سعیدہ گزدر: خود فراموشی کے ماہ و سال


اب یہ کہانی سنانا ضروری ہو گیا ہے کہ اس لشکر کے بچے کھچے سپاہی بھی ایک ایک کر کے رخصت ہوتے جا رہے ہیں جن کے دلوں میں صداقت اور جن کے نطق اور قلم میں طاقت تھی۔ جو ضیاءالحق کے طوق و سلاسل کو شورش بربط و نے سکھانے نکلے تھے جو ہمت کا بھرپور خزینہ رکھتے تھے، جن کی ہر ساعت ایک عمر تھی اور ہر فردا ان کا امروز تھا۔ ہاں وہ سب رخصت ہو رہے ہیں لیکن سعیدہ نے تو رخصت ہونے کا اپنا ایک منفرد طریقہ نکالا، وہ جسمانی طور پر تو سات اکتوبر 2024 کو رخصت ہوئی لیکن ذہنی طور پر برسوں پہلے وہ سب کچھ چھوڑ چکی تھی اور صاحب فراش تھی۔ سلام ہے اس کی بیٹی عائشہ کو جس نے اتنے برس اتنی محبت سے اس کی دیکھ بھال کی۔ ابھی ایک دو ہفتے پہلے ہی عجیب سی اداسی طاری تھی۔ اس دن شہر کے بھی بند ہونے کی خبر اڑی ہوئی تھی۔ میں نے عائشہ کو فون کیا کہ اگر گھر پر ہو تو میں اسے بتاؤں کہ مجھے سعیدہ بہت یاد آ رہی ہے لیکن وہ دفتر کے لئے نکل چکی تھی۔ اتنے برس میں ہمت جوڑتی رہی تھی کہ سعیدہ کو دیکھنے جاؤں۔ شاہد حسین (ریاستی تشدد کا چلتا پھرتا ثبوت) جب تک زندہ رہا، سعیدہ کو دیکھنے جاتا تو مجھے فون کرتا کہ میں بھی چلوں، عائشہ بھی بلاتی رہتی لیکن میں ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں سعیدہ کو اس عالم میں دیکھ سکوں۔

یہ 1974 یا 75 کی بات ہے۔ میں لالہ رخ حسین کے توسط سے کمیونسٹ پارٹی کے زین الدین گروپ کے لئے کام کر رہی تھی۔ لالہ رخ کو ہم سب پیار سے لالی کہتے تھے۔ ان ہی دنوں سبط حسن کے زیر ادارت نکلنے والے رسالے ”پاکستانی ادب“ میں ایک کہانی شائع ہوئی۔ اتفاق دیکھیے اس کہانی کا عنوان بھی ”لالی“ تھا۔ یہ کہانی سعیدہ گزدر نے لکھی تھی جنہیں اس وقت تک ہم نہیں جانتے تھے۔ یہ کہانی کارو کاری کے رواج کے بارے میں تھی۔ کیسے ایک لڑکی کے سر پر کارو کاری کے رواج کی کلہاڑی لٹکتی رہتی ہے۔ تب ہی لالہ رخ نے کہا کہ ہمیں اس کہانی کی مصنفہ سے ملنا چاہیے چنانچہ ڈھونڈتے ڈھانڈتے ہم سعیدہ گزدر کے گھر جا پہنچے۔

ایک دبلی پتلی، گندمی رنگت اور گھنے سیاہ بالوں والی پر کشش سی میٹھے اور مدہم لہجے میں گفتگو کرنے والی خاتون نے ہمارا استقبال کیا اور اس روز اس دوستی کا آغاز ہوا جو اگلی نسل کو منتقل ہوئی۔ سعیدہ کی بیٹی اور میری بیٹی بھی ایک دوسرے کی اچھی دوست ہیں۔ لیکن اس زمانے میں مسئلہ یہ تھا کہ ہم لوگ روس نواز اور چین نواز گروپوں میں بٹے ہوئے تھے۔ شاید ہم کبھی گہرے دوست بن نہ پاتے مگر ہوا یوں کہ ضیا الحق کے طویل اور خوفناک دور کے شروع ہوتے ہی سارے ترقی پسند اور جمہوریت پسند لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے۔ اب ہم سب کے سامنے ایک ہی مقصد تھا۔ پاکستان کو آمریت سے نجات دلانا اور اسے صحیح معنوں میں ایک جمہوری ملک بنانا۔ یہی مشترکہ مقصد سعیدہ اور میری دوستی کو مضبوط کرنے کا سبب بھی بنا۔

ضیا الحق کی اسلامائزیشن کا پہلا نشانہ خواتین اور مذہبی اقلیتیں بنیں۔ بہت سے اخبار رسائل بند کر دیے گئے چنانچہ سب سے پہلے 1977۔ 78 میں صحافیوں نے اس بندش کے خلاف تحریک چلائی۔ 1981 میں خواتین محاذ عمل قائم ہوا۔ پھر تحریک بحالی جمہوریت چلی۔ اس زمانے میں کراچی پریس کلب ہماری سرگرمیوں کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ میں اور سعیدہ زیادہ تر پریس کلب ہی میں ملا کرتے تھے، سعیدہ کا قلم اپنی جولانیوں پر تھا۔ اس کی کہانیوں کے مجموعے اور نظمیں سامنے آ رہی تھیں۔ مجھے روزنامہ امن میں ملازمت مل گئی تھی۔ یہ واحد ترقی پسند اخبار تھا جو ضیا الحق کے ہاتھوں بند ہونے سے بچا ہوا تھا۔ حالانکہ اس کے سرکاری اشتہارات بند تھے لیکن جمہوریت پسندوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے وہ دوسرے نمبر پر شائع ہونے والا سب سے بڑا اخبار بن چکا تھا۔ امن جوائن کرتے ہی میں نے پریس کلب میں بیٹھ کر پہلا انٹرویو سعیدہ گزدر کا کیا تھا۔ مجھ سے پہلے خواتین کا صفحہ ایڈیٹر افضل صدیقی خود دیکھا کرتے تھے۔ انٹرویو پڑھ کر وہ پریشان ہو گئے۔ ”اسے کون سے صفحے پر شائع کرنا ہے“ ۔ ”خواتین کے صفحے پر“ میں نے جواب دیا لیکن انہوں نے وہ انٹرویو ادارتی صفحے پر شائع کیا۔ میں سعیدہ کی کتابوں پر تبصرے بھی کیا کرتی تھی اور دیگر سرگرمیوں کا احوال بھی لکھا کرتی تھی چنانچہ مشتاق گزدر میری شکل دیکھتے ہی سعیدہ سے کہتے تھے۔ ”لو بھئی تمہاری فین آ گئیں،“ اور میں سوچتی کہ میں اور سعیدہ مشترکہ طور پر حق، انصاف اور امن و مساوات کے فین ہیں۔ مشتاق خود ہمارے ہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اور دستاویزی فلمیں بنانے کے لئے مشہور تھے۔

میں احفاظ کے ساتھ چین چلی گئی تو ملاقاتوں کے یہ سلسلے بھی ختم ہوئے۔ کبھی چھٹیوں پر آئی تو طویل نشست ہوئی۔ اور جب مستقل طور پر واپس آئی تو سعیدہ خود فراموشی کے عالم میں جا چکی تھی۔ میری ہمت ہی نہیں ہوئی اس سے ملنے جانے کی۔ چند ماہ پہلے اس کی بیٹی عائشہ نے اپنے گھر ویمنز ایکشن فورم کی میٹنگ رکھی تو میں بلا سوچے سمجھے چلی گئی۔ میری شکل دیکھتے ہی عائشہ مجھے سعیدہ کے کمرے میں لے گئی۔ وہ پلنگ پر دراز تھی۔ ذرا سی بھی تو نہیں بدلی تھی، وہی شخصیت، وہی سراپا، آنکھیں کھلی ہوئی تھیں شاید کسی اور دنیا کے نظارے میں مشغول۔ اور میں ذہنی طور پر برسوں پہلے کے زمانے میں پہنچ گئی اور میں نے اس کے کان کا پاس منہ لے جا کر وہی پرانا زمانہ اسے یاد دلانا شروع کر دیا۔ کیسے ہم ایک جابر آمر کے خلاف سرگرم عمل تھے، کیسے پریس کلب میں جلسوں میں کھل کر باتیں ہوتی تھیں۔ وہ بے حس و حرکت لیٹی سنتی رہی۔ جی بھر کے باتیں کرنے کے بعد میں کمرے سے باہر نکل آئی۔ ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھی ہی تھی کہ ایک چیخ سنائی دی، کچھ دیر تک رونے کی آواز آئی اور پھر خاموشی چھا گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments