البانیہ یورپ میں ویٹیکن طرز پر بکتاشی صوