، فنکار، اور سائنسدان ہمیشہ سے زندگی کے معنی اور خوشی کے تصور میں الجھے رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں، جہاں ہر طرف کامیابی اور خوشی کے حصول کی ترغیب دی جاتی ہو وہاں انفرادی طور پر بڑھتی عمر کے ساتھ خوشی کی گمشدگی کا احساس ہونا ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔ جب ہم آئن سٹائن، لیونارڈو ڈاؤنچی، شیکسپیئر، پکاسو، غالب، کافکا، ٹالسٹائی، منٹو، اور ڈارون جیسے لوگوں کی زندگیوں اور تخلیقات کو دیکھتے ہیں، تو ہم ایک گہری حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔ ان کے کام میں خوشی کا ذکر کہیں گم ملتا ہے، اور اس کی جگہ زندگی کے درد، پچھتاوے، اور اجنبیت کے پہلو نظر آتے ہیں۔

آئن سٹائن اپنی ذاتی زندگی میں کبھی سکون نہ پا سکا۔ اس کی پہلی بیوی سے علیحدگی، اولاد سے دوری، اور دنیا سے بے گانگی نے اسے ہمیشہ اداس رکھا۔ وہ فزکس میں کامیابیوں کے باوجود، اندرونی کشمکش کا شکار رہا۔ اس کے خطوط میں ایک ایسی شخصیت جھلکتی ہے جو اکثر اپنی زندگی اور اردگرد کی دنیا سے ناخوش تھی۔

Albert-Einstein-and-wife

پکاسو کی دلکش پینٹنگز پر در حقیقت غم کے رنگ چڑھے ہیں، جو غربت، تنہائی، اور مایوسی کی کہانیاں سناتی ہیں۔ پکاسو اپنی نجی زندگی میں بے چینی کا شکار رہا۔ زندگی کی بدنظمی اس کے فن کا محور بنی رہی۔

لیونارڈو ڈاؤنچی، جن کی تخلیقات کا میں بذات خود پیرس اور میلان کے دو مختلف میوزیم میں مشاہدہ کر چکا ہوں، بھی شاہکار تخلیقات کے باوجود وجودی خوف میں مبتلا تھا۔ ان کی تخلیقات میں زندگی کی ناپائیداری اور موت کی حقیقتیں بار بار سامنے آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خوشی ان کے لیے ایک خواب رہی ہے۔

مرزا غالب کی زندگی میں خوشی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ان کی شاعری بھی اسی کرب کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں تلخ تجربات، مایوسیاں، اور زندگی کی ناپائیداری نمایاں ہے۔

اگر یہ عظیم شخصیات جو اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ مقام پر فائز تھیں۔ زندگی میں درد اور المیے کے سوا کچھ نہ پا سکیں، تو پھر خوشی کے بارے میں ہمارے خیالات کہاں کھڑے ہیں؟ جدید دور میں، جہاں خوشی کو ایک حاصل کیے جانے والے مقصد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، کیا یہ محض ایک سراب ہے؟ آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں خوشی کو کامیابی، دولت، اور مادیت سے جوڑ دیا گیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود، ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بے چینی، تنہائی، اور اجنبیت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔

انسان کے اگرچہ اجتماعی طور پر تکالیف اور مصائب دور قدیم اور جدید میں الگ ہیں، لیکن انفرادی طور پر آج کے انسان کے گزرے ہوئے زمانے کے کسی بھی دور کے انسان کے انفرادی دکھ درد اور تکلیف میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ زمانہ قدیم اور جدید میں انسان کی زندگی انفرادی طور پر، روحانی بحران، بے اطمینانی، بے مقصدیت، بے چینی، پیاروں کے مرنے کا غم، انسانی وجود کی گہرائیوں میں یکساں پیوست ہیں، اور ان کا اثر ہر ایک انسان پر مختلف ثقافتوں، مذاہب، رنگ و نسل، اور جغرافیہ کی حدود کے بغیر مرتب ہوتا آ رہا ہے۔ میں بذات خود سائنس کے مقابلے میں کسی دوسرے ذریعہ علم کو کبھی ترجیح نہیں دیتا ہوں اور زندگی کے کسی بھی پہلو کو سب سے پہلے سائنسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر ہم خاص سائنسی نقطہ نظر سے بات کریں کہ انسان فطرتاً کیوں بے سکون، بے اطمینان، خوف، افسوس اور دکھ جیسے جذبات کا شکار ہوتا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ یہ انسانی زندگی کے مستقل پہلو ہیں اور خوشی کوئی خارجی جذبہ ہے جو عارضی طور پر آ کے چلی جاتی ہے۔

