نئی سحر کے خواب اور میر بلیدی


یہ 1983ء کے پندرہ اگست کی بات ہے۔ ضیا شاہی کا آسیب اپنی تمام وحشتوں کے ساتھ شب سیاہ کی صورت اس ملک پر منڈلا رہاتھا۔ بحالی جمہوریت کی تحریک کا دوسرا دن تھا۔ ایک نئی سحر کے خواب لے کر تاریکی کو شکست دینے کیلئے سیاسی کارکنان راستوں پر نکل آئے تھے۔ یہ بحالی جمہوریت اور سول نافرمانی کی تحریک تھی۔ جو ایک آمرانہ حکومت کے خلاف تھی۔ سندھ اس کا مزکز تھا۔ عام سندھی اسے ایم آرڈی کی تحریک کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ وہ تمام جمہوریت پرست لیڈر اس تحریک کے روح رواں تھے، جن کی اب تھوڑی سی خوشبو بھی کسی سیاسی جماعت کے لیڈر سے نہیں آتی۔پاکستان کے سیاسی میدان میں اس وقت جتنے بھی جانے مانے لیڈران کرام ہیں انہیں پاکستان کے لوگ جو کچھ بھی مانتے ہوں لیکن کم سے کم ایماندار تو نہیں مانتے۔

ان چونتیس برسوں میں ہم نے بظاہربہت ترقی کرلی لیکن سیاسی پستی ہے کہ کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی عوامی تحریکیں سیاسی اصولوں کی جڑوں کو نئی زندگی بخشتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی اخلاقیات بڑے بحران کی زد میں ہے۔ اسی پندرہ اگست کو تین درجن کے قریب سیاسی کارکنان جنوبی سندھ کے ضلع بدین کے فروٹ چوک پر ضیاالحق کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے اکٹھے ہوئے تھے۔ پولیس تمام نوجوانوں کو گرفتار کرکے تھانے لے آئی۔ جنہوں نے چوک پر تقاریر کیں ان کو جیل بھیج دیا گیا۔باقیوں کو کہا گیا کہ ’میجر صاحب کی عدالت میں پیشی کے بعد انہیں بھی جیل بھیج دیا جائے گا‘۔ سورج غروب ہوا تو ایک قیدی وین بدین تھانے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ ستائیس سیاسی کارکنان کو وین میں ڈال کر پنگریو کے قریب درگاہ سمن سرکار سے بھی پندرہ کلومیٹر آگے ایک گاوں میں چھوڑدیا گیا۔

پولیس والے نے پیچھے آکر دروازہ کھولا اور کہا کہ’ میجر صاحب کی عدالت سامنے ہے ، تم سب کو ان کے سامنے پیش کیا جائے گا‘۔ اپنی بات پوری کرتے ہوئے پولیس والے نے کہا۔’’باہر نکلو اور قطار بناو‘۔

سیاسی کارکنان کو سامنے سے تو صرف لالٹین کی مدھم سی روشنی نظر آرہی تھی۔ باقی چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔

’’میجر یہاں کیسے ہوگا‘۔’
ایک کارکن نے پولیس والے سے سوال کیا۔
زیادہ باتیں نہ کرو قطار میں کھڑے رہو۔ پولیس والے نے تڑی لگائی۔
سارے لوگ اترنے کے بعد پولیس والے نے قیدی وین کا پچھلا گیٹ زور سے بند کیا اور دوڑ لگاتے ہوئے ڈرائیور کو آواز دی بھگاو!!

اور خود دوڑتا ہوا ڈرائیور کی ساتھ والی نشست پر سوار ہوگیا۔ قطار میں کھڑے لوگوں نے اڑتی ہوئی مٹی اور ٹائروں کے زمین پر زور سے گھومنے کے ساتھ پولیس والے کی زوردار آواز سنی تو سب اس بس کے پیچھے بدحواس ہوکر دوڑنے لگے جو اس سیاہ رات کو ان کا آخری سہارا تھی۔ لیکن ڈرائیور تو آیا ہی اسی کام سے تھا تو رکتا کیسے؟

اس رات کے بعد یہ سندھ میں روز کا معمول بن چکا تھا۔ کچھ جیل جاتے ،باقیوں کو دور ویرانے میں چھوڑدیا جاتا۔ سیاسی کارکن جیل جانے کو سعادت سمجھتے تھے۔ جیل بھرو تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1985 ء میں ضیاالحق نے غیرجماعتی انتخابات کرائے اور جونیجو وزیراعظم بن گئے۔ لیکن 86ء میں ایم  آر ڈی کی تحریک دوبارہ شروع ہو گئی۔

1988ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت میں یہ سعادت کافی سیاسی کارکنوں کے کام آئی۔ کسی نے جیل تو کسی نے کوڑے کیش کرائے۔ ان دنوں یہ ضرور معیوب لگتا تھا۔ لیکن اب لگتا ہے کہ ان سیاسی کارکنوں نے ٹھیک کیا کیونکہ بعد میں آنے والے برسوں میں ہم نے دیکھا کہ وہی لوگ اہمیت اختیار کر گئے جنہوں نے کوڑے کھائے نہیں بلکہ مارے تھے۔

بات کو وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ ایم آرڈی جدوجہد کی کہانی کا یہ دوسرا روز تھا۔ جو مجھے میر بلیدی سنا رہے تھے۔ میر بلیدی سیاسی اخلاقیات کے پیروکاروں کی نسل کے ان چند لوگوں میں سے باقی ہیں جنہوں نے’ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی ‘’ کے شوق میں تمام عمر جدوجہد کا سفر کیا لیکن کہیں بھی تھکن کو جواز نہ بنایا۔ مایوس نہیں ہوئے اور نہ کبھی اپنی پارسائی کا دعویٰ کیا نہ کبھی اس کو کیش کرانے کیلئے اپنی داستان حیات کو ذریعہ بنایا۔ مناسب پڑھے لکھے اس سیاسی کارکن کو اب سندھ کے سیاسی لوگوں کی وہ اکثریت نہیں جانتی جو سیاست کو لینڈ کروزر اور ایک آسودہ زندگی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ میر بلیدی نے عوامی تحریک سے سیاست کا آغاز کیا۔ فاضل راہو کی شہادت کے بعد پارٹی کے اندر ہونے والے اختلافات کے نتیجے میں انہیں انیس سال کی رفاقت کے بعد غدار قرار دے کر پارٹی سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے عوامی تحریک کے بعد کسی سیاسی جماعت کو جوائن نہ کیا بلکہ اپنی سیاسی جدوجہد کا ذریعہ شاعری کو ہی بنالیا۔

وہ سٹیج کے بادشاہ ہیں جہاں بھی کھڑے ہوجائیں لوگوں کا پیار سمیٹے بغیر واپس نہیں جاتے۔ یہی ان کے حصے میں آیا اور اسی پر اکتفا کیا۔وہ نہ صرف اپنی شاعری کے حافظ ہیں بلکہ سندھ کے مایا ناز شعرائے کرام شمشیرالحیدری، استاد بخاری منشی ابراہیم اور حافظ نظامانی کی شاعری کے بھی حافظ ہیں۔ شاہ عبدالطیف کو وہ اس طرح جانتے اور پڑھتے ہیں جیسے بھٹائی کو جاننا اور پڑھنا چاہئے۔

میر بلیدی جس کا تمام مال و متاع ہی اس کی خالی جیب ہے۔ 80ء کی دہائی میں پارٹی کیلئے چندے کے ذریعے اکٹھے کئے گئے پچیس ہزار روپے جیب میں لے کر فاقہ کشی کے مزے لیتا رہا لیکن اس رقم میں سے دس روپے کا کھانا کھانے کو گناہ سمجھتا تھا۔ افکار اور خیالات سے مالا مال یہ شخص آج تک کسی پچھتاوے کا شکار ہوا اور نہ کبھی ٹوٹا۔

پاکستان میں آج سیاسی نظریات کو ’حقیقت پسندی‘ کا نام دیکر جو کچھ کیا گیا ہے اس پر اب حیرت بھی نہیں ہوتی۔ جب تحریک دینے والے لوگ بھی رنگ میں رنگ جائیں تو امید مرنے لگتی ہے اور جب امید مرنے لگے تو زندگی کو اسباب تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں سیاست کا حال آج کل اس سے کچھ مختلف نہیں۔ پاکستان کی سیاست کو آج ایک بار پھر میر بلیدی جیسے کارکنوں کی ضرورت ہے جو سیاست میں اخلاقیات کو دوبارہ زندہ کریں۔ جو جیب بھرنے کے بجائے لوگوں کو حوصلہ دیں۔ امید دیں تاکہ ایک بار پھر لوگ اچھے اور برے کی تمیز کرسکیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).