عدلیہ میں تقسیم
جوڈیشل کمیشن نے کثرت رائے سے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ تشکیل دیا ہے۔ بنچ میں تمام صوبوں کے ججوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ قانون کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ان کیمرا ہونا قرار پایا ہے تاہم اس کارروائی کے حوالے سے میڈیا میں یہ خبر عام ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو سینئر ججوں نے اس بنچ کی تشکیل کے خلاف ووٹ دیا۔
عدالت عظمی میں تقسیم پریشانیوں کا موجب ہو سکتی ہے کیوں کہ یہ اختلاف رائے قانونی یا اصولی نکات کی بجائے پسند و ناپسند اور کسی حد تک سیاسی وابستگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو سیاسی رائے رکھنے کی آزادی تو ہونی چاہیے لیکن اگر ان کی سیاسی پسند یا ناپسند کا اظہار ان کے رویوں اور فیصلوں سے ہونے لگے تو یہ ملک میں انصاف کی صورت حال کے لیے مناسب نہیں ہو سکتا۔ خاص طور سے سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا رویہ شبہات پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کرنے کا طریقہ تبدیل کیا گیا ہے۔ اب یہ فیصلہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرتی ہے جسے عدالت عظمی کے سب سے سینئر تین ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس کے طور پر مقرر کرنے کی سفارش کا حق حاصل ہے۔ اسی لیے نوساختہ پارلیمانی کمیٹی نے سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی۔ وزیر اعظم نے اس سفارش کی بنیاد پر جسٹس آفریدی کا نام صدر مملکت کو بھیج دیا جن کے حکم سے انہیں چیف جسٹس مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا اور سابق چیف جسٹس کے الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں شامل نہ ہونے والے جج بھی حلف وفاداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔
یوں یہ امکان تقریباً ختم ہو چکا تھا کہ سپریم کورٹ چھبیسویں ترمیم کے خلاف کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔ یا عدالت عظمی میں کوئی بڑی گروہ بندی موجود ہے۔ کیوں کہ جب چیف جسٹس ہی اس ترمیم کے مطابق مقرر ہو گیا اور اسے اس عہدے کا حلف اٹھانے پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا تو اصولی طور سے اس ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ کی طرف سے کسی اعتراض کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف اور دیگر نے آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم سہ رکنی کمیٹی ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ ان پٹیشنز کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے اور انہیں کس بنچ کے سامنے پیش کیا جائے۔ نئی ترمیم کے تحت چونکہ آئینی امور پر غور کرنے کا اختیار سپریم کورٹ یا اس کے چیف جسٹس کی بجائے آئینی بنچ کو دیا گیا ہے، اس لیے یہ قیاس کرنا فطری تھا کہ چھبیسویں ترمیم کے خلاف سامنے آنے والی درخواستوں کی سماعت نیا آئینی بنچ ہی کرے گا۔
البتہ سپریم کورٹ کے دونوں سینئر ترین ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے قاعدے و ضابطے پر عمل کرتے ہوئے صبر و ضبط سے چیف جسٹس اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کا انتظار کرنے کی بجائے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک دلچسپ خط لکھا ہے۔ اس خط میں اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ دونوں چونکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم ججوں کی کمیٹی کے رکن ہیں، اس لیے انہوں نے اجلاس کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت فل کورٹ بنچ 4 نومبر سے کرے گا۔ حالانکہ ان دونوں فاضل جج حضرات کو علم تھا کہ چیف جسٹس نئی آئینی ترمیم کے تحت نوتشکیل شدہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 5 نومبر کو بلا چکے ہیں۔
اس خط کے مندرجات دلچسپ ہیں اور منصفین کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے کے باوجود یہ دونوں سینئر جج حضرات خود ہی ضابطہ و طریقہ کار پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ اس خط میں دونوں سینئر ججوں نے لکھا ہے کہ ’چیف جسٹس کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی کا اجلاس نہ بلانے پر انہوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم رجسٹرار آفس نے اس ضمن میں کوئی کاز لسٹ جاری نہیں کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم کی گئی تین رکنی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے جس میں 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں کو سماعت کے مقرر کیا جائے۔ لیکن چیف جسٹس کی جانب سے اجلاس نہیں بلایا گیا۔ کمیٹی کا اجلاس نہ بلانے پر ان دونوں ججز نے 31 اکتوبر کو اجلاس کیا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے لگایا جائے۔ اس ضمن میں رجسٹرار آفس سے کہا گیا کہ‘ کمیٹی ’کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے اور درخواستیں 4 نومبر کو فل کورٹ کے سامنے لگائی جائیں۔ لیکن جاری ہونے والی کاز لسٹ میں ان درخواستوں کا ذکر نہیں تھا‘ ۔
اس خط کا بظاہر مقصد تو یہی لگتا ہے کہ چیف جسٹس ججز کمیٹی کے دو ارکان کے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر متعلقہ انتظامی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کریں لیکن درحقیقت یہ خط لکھ کر سپریم کورٹ میں باہمی اختلافات کی کہانی عوام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان دونوں فاضل ججوں کی مرضی و منشا کے بغیر یہ خط میڈیا تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ان سینئر ججوں کو اگر کمیٹی کا اجلاس نہ بلانے پر اعتراض تھا تو انہیں اس بارے میں اندرونی طور سے استفسار کرنا چاہیے تھا لیکن چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر کمیٹی کا اجلاس بلا کر خود ہی فیصلہ کر کے، اس پر عمل درآمد کی امید باندھ لی گئی اور اب اعتراض بھی کیا جا رہا ہے۔ بہتر ہوتا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اس خط میں یہ بھی بتا دیتے کہ کیا انہوں نے کمیٹی کے تیسرے رکن یعنی چیف جسٹس آف پاکستان کو کمیٹی اجلاس منعقد کرنے کی اطلاع دی تھی یا تیسرے رکن کو مدعو کرنے کی ’ضرورت‘ ہی محسوس نہیں کی گئی کیوں کہ ان دو فاضل ججوں کے پاس ’اکثریت‘ تھی۔ حالانکہ ججز کمیٹی کے سربراہ چیف جسٹس ہیں۔ انہیں ہی اجلاس بلانے کا اختیار ہے اور وہی اس اجلاس کی صدارت بھی کرتے ہیں۔
اس حوالے سے یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سینئر ججوں کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہرہ کرنے کے لیے جسٹس منیب اختر کو دوبارہ کمیٹی کا رکن بنا دیا تھا۔ حالانکہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ترمیم کے بعد ستمبر کے آخر میں جسٹس منیب اختر کی بجائے جسٹس امین الدین خان کو ججز کمیٹی کا رکن بنایا تھا۔ کیوں کہ اس آرڈیننس کے تحت کمیٹی میں چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کے علاوہ تیسرا جج چیف جسٹس اپنی مرضی سے شامل کرنے کے مجاز ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سابق چیف جسٹس کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ لیکن جسٹس (ر) قاضی فائز عیسیٰ دوسرے رکن جسٹس امین الدین خان کے ساتھ مل کر بنچ سازی کرتے رہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے حالیہ خط سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے کس مجبوری کی وجہ سے جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے علیحدہ کیا ہو گا۔
سینئر ججوں کا یہ خط اس لحاظ سے بھی مضحکہ خیز ہے کہ یہ دونوں نئی آئینی ترمیم کے ’متاثرین‘ ہیں۔ پرانے طریقے کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ 26 اکتوبر کو تقریباً دو سال کے لیے چیف جسٹس بنتے اور ان کے بعد جسٹس منیب اختر کو یہ عہدہ ملتا۔ اس صورت حال میں ان دونوں ججوں کو چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کسی قسم کے فیصلے میں شریک ہونے سے انکار کرنا چاہیے تھا کیوں کہ ایسی صورت میں ان کا ذاتی دکھ ان کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا شبہ رہتا۔ لیکن یہ دونوں فاضل جج چیف جسٹس کو لکھے ہوئے خط میں دوٹوک الفاظ میں اپنے ’ذاتی نقصان‘ کا ازالہ کرنے کے لیے فل کورٹ بنچ بنانے کا ایسا ’حکم‘ صادر کر رہے ہیں، جس کا ان کے پاس کوئی قانونی یا اخلاقی اختیار نہیں تھا۔
قبل ازیں 26 ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس عائشہ ملک کے ساتھ ایک دو رکنی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اب تو یہ طے ہونے سے پہلے مقدمات پر غور کرنا مشکل ہو گا کہ کس بنچ کا دائرہ اختیار کیا ہے، کیوں کہ آئینی بنچ بنانے کا فیصلہ ہونے کے بعد یہ طے کرنا ہو گا کہ کون سا معاملہ کس بنچ کو سننا ہے۔ اس کے باوجود وہ نہ صرف 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں سننے پر اصرار کر رہے ہیں بلکہ ججز کمیٹی کی طرف سے خود ہی اس بارے میں فیصلہ کا حق بھی ’چھین‘ لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔
آج جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں طے ہو گیا کہ چیف جسٹس کس قانونی حجت کی وجہ سے ججز کمیٹی کا اجلاس بلانے سے گریز کر رہے تھے۔ ایک تو ترمیم کے بعد آئینی امور پر فیصلہ آئینی بنچ ہی کر سکتا ہے، سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار نہیں رہا۔ دوسرے حال ہی میں پارلیمنٹ نے نئی ترامیم کے ذریعے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی ترمیم کی ہے۔ اس کے تحت اب ججز کمیٹی میں آئینی بنچ کا سربراہ بھی شامل ہو گا۔ یوں سابقہ کمیٹی، بنچ سازی کا فیصلہ کرنے کی اہل نہیں رہی تھی۔ البتہ عدالت عظمی کے دو ذی وقار سینئر ترین ججوں کو اس قانونی پوزیشن کی پرواہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ خود ہی قانون کی من چاہی تشریح کرنے کا طریقہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اب سمجھ جانا چاہیے کہ موجودہ پارلیمنٹ کی طرف سے چیف جسٹس اور ججز کی تقرری کا طریقہ تبدیل کرنے کی بنیادی وجہ بعض ججوں کی غیر ضروری مستعدی اور آئین و قانون کی من پسند تشریح کا رجحان تھا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد بھی دوگنی کردی گئی ہے۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ چیف جسٹس بننے میں ناکام رہنے والے یہ دونوں فاضل جج جونیئر ججوں کے لیے اچھی مثال قائم کریں۔
جوڈیشل کمیشن میں پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے تجویز دی تھی کہ آئینی ترمیم سے متاثر ہونے والے یا اس سے فائدہ اٹھانے والے کسی جج کو آئینی بنچ کا سربراہ نہ بنایا جائے۔ اس تجویز پر ووٹنگ کے نتیجہ میں پانچ کے مقابلے میں سات ارکان نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بنچ بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ بات نوٹ کی جائے گی کہ اس تجویز کی مخالفت کرنے والوں میں تحریک ارکان کے دو ارکان کے علاوہ چیف جسٹس اور دو سینئر جج شامل تھا۔ حالانکہ جسٹس یحییٰ آفریدی تو ترمیم ہی کی وجہ سے چیف جسٹس بنے ہیں اور دوسرے دونوں سینئر جج اس عہدے سے محروم ہوئے۔
پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی آئینی ترمیم اور قانون سازی کے حسن و قبح کے بارے میں بحث جاری رکھی جا سکتی ہے تاہم سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کو پارلیمنٹ کے اختیار اور قانون سازی کے حوالے سے ذاتی خیالات و ترجیحات کا اظہار کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ملک میں نظام انصاف اور عدلیہ کے وقار کے لیے بھی اہم ہو گا کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات باہمی اختلافات کا پرچار کرنے کی بجائے اپنے آئینی کردار پر توجہ مرکوز رکھیں۔
- للکارنے کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے! - 04/12/2024
- تحریک انصاف کا مصالحانہ رویہ: حکومت جارحیت سے باز رہے - 03/12/2024
- تشدد سے سیاسی استحکام نہیں آ سکتا! - 01/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).