Pablo Picasso

اگر ہم سائنسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو انسانی دماغ اصل میں خطرات اور چیلنجز کو حل کرنے کے لئے ارتقا پذیر ہوا ہے۔ لاکھوں سالوں سے اپنی بقا کے لئے ہمارے آبا و اجداد کی زیادہ تر توجہ ممکنہ خطرات اور غم پر مرکوز رہی۔ ایسے میں انسانی دماغ اور جسم دونوں انہی جذبات کے پیش نظر ارتقا پذیر ہوئے۔ خوشی کا احساس بھی ضروری تھا، مگر بقا کے لئے اہمیت دکھ اور خوف کی تھی کیونکہ انہی کے ذریعے ہمیں اپنی زندگی کو درپیش خطرات کا شعور ملتا ہے۔ اور یوں اس ارتقائی سفر میں منفی جذبات جیسے خوف، غم اور بے سکونی یا اضطراب ہماری نفسیات کا حصہ بن گئے۔ اس لیے ہم آج دکھ، خوف اور غم جیسے جذبات کو زیادہ دیر تک محسوس کرتے ہیں، جبکہ خوشی ہمارے لیے ایک مختصر اور غیر مستقل کیفیت ہے۔ سائنس میں اسے ”نیگیٹیوٹی بائس“ (negativity bias) کہتے ہیں، یعنی ہمارا ذہن منفی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے تاکہ بقا کے امکانات کو یقینی بنایا جا سکے۔

شاید اسی لیے ہماری ترقی ہمارے خوشی کے لمحات سے زیادہ ہمارے دکھ، درد، اور غم اور مشکلات کی مرہون منت ہے، جن کی وجہ سے ہر وقت ہم میں تخلیقیت کا پہلو پروان چڑھا اور اپنے ماحول کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی، اس عزم کے ساتھ کہ اپنی بقا کے امکانات کو مزید بڑھائیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ غم اور تکالیف کا وجود انسانی زندگی میں بنیادی ہے اور اسی کے سائے میں ہم زندگی کے معنی تلاش کرتے ہیں۔ خوشی کا حصول ہمیشہ سے انسان کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے، جس کے مختلف راستے اور نظریے ہیں۔ اس میں مذہبی نقطہ نظر ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ روحانیت اور مذہب خوشی کا ایک متوازن راستہ ضرور دکھاتے ہیں، جس کے مطابق خدا کی رضا، عبادت، اور ایک مخصوص طرزِ زندگی اختیار کرنے سے انسان کو حقیقی خوشی اور اطمینان ملتا ہے، لیکن یہ راستہ بھی نقص اور خامیوں سے خالی نہیں ہے، جس میں فکری جمود اور محدودیت کا شکار ہونا نمایاں ہے۔

مذہبی راستہ ایک حد تک انسان کو خوشی فراہم کر سکتا ہے، لیکن یہ خوشی ایک مخصوص فریم ورک کے اندر مقید ہوتی ہے، جس میں فرد ایک خاص طرزِ زندگی کو اختیار کر لیتا ہے، جس میں انسانی سوچ محدود ہو جاتی ہے اور نتیجتاً انسان فطری طور پر زندگی کے دوسرے پہلوؤں، جیسے سائنسی اور فلسفیانہ پہلوؤں سے غیر ارادی طور پر دور ہو جاتا ہے۔ جب انسان صرف مذہبی فریم ورک میں خوشی کی تلاش کرتا ہے تو اسے دوسرے نظریات اور ذرائع کو تسلیم کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ یہ رویہ ایک قسم کے جمود کو جنم دیتا ہے، جس میں انسان غیر ضروری طور پر اپنی سوچ کو محدود کر لیتا ہے۔ حقیقی خوشی حاصل کرنے اور خود کو سمجھنے کے لیے، انسان کو اپنے عقائد پر سوال اٹھانے، اپنے مقاصد کا جائزہ لینے، اور غیر آرام دہ سچائیوں کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔

ارسطو کے نزدیک حقیقی خوشی ایک مقصد اور اخلاقی اقدار سے بھرپور زندگی گزارنے میں ہے، جس میں درد، قربانی، اور مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہی غم اور مشکلات اصل میں خوشی کی بنیاد بناتے ہیں۔ ایک معروف رائے ہے کہ ہماری روح میں ایک ایسی کمی ہے جو ہمیں ہمیشہ دکھی اور بے چین رکھتی ہے۔ سچ یہی ہے کہ زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ زندگی کے المیے، اس کے نشیب و فراز، اور وجودی سوالات ہمیں ہمیشہ ستاتے رہیں گے۔ زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنا اور ان کے ساتھ جینا ہی شاید انسان کا مقدر ہے۔

ہو سکتا ہے کہ خوشی ایک سراب ہو جسے پانے کی کوشش میں ہم زندگی گزار لیتے ہیں، اور ہماری زندگی میں غم، المیہ، اور درد کے لمحات ہمارے وجود کا حصہ ہیں اور شاید یہی لمحات زندگی کی اصل حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں۔ خوشی کی جستجو شاید کبھی مکمل نہ ہو، مگر اس جستجو کا سفر ہی ہم پر زندگی کے راز کھول دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments