ٹرمپ کی جیت اور حکمرانی غبارے سے نکلتی ہوا


 

کہتے ہیں کہ سیاست کے میدان میں کوئی جیتے یا ہارے، اصول کی بات یہ ہے کہ ہر حکومت کو اپنی زمین پر اپنے اصولوں پر کھڑا رہنا چاہیے۔ امریکی سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار کسی سے چھپا نہیں۔ اس کی جیت اور شکست کو ایک خاص طبقہ دنیا بھر میں اپنی اپنی امیدوں اور خوابوں کے سائے میں دیکھتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کسی دوسرے ملک کے حکمران کی جیت یا ہار پر پاکستانی سیاستدان اور عوام کو بھی اپنے مستقبل کا خاکہ باندھنا چاہیے؟ خاص کر پاکستان جیسی ریاست کو جہاں اپنے ہی مسائل کا بھاری بوجھ ہے، کیا ہمارے سیاست دان اور عوام کو اتنا حساس ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کی سیاسی کامیابیوں یا ناکامیوں کو اپنی بقا اور کامیابی سے جوڑیں؟

پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی نے ایک انقلابی تحریک کا انداز اختیار کیا۔ اس جماعت کے کارکنان، جنہیں ’انصافین‘ کہا جاتا ہے، اپنے لیڈر عمران خان کو ایک مسیحا کی طرح دیکھتے ہیں۔ عمران خان کی رہائی یا ان کی قید پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن چکی ہے۔ حالیہ امریکی انتخابات میں ٹرمپ کے جیتنے کی خبر جیسے ہی منظرِ عام پر آئی، پاکستان میں ایک طبقہ خصوصاً پی ٹی آئی کے کارکنان خوشی سے جھومنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ ٹرمپ کی کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کو بھی رہائی مل جائے گی اور ان کی راہیں آسان ہو جائیں گی۔

مگر اس صورتحال میں ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ امریکہ میں صدر کوئی بھی ہو، امریکہ کی خارجہ پالیسی کے اصول اور نظریات اتنے جلدی نہیں بدلتے۔ ڈیموکریٹس ہوں یا ریپبلکنز، امریکہ کی خارجہ پالیسی میں پاکستان ایک مخصوص مقام پر کھڑا ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کی پالیسیاں اپنے مخصوص مفادات کی بنیاد پر چلتی ہیں اور پاکستان کو ہر صورت میں اپنی پالیسیاں اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر تشکیل دینی ہوں گی۔

غیر ملکی سیاست اور پاکستان کی خارجہ پالیسی، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی جانب سے کوئی نئی حمایت یا مخالفت ایک رات میں کسی ملک کے داخلی مسائل حل یا مزید خراب نہیں کر سکتی۔ ہماری حکومتیں چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہوں، ایک بار کامیاب ہو جائیں تو ان کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملکی مسائل اور معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ مگر یہاں المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اکثر دوسرے ممالک کے انتخابات کو اپنے مفاد یا اپنی شکست و فتح کے پیمانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہو یا اندرونِ ملک کی حکومتی پالیسی، اسے کسی اور ملک کی سیاسی تبدیلی سے اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ایک خاص تعداد اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ اگر امریکہ میں کوئی ایسا شخص برسرِ اقتدار آ جائے جو ان کے لیڈر کے قریب ہو یا ان کی حمایت کرے، تو پاکستان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ اور انہیں کی یہ بھی سوچ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ کسی دوسرے ملک کے حکمران کا اثر ہمارے ملکی سیاسی اور عدالتی نظام پر پڑ سکتا ہے۔ کیا واقعی ہمیں اپنے حکومتی اور عدالتی امور میں کسی دوسرے ملک کی جیت و شکست کو ایک اہمیت دینی چاہیے؟

سچائی تو یہ ہے کہ جب کوئی خود مختار ملک دوسرے ممالک کی سیاست کو اپنی قومی پالیسی کا محور بناتا ہے، تو یہ اس کے سیاسی نظام کی ناکامی کی دلیل ہوتی ہے۔ ایک مضبوط ملک وہی ہوتا ہے جو اپنی پالیسیوں کو اپنے مسائل کی روشنی میں دیکھتا ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک کے حالات یا ان کی خارجہ پالیسیوں کے مطابق۔

اگر کبھی کوئی ایسی صورتحال پیدا ہو کہ کوئی یہودی نواز شخص عمران خان کی رہائی کا ذریعہ بنے تو کیا پی ٹی آئی کے کارکنان اس شخص کی حمایت کو جائز سمجھیں گے؟ کیا وہ اپنی نظریاتی حدود کو برقرار رکھتے ہوئے، کسی ایسی شخصیت کے تعاون کو قبول کریں گے جس کے نظریات اور عقائد ان کے اپنے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے؟ یا پھر وہ محض اپنی اندھی عقیدت کی بنیاد پر ہر اس مدد کو قبول کر لیں گے جو ان کے رہنما کے حق میں ہو، چاہے وہ کسی بھی طرف سے آئے؟ یہ سوال اہم ہے کیونکہ سیاست میں اصولوں پر قائم رہنا ہی اصل کامیابی کی علامت ہے، اور اپنے اصولوں کی قربانی دینے والے کبھی بھی حقیقی معنوں میں ایک مضبوط قوم یا جماعت نہیں بن سکتے۔

یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں کوئی بات مستقل نہیں ہوتی، مگر اصولوں پر سمجھوتہ کرنے والے سیاستدانوں کو ووٹ دینے والے ووٹرز کو اب یہ ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان اب مزید غیر ذمہ دارانہ رویوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ سیاست میں اصولوں کی پاسداری ہی اصل کامیابی کی دلیل ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں عمران خان ایک ایسا نام ہے جس نے لوگوں کے دلوں میں انصاف، خودداری اور جمہوریت کی شمع روشن کی ہے، مگر اندھی تقلید، خواہشات کی بنا پر فیصلے، اور خارجی امیدوں پر خواہشوں کے محلات کی بنیاد رکھنا کسی بھی قوم کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments