کیا ٹرمپ غزہ میں جنگ بند کرا سکیں گے؟
قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی سے اجتناب کرنے کا اعلان کیا ہے کیوں کہ اس کے خیال میں فریقین کسی امن معاہدے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ مصر اور امریکہ بھی جنگ بندی کی کوششوں میں شامل رہے ہیں لیکن قطر نے ہمیشہ اس بارے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دوحہ کا یہ اعلان ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی سیاست میں تبدیلی سے غزہ میں اسرائیل جنگ جوئی ختم ہو سکے گی؟
ڈونلڈ ٹرمپ یوں تو خود کو جنگ مخالف لیڈر کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کے حامیوں کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بند کرا دیں گے۔ لیکن یہی عناصر مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جنگ جوئی کے بارے میں ایسی پیش گوئی کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس دوران سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب جیتنے کے بعد سے ان کے ساتھ تین بار فون پر رابطہ کیا ہے اور طویل گفتگو کی ہے۔ اسرائیل میں ٹرمپ کی کامیابی کا وسیع طور پر خیر مقدم بھی کیا گیا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق اسرائیل کے دو تہائی باشندے ٹرمپ کو کاملا ہیرس کے مقابلے میں اسرائیل کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج سامنے آنے کے بعد اسرائیل سے خوشی منانے اور ٹرمپ کی کامیابی کا خیر مقدم کرنے کی خبریں بھی موصول ہوئی تھیں۔
اسرائیلی حکومتی اتحاد نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے لیے خوش آئند کہا تھا۔ نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ٹرمپ کی وہائٹ ہاؤس واپسی سے دونوں ملکوں کے درمیان روابط مستحکم ہوں گے‘ ۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعتیں اور مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی تنظیمیں بھی کرتی رہی ہیں۔ ان سب لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ حکومت جنگ بندی کے لیے دباؤ نہیں ڈالے گی اور اسرائیل کو امریکہ کی طرف سے مزید عسکری و سیاسی امداد فراہم ہو سکے گی۔ ٹرمپ اگرچہ اسرائیل کے قریبی دوست کی شہرت رکھتے ہیں اور سابقہ دور صدارت میں انہوں نے بیت المقدس کو اسرائیل کا باقاعدہ دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں بسانے کو بھی اسرائیل کا جائز اقدام قرار دیتے رہے ہیں۔ حتی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے گولان پہاڑیوں کے مقبوضہ علاقے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا حق تسلیم کر لیا تھا۔ تاہم غزہ میں ایک سال سے زیادہ مدت سے جاری جنگ اور شدید جانی و مالی نقصان کے تناظر میں ٹرمپ کی حکومت کے لیے اسرائیلی جنگ جوئی کی حمایت جاری رکھنا آسان نہیں ہو گا۔ ایسے کسی اقدام کو ٹرمپ کے ان وعدوں کے تناظر میں جانچا جائے گا کہ وہ جنگ بند کرانے کا اعلان کرتے ہوئے اقتدار سنبھال رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جولائی میں دورہ امریکہ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اس بات چیت سے شناسائی رکھنے والے لوگوں کا بتانا تھا کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو سے کہا تھا کہ وہ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں تیزی سے کارروائی کرتے ہوئے حاصل کر لیں۔ ان کی خواہش ہوگی کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو اسرائیل جنوری میں ان کے صدر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے پہلے اپنے اہداف حاصل کر کے جنگ بند کردے۔ لیکن موجودہ حالات میں شاید جنگ بند کرنا صرف اسرائیل کے ہاتھ میں نہ ہو۔ اس کے لیے حماس اور حزب اللہ کا متفق ہونا بھی ضروری ہو گا۔ قطر کی طرف سے ثالثی میں تعطل کے اعلان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی فریق جنگ بندی کے کسی سنجیدہ معاہدہ میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ آئندہ دو ماہ کے دوران یہ صورت حال صرف اسی صورت میں تبدیل ہو سکتی ہے اگر اسرائیل حماس اور حزب اللہ کو مکمل طور سے تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے اور اسرائیل کے یرغمال کیے ہوئے شہریوں کو رہا کرا لیا جائے۔ یرغمال شدہ اسرائیلیوں کے اعزہ کی طرف سے مسلسل جنگ بندی اور قیام امن کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی تل ابیب میں ان لوگوں نے بڑا مظاہرہ کیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ جنگ بند کر کے یرغمالیوں کو واپس لائے۔
اسرائیل البتہ اپنی تمام تر عسکری طاقت اور مکمل امریکی امداد کے باوجود غزہ میں مکمل کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ ایک سال سے زیادہ مدت تک ایک چھوٹے سے محصور علاقے کو بار بار تباہ کرنے اور شہریوں کو ہر قسم کی سہولتوں سے محروم کرنے کے باوجود غزہ سے مزاحمت مکمل طور سے ختم نہیں کی جا سکی۔ یعنی اسرائیل کی خواہش کے مطابق حماس کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ اور نہ ہی اسرائیلی فوج غزہ میں اپنے یرغمالی شہریوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تو کیا ٹرمپ کی خواہش کے مطابق اسرائیل اب تیزی سے جنگ سمیٹنے اور یرغمالیوں کو واپس لانے میں کامیاب ہو جائے گا؟ اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ اس نے حماس اور حزب اللہ کے اہم لیڈروں کو ہلاک کر دیا ہے، اس لیے اب حماس اور حزب اللہ کی مزاحمت دم توڑ جائے گی اور اسرائیل اپنی مکمل کامیابی کا اعلان کرسکے گا۔ خاص طور سے گزشتہ ماہ کے وسط میں حماس کے اولو العزم لیڈر یحییٰ سنوار کی ہلاکت کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ اب اسرائیل کے لیے جنگ سمیٹنا آسان ہو جائے گا۔ اسی لیے امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کی نئی امید پر وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو ایک بار پھر مشرق وسطیٰ بھیجا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اب جنگ بندی کا ایک نیا موقع حاصل ہوا ہے۔ البتہ یہ امید بر نہیں آئی۔
اس سے پہلے اسرائیل نے پیجر اور واکی ٹاکی حملوں میں حزب اللہ کی چین آف کمانڈ سے وابستہ متعدد لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے حملوں میں حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ اور ان کے ممکنہ جانشین ہاشم سیف الدین کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد اس امید پر جنوبی لبنان پر چڑھائی کی گئی تھی کہ حزب اللہ کی کمر توڑی جا چکی ہے اور اب ان کی باقی ماندہ قوت ختم کر کے لبنان کی طرف سے ہونے والی مزاحمت کا خاتمہ کر دیا جائے تاکہ غزہ میں حماس کمزور پڑ جائے۔ البتہ یہ حکمت عملی فی الوقت پوری طرح کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔ یوں لگتا ہے کہ اعلیٰ قیادت کے ہلاک ہونے کے بعد حزب اللہ اور حماس میں دوسرے درجے کے لیڈر زیادہ عزم و حوصلہ سے مقابلہ کرنے اور اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ صورت حال جاری رہتی ہے تو ٹرمپ کی خواہش کے مطابق 20 جنوری تک اسرائیل کی جنگ جوئی بند ہونے کا امکان نہیں ہے۔ صدارت سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو جن عالمی مسائل سے نمٹنا پڑے گا، ان میں غزہ اور لبنان کی جنگ سر فہرست ہوں گی۔
اسرائیل کے لیے ٹرمپ کی وارفتگی اور ایران کے بارے میں ان کے معاندانہ خیالات کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ اس بات کا مکان موجود ہے کہ اگر ٹرمپ کے دور صدارت میں اسرائیل و ایران کے درمیان ایک بار پھر براہ راست تصادم ہوا تو ٹرمپ کی حکومت جو بائیڈن انتظامیہ کے برعکس اسرائیل کو ایران کے جوہری ٹھکانوں پر حملے کرنے کی اجازت دے دے گی۔ اگرچہ اسرائیل اور ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہو گا کہ ایران پر شدید حملہ سے اسے گھٹنے ٹیکنے اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم کرنے کا راستہ ہموار کیا جا سکے گا۔ البتہ بائیڈن کی حکومت کا تجزیہ مختلف تھا۔ اسی لیے اس نے اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ ایران کے ساتھ بدلہ چکاتے ہوئے تیل کی تنصیبات اور جوہری ٹھکانوں پر حملے نہ کرے تاکہ یہ تصادم کسی بڑی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ البتہ جنگ چونکہ مسلسل جاری ہے اور اسرائیل و ایران بدستور ایک دوسرے کو تباہ کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے رہتے ہیں، اس لیے مستقبل قریب میں ایک بار پھر تصادم کی ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جب یہ دونوں ملک یاک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہوں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ بھی جو بائیڈن کی طرح اسرائیل کو تحمل پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہیں گے یا امن کے لیے اپنے دعوؤں کے برعکس ٹرمپ حکومت اسرائیل کی سرپرستی میں مشرق وسطیٰ میں بھیانک اور تباہ کن جنگ کا سبب بنے گی؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ مخالف بیانیہ بنانے کے باوجود صرف روس یوکرین جنگ بند کرانے کی واضح بات کی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق انہوں نے کوئی دو ٹوک بیان نہیں دیا ہے۔ یوں بھی ڈونلڈ ٹرمپ خود کو اپنے کسی بیان یا وعدے کا پابند محسوس نہیں کرتے اور وہ اپنی سیاسی سہولت کے لیے کسی بھی وقت موقف تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران وہ بائیڈن حکومت پر جنگ بندی نہ کرانے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اسرائیل کو جارحیت ختم کرنے کا مشورہ نہیں دیا بلکہ ایک سے زیادہ بار نیتن یاہو سے یہ کہا کہ وہ جلد از جلد اپنے اہداف حاصل کریں، جنگ کو طول نہ دیں کیوں کہ اس سے دنیا میں اسرائیل کی بدنامی ہوتی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں مزاحمت کے مکمل خاتمہ کے لیے مسلسل ظلم کا سلسلہ جاری رکھنے کے علاوہ کیا اقدام کر سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب جیتنے کے بعد سے عرب ممالک کی طرف سے ابھی تک کوئی واضح اشارے سامنے نہیں آئے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے البتہ سعودی دارالحکومت ریاض میں مسلمان ممالک کا سربراہی اجلاس طلب کیا ہے۔ اس اجلاس میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر غور کیا جائے گا اور امریکی انتخابات کے بعد غزہ میں جنگ بند کرانے اور فلسطینیوں کے حق خود اختیاری کے حوالے سے حکمت عملی سامنے آئے گی۔ اس قسم کے اجلاس اگرچہ رسمی ہوتے ہیں لیکن امریکہ میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اس سربراہی اجلاس کو اہمیت حاصل ہوگی۔ مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کسی بھی امریکی حکومت کے لیے ضروری ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ سعودی عرب کی قیادت میں اہم عرب ممالک خود کیسے اپنے سفارتی موقف اور سیاسی و معاشی حیثیت کے بارے میں نئی امریکی حکومت کو آگاہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
اس بات میں تو شبہ نہیں ہے کہ ٹرمپ کی حکومت کسی بھی دوسری امریکی حکومت کی طرح اسرائیل کی غیر مشروط حمایت جاری رکھے گی۔ البتہ عرب ملکوں سے وابستہ مفادات، جنگ کے خطرات سے بچنے کی خواہش اور تنازعات کو امن سے حل کرنے کے ایجنڈے کے پیش نظر دیکھنا ہو گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی حمایت جاری رکھتے ہوئے اسے کیسے جنگ بند کرنے اور مشرق وسطیٰ میں کسی پائیدار امن منصوبے کا حصہ بننے پر آمادہ کرتے ہیں۔ سابقہ دور کی طرح اگر انہوں نے یک طرفہ طور سے اسرائیل کی پشت پناہی اور اس کے ناجائز مطالبے پورے کرنے کا طریقہ اختیار کیا تو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی امید کرنا مشکل ہو گا۔
- للکارنے کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے! - 04/12/2024
- تحریک انصاف کا مصالحانہ رویہ: حکومت جارحیت سے باز رہے - 03/12/2024
- تشدد سے سیاسی استحکام نہیں آ سکتا! - 01/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).