پرانے کمپیوٹر اور موبائل فون کے مدر بورڈز سے سونا نکالنے کا رجحان


آآآآ، پرانے کمپیوٹر بیچو ہا، پرانے موبائل فون بیچو ہا، نقد نقد پیشے لِیو ہا۔ ”ابّے بھورُو! تَنے سے آواج نہ لاگے۔ کل راتو ساہدرہ میں کانڈی کے ہوٹل ما تَنے پورا کڑاہی گوست کھا گِیو، اِب کے تَنے سے آواج نہ لاگے“ ۔ ”ابّے اُستاد طوطُو! کا یاد دِلا دیا۔ کڑاہی گوست اپنو جگہ پر قائدِ اعجم کالونی والے مرغی کے چنبوں والے کوئلہ کباب کا جو مجا ہے قشم شے پورے بہاول پور کے کِشی ہوٹل ما وہ مجا نہیں“ بُھور و نے جواب دیا۔

بہاول پور کے ہر علاقہ میں آپ کو موٹر سائیکل پھٹہ لوڈر گزرتا ہوا ملے گا جس پہ بیٹھے کباڑیے پرانے کمپیوٹرز اور موبائل فونز خریدنے اور موقع پہ نقد رقم دینے کے لیے آوازیں لگا رہے ہوں گے۔ شیر شاہ کراچی کے کباڑیوں کے گوداموں میں ای ویسٹ میں پڑے پرانے کمپیوٹرز اور موبائل فونز کے مدر بورڈز سے سونا نکالنے کا جو ”کباڑی کاروبار“ شروع ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ پھیلتا ہوا لاہور، فیصل آباد اور پشاور سے ہوتا ہوا اب ملتان اور بہاول پور تک آ پہنچا ہے۔ جی ہاں، نہ صرف ان پرانے کمپیوٹرز اور موبائل فونز کے مدر بورڈز سے سونا نکالا جا رہا ہے بلکہ سونے سے بھی کئی گنا زیادہ ایک قیمتی دھات بھی ان کے اندر موجود ہے۔

بہاول پور میں اردو زبان کا ”بِھیتری“ لہجہ بولنے والے کباڑیے پورے شہر سے خریدے گئے پرانے کمپیوٹرز اور اور موبائل فونز سے مدر بورڈز علیحدہ کر کے شہر کے مچھلی صرافہ با زار کے سناروں کے پاس نسل در نسل کام کرنے والے ان کاریگروں کو بیچ دیتے ہیں جو سونے کو تیزاب اور دیگر کیمیکلز کے ذریعے دوسری دھاتوں سے علیحدہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ تاہم اب ان کباڑیوں نے خود اور خیبر پختونخوا سے بہاول پور آنے والے پشتون بھائیوں نے بھی سونا نکالنے کا یہ کام شروع کر دیا ہے۔ شہر کے علاقوں بدر شیر کچی آبادی، شاہدرہ، مچھلی صرافہ بازار، میلہ والی گلی، سناروں والی گلی اور کچھ دیگر علاقوں میں پرانے کمپیوٹرز اور موبائل فونز کے مدر بورڈز سے سونا نکالنے کا کام ہو رہا ہے۔ خیر۔

انتہائی محنت طلب اس کام سے سونے کے ذرات تو بہت تھوڑی مقدار میں نکلتے ہیں لیکن اس کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ اس پہ کام کرنے والے کاریگروں میں دمہ، ٹی بی اور کینسر کی بیماریاں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جو مختلف میٹیریل مدر بورڈز کی مینوفیکچرنگ اور پھر ان سے سونے کے ذرات کو علیحدہ کرنے میں استعمال ہوتا ہے ان میں سیسہ، آرسینک، کئی خطرناک دھاتیں اور مختلف قسم کے تیزاب شامل ہیں۔ کاریگر بھٹی کے اوپر رکھی کڑاہی میں تیزاب اور دیگر کیمیکلز کو گرم کرتے ہیں اور پھر مدر بورڈز سے سنہری اور زرد رنگ کے مواد اور تاروں کو جن کے اندر سونے کے ذرات کی مکسنگ ہوتی ہے کو پلاس وغیرہ کے ذریعے علیحدہ کر کے اُس گرم تیزاب اور گرم کیمیکلز میں پگھلنے کے لیے ڈال دیتے ہیں، اُس وقت جن زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے وہ براہ راست ان کے پھیپھڑوں میں چلی جاتی ہیں (بی بی سی نے رپورٹ کیا ہے کہ شیر شاہ کراچی کے گودام ایریا میں پرانے کمپیوٹرز اور موبائل فون کے مدر بورڈز سے تیزابی پراسیس کے ذریعے سونے کے ذرات علیحدہ کرنے والے افراد دمہ، ٹی بی اور کینسر کا شکار ہو رہے ہیں۔ آپ چاہیں تو بی بی سی کی ویب سائٹ پہ یہ رپورٹ خود پڑھ سکتے ہیں ) ۔

انڈیا ہو، پاکستان ہو، بنگلہ دیش ہو، لاطینی امریکہ ہو یا افریقہ ہو، معاشرے میں دو طبقے ہی نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس دولت کی بہت زیادہ فراوانی ہوتی ہے۔ دوسری طرفہ وہ طبقہ ہوتا ہے جو اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ تیزاب اور کیمیکلز جیسے کاموں سے وہ کینسر کا مریض بن رہا ہے لیکن اس کی ترجیح ہوتی ہے کہ کسی طرح اتنے پیسے مل جائیں کہ شام کا چولہا جل جائے۔ ان خطّوں میں پائے جانے والے ان دونوں طبقوں کے حالات اور مائنڈ سیٹ کو راقم نے ایک نظم میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔

کیوں ڈالی جھونپڑ ی مُفلس نے یہاں
سامنے حسیں محل نظر آتاہے
کیوں بلکتے ہیں بچے بھوک سے
کیوں آنکھ میں پانی بھر آتا ہے
کوئی سات کھانے کھا کے سوتا ہے
کسی پہ بھوک کا ڈر آتا ہے
چلا گیا مجرم قیمتی کا رمیں
غر یب پہ سنتری کا قہر آتا ہے
خُدا ظالم نہیں ہے مُلاّ
جھوٹی تقسیم پہ تجھے صبر آتا ہے
کا سہ لیس کو بنا لیا پیشوا
عقیدے میں رخنہ سادرآتا ہے
نہیں مُنصف سے تو قع انصاف کی
ِنشے نشے میں فیصلہ کر آتاہے
پیسہ ہائے پیسہ ہائے پیسہ
عمر گزری آخرِپہر آتا ہے
آنکھ کھول کر دیکھ اکبر میاں
ہوس کے ماروں کا شہر آتاہے

احباب! بی بی سی لندن کی رپوٹ کے مطابق انگلینڈ کے سائنسدانوں نے ایک خاص قسم کا کیمیکل ایجاد کر لیا ہے۔ جار میں پڑے اس ہلکے نیلے اورسبز رنگ کے کیمیکل میں پرانے کمپیوٹرز اور موبائل فونز کے مدر بورڈز کو رکھا جاتا ہے اور سونے کے ذرات خود بخود اس مدر بورڈ سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ بی بی سی کی ٹیم نے انگلینڈ کی سرکاری رائل منٹ فیکٹری کے لیے بنائے گئے اس کیمیکل کی تصویریں تو اپنی ویب سائیٹ پہ جاری کی ہیں تاہم لکھا ہے کہ اس کیمیکل کا نام اور فارمولا مکمل طو ر پہ خفیہ رکھا گیا ہے۔ رائل منٹ فیکٹری میں پرانے مدر بورڈز سے حاصل ہونے والے سونے سے سکّے بنائے جار ہے ہیں۔

اکبر شیخ اکبر کی تجویز ہے کہ ای ویسٹ سے سونے کے ذرات اور دیگر قیمتی دھاتوں کو تیزابی پراسیس سے علیحدہ کرنے والے کباڑیوں اور دیگر افراد کی سائنٹیفک بنیادوں پہ تربیت کی جائے کہ وہ اس پراسیس کے دوران اپنی صحت کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں نیز یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا اس عمل کے دوران اُٹھنے والی زہریلی گیسوں کا اردگرد کی آبادی پہ تو کوئی اثر نہیں ہو رہا؟ خصوصاًآج کل عوام کی اچھی خاصی تعداد آنکھوں کی خارش اور الرجی میں مبتلا ہوئی پڑی ہے۔

اچھا، آخر میں ایک بڑی دلچسپ بات لکھتا جاؤں۔ وہ یہ کہ ایک طرف تو سونے کے ذرات کو مدربورڈز سے علیحدہ کرنے والے روایتی اور قدیم تیزابی پراسیس کی وجہ سے اناڑی حضرات کینسر کے مریض بن رہے ہیں تو دوسری طرف ایڈنبرگ یونیورسٹی کے سائنسدانوں بشمول ڈاکٹرا سئیر انسیٹی بروسیٹا اور ڈاکٹراینی میکارتھی نے انکشاف کیا کہ ان کی یونیورسٹی میں ہونے والے سائنسی تجربات سے پتہ چلا ہے کہ سونے کے ذرات سے سائنٹیفک بنیادوں پہ بنائی جانے والی دوا کینسر اور ٹیومر کے علاج میں مفید ثابت ہوئی ہے (بحوالہ بی بی سی رپورٹ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments