دین کی خدمت، اربوں کی جائیدادیں اور جانشین شہزادے


موروثی سلسلے کا تسلسل کاروبار یا جائیداد کے پس منظر میں ہو تو سمجھ میں آ تا ہے لیکن مذہبی و روحانی معاملات میں یہ تسلسل ناقابلِ فہم ہے، دنیاداری اور دین داری دو الگ الگ دنیائیں ہیں۔

ایک کا تعلق دنیاوی تقاضوں سے ہے جس میں پیٹ اور نفس سے جڑی ہوئی تمام قباحتیں و مکروہات موجود ہوتی ہیں جبکہ دوسری کا تعلق آخرت کی زندگی سے بے، جس کے حصول اور کامیابی کے لیے نفسانی تقاضوں کی نفی اور دل و دماغ کو مادی دنیا کی کدورتوں سے پاک کرنا اولین شرائط میں سے ایک بنیادی اصول ہوتا ہے۔ اگر کسی مقام پر یہ ایک دوسرے سے صلح کر لیں یا دونوں کے بیچ بنیادی اور اہم تفریق ختم ہو جائے تو پھر یہ کاروبار بن جاتا ہے، دو بعد المشرقین نظام اسی وقت ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہیں جب بقا یا وجود پر خطرات کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔

وطن عزیز میں مذہب ایک فائدہ مند اور نسلوں تک کو سرفراز کر دینے والا کاروبار بن چکا ہے، اس چکرویو کو دوام بخشنے کے لیے موروثیت، خانوادہ، صاحبزادہ اور خلیفہ ایسی اصطلاحات مستعمل ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بغیر دین کا نظام نہیں چلتا تو پھر ہم ایسے گناہ گاران کیا نتیجہ اخذ کریں؟

کیا مادی دنیا کا روحانی و اخروی بندوبست کے ساتھ کسی بھی مرحلے پر الحاق ہو سکتا ہے؟
اگر دونوں نظام یا نظریات ایک ساتھ چل سکتے ہیں تو پھر ابتر یا برتر کا پیمانہ کیوں؟

دین دار، اہل جبہ و دستار یا پیران طریقت یہ دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں کہ مادی دنیا کا حصول انسانی دل کو مردہ اور اعمال کو بدبودار کر دیتا ہے لیکن ان کی اپنی عملی زندگی میں اس حقیقت کو دلی طور پر تسلیم کرنے کا کوئی عکس یا ثبوت دکھائی نہیں دیتا۔

بلکہ دین و روحانیت کی بدولت ان کی دنیا جنت نظیر اور گھر کوٹھی نما بن جاتے ہیں جبکہ ان کے مقتدی، دست بوسیاں کرنے والے سادہ لوح اور ان کی جیبوں کو نذرانوں سے بھرنے والوں کے دن نہیں پھرتے، خوشحالی و ہریالی ان سے کوسوں دور رہتی ہے۔ حالانکہ یہ سادہ لوح انہی کے بتائے ہوئے وظائف پڑتے ہیں اور عملیات و دعا و مناجات کے باوجود بھی خوشحالی ان کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتی جبکہ مقدس ہستیوں کی اولادیں تک خوشحال ہو جاتی ہیں۔

اگر مذہب میں بھی دنیاوی کدورتیں، لالچ و حرص اور دولت ایسی نجاستیں حلول کر جائیں تو پھر مذہب کی اپنی نوعیت یا اہمیت کیا ہوگی؟

جب دنیا سے کنارہ کر لینے اور خالق حقیقی سے قلبی لو لگانے کا درس دینے والے خود اپنی مذہبی خدمات کی اجرت لاکھوں میں وصولنے لگیں تو پھر مذہب کے تقدس کا کیا بنے گا؟

اگر مذہب خالصتاً اخروی معاملہ ہے تو پھر اس میں جو دنیاوی اثر و رسوخ شامل ہو چکا ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟

اگر یہ خالق اور بندے کے بیچ کا بندوبست ہے تو پھر اس کے نام پر جائیدادیں بنانے والے، اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے اغیار کی سرزمین پر روانہ کرنے والے اور دنیاوی لذتوں میں لتھڑے ہوئے یہ لوگ کون ہیں؟

اگر مذہب بے رغبتی سکھاتا ہے تو پھر موروثیت یا جانشینی کے جراثیم کہاں سے آئے؟
مولانا الیاس قادری عرف ”بپا جانی“ نے اپنے سلسلے کا جانشین اپنے بیٹے کو مقرر کر دیا ہے۔
مولانا طاہر القادری نے بھی اپنے ایک فرزند کو اپنے سلسلے کا ”صاحبزادہ خاص“ منتخب کر لیا ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی اپنا بیٹا منتخب کر لیا ہے جو ان کے شجرے کو لے کر چلے گا۔

مولانا طارق جمیل کا یوسف جمیل بھی زیر تربیت ہے، اکثر اوقات یو ٹیوب چینل پر ان سے سوال جواب کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر مشائخ عظام بھی اپنے سلسلے کو دوام بخشنے کے لیے یہی کچھ کرتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دین حنیف کی حفاظت کا ذمہ خود قادر مطلق نے لیا ہے تو ان سلسلوں کا جواز کیا بنتا ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ان عہدوں پر خود کے بچوں کے علاوہ دوسروں کے بچے براجمان کیوں نہیں ہو سکتے؟
کیا غریب مقتدیوں یا مریدین کے بچے ان مقدس عہدوں پر بطور جانشین مقرر نہیں ہوسکتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments