موسمیاتی تبدیلیاں اور نئی امریکی پالیسی کے خدو خال
بالآخر ٹرمپ صدر بن گئے۔ انہیں ایک تاریخی جیت کی مبارک ہو۔ تاہم دنیا بھر کے ماحولیاتی کارکنان کے لیے یہ ایک خوشخبری نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی نے گزشتہ کئی دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ 1990 کی دہائی سے ہی یہ جماعت ماحول کے بجائے معیشت اور توانائی کی خود کفالت کو زیادہ ترجیح دیتی رہی ہے۔ ریپبلکن پالیسیوں کا زیادہ تر زور روایتی توانائی جیسے کہ تیل اور گیس کے استعمال پر ہے، اور یہ پارٹی ان صنعتوں کے لیے حکومتی ضابطوں میں نرمی اور مالی امداد فراہم کرنے کی حامی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ تیل اور گیس کی کمپنیاں ریپبلکن پارٹی کو بھاری چندے دیتی ہیں۔ ڈیموکریٹس کی طرف سے منظور کردہ انفلیشن ریڈکشن ایکٹ (جس کا مقصد قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا ہے ) کی ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی میں کھل کر مخالفت کی ہے اور اپنے دوسرے دور حکومت میں اس کو منسوخ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اگر یہ قانون منسوخ ہوتا ہے تو امریکہ کی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف بیشتر حکومتی کوششیں ختم ہو جائیں گی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی مشکل ہو جائے گی۔
ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ نے پیرس معاہدے سے انخلاء کیا تھا، جس سے دنیا بھر میں تشویش پیدا ہوئی تھی۔ یہ معاہدہ 196 ممالک کے درمیان طے پایا تھا جس کا مقصد دنیا کے درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے نیچے رکھنا ہے، تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو کم کیا جا سکے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ ہدف پورا نہ ہوا تو عالمی معیشت، ماحول اور معاشرت میں شدید بحران پیدا ہو سکتا ہے، اور قحط سالی، سیلاب، اور شدید موسمی تبدیلیاں عام ہو جائیں گی۔ 2021 میں صدر جو بائیڈن نے امریکہ کو دوبارہ پیرس معاہدے میں شامل کر کے عالمی موسمیاتی کوششوں کو مضبوط بنایا، مگر اب ٹرمپ انتظامیہ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ عین ممکن ہے کہ امریکہ دوبارہ اس معاہدے سے نکل جائے۔ اگر ایسا ہوا تو چین اور بھارت جیسے بڑے ممالک بھی اپنے موسمیاتی اہداف پر نظر ثانی کر سکتے ہیں، جس سے عالمی موسمیاتی کوششوں کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔
اپنے پہلے دور حکومت کے چار سال کے دوران، ٹرمپ انتظامیہ نے بہت سی اہم ماحولیاتی پالیسیوں کو بالکل ہی ختم کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے صاف ہوا، پانی، جنگلی حیات اور زہریلے کیمیکلز سے متعلق کئی اہم امریکی قوانین کو واپس لے لیا تھا یا ان میں نرمی کر دی تھی۔ حال ہی میں نیویارک ٹائمز نے ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے جو ہارورڈ لاء اسکول، کولمبیا لاء اسکول اور دیگر ذرائع کی تحقیق پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی صدارت کے پہلے دور میں تقریباً 100 ماحولیاتی قوانین کو سرکاری طور پر تبدیل کیا گیا، منسوخ کیا گیا یا واپس لے لیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زیادہ ممکنہ قوانین پر نظرثانی کا عمل جاری تھا لیکن انتظامیہ کی مدت کے اختتام تک انہیں حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ لہٰذا اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بن جانے کی وجہ سے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے اور ماحول کے تحفظ کی امریکی اور بین الاقوامی کوششیں متاثر ہوں گی۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی حمایت ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے عہدے کے بعد کے حالیہ چند سالوں سے نمایاں طور پر بڑھی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے رہنماؤں نے اس بات کا برملا اقرار کیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی اور صاف توانائی کی ترقی سے ان کی معیشتیں مضبوط ہو رہی ہیں اور مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لیے چین نے ملک کے اندر ہوا، شمسی توانائی اور بیٹری مینوفیکچرنگ میں اور بین الاقوامی سپلائی چینز اور منڈیوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ پیرس معاہدے سے نکلتے ہیں، تو اس سے صرف امریکہ کے اثر و رسوخ میں کمی آئے گی اور دوسرے ممالک کو ترقی پذیر صاف توانائی کی معیشت میں سبقت حاصل ہو سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات ریپبلکن پارٹی کو اکثریتی ووٹ ملنے والی امریکی ریاستوں جیسے کہ فلوریڈا پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ جہاں حالیہ طوفان اور سیلاب سے لوگوں کے گھروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، جس سے عوام میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا شعور بڑھ رہا ہے۔ چاہے وہ سائنس کو تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ قدرتی آفات انہیں یہ باور کروا رہی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے۔ اسی طرح امریکہ میں قابل تجدید توانائی جیسے کہ شمسی اور ہوائی توانائی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور کم تر لاگت نے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو مالی طور پر غیر مفید بنا دیا ہے۔ اگرچہ حکومتی پالیسی میں تبدیلیاں آئیں تو بھی یہ مارکیٹ کا رجحان اخراج میں بتدریج کمی کرتا رہے گا۔ تاہم موسمیاتی اہداف کے مطابق تبدیلی کے لیے بڑے حکومتی اقدامات ضروری ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے موجودہ تناظر میں، عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اور اس کے منفی اثرات، جیسے شدید گرمی کی لہریں، سمندری طوفان اور بڑھتی ہوئی سمندر کی سطح، بین الاقوامی برادری کے لیے فوری چیلنج بن چکے ہیں۔ امریکی پالیسی میں تبدیلیاں، خاص طور پر ریپبلکن اور ڈیموکریٹک جماعتوں کے اختلافات، ان عالمی چیلنجوں پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ تاہم یہ بات اب ایک مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت بن کر سامنے آ چکی ہے کہ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ کی موجودہ موسمیاتی پالیسی میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں جس سے بین الاقوامی تعاون اور اہداف متاثر ہو سکتے ہیں۔
برطانوی جریدے گارڈین کی اینوائرنمنٹ ایڈیٹر فیونا ہاروی کے الفاظ میں ”دنیا کی سب سے بڑی معیشت، امریکہ، جو بائیڈن کی جانب سے فروغ دی گئی صاف توانائی پر توجہ مرکوز کرنے کی پالیسیوں سے ہٹ کر ڈونلڈ ٹرمپ کی“ ڈرل، بے بی، ڈرل ”پالیسیوں کی طرف جانے والی ہے، یہ بات اقوام متحدہ کی کوپ 29 ماحولیاتی کانفرنس میں ہزاروں مندوبین کے درمیان اہم گفتگو کا موضوع ہوگی۔ تاہم بہت سے لوگ یہ بھی نشاندہی کریں گے کہ کسی بھی ملک نے اتنا تیل اور گیس پیدا نہیں کی جتنی کہ اب امریکہ کر رہا ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں 20 فیصد زیادہ تیل اور گیس کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ نئے لائسنس جاری کرنے کی یہ اتنی ہی تعداد ہے جتنے کے ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران کیے گئے تھے۔
ماحولیاتی حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی سطح کی کوششوں کو سب سے زیادہ خطرہ حکومتی پالیسیوں (بشمول امریکہ ) سے نہیں بلکہ ان پالیسیوں پر اثر انداز ہونے والی فوسل توانائی کی پیداوار سے منسلک دنیا کی امیر ترین کمپنیوں سے ہے۔ حکومتی پالیسیوں پر فوسل توانائی کی کمپنیوں کی لابنگ کس طرح اثرانداز ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ 1989 میں امریکی صدر جارج بش نے اپنی صدارت کی شروعات قابل تجدید توانائی کی حمایت کے عزم کے ساتھ کی تھی تاکہ فوسل فیول کے باعث ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹا جا سکے۔ تاہم اپنی مدت کے اختتام تک وہ نہ صرف اس عزم سے دستبردار ہو چکے تھے بلکہ انہوں نے فوسل فیول لابی کے موقف کو دہراتے ہوئے ماحولیاتی سائنس پرہی شک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔
لہٰذا یہ بالکل واضح ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے سے عالمی ماحولیاتی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ ان کی ریپبلکن پارٹی ماضی میں ماحولیاتی تبدیلی کے اقدامات کی مخالفت اور روایتی توانائی جیسے تیل و گیس کی حمایت کرتی رہی ہے، جبکہ بائیڈن کے دور میں امریکہ نے قابل تجدید توانائی کی پالیسیوں پر کام کیا تھا۔ ٹرمپ کی ممکنہ واپسی سے پیرس معاہدے سے دوبارہ انخلاء اور ماحولیاتی قوانین میں نرمی کے امکانات ہیں، جس سے عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور اس کے خطرناک اثرات سے نمٹنے کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ فوسل فیول کمپنیوں کی لابنگ اور حکومتی پالیسیوں پر ان کا اثر بھی ماحولیاتی اقدامات کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
- باکو میں موسمیاتی ایجنڈے کا تماشا - 24/11/2024
- موسمیاتی تبدیلیاں اور نئی امریکی پالیسی کے خدو خال - 10/11/2024
- ابدی بہار کے خواب اور ماحولیاتی تباہی - 05/01/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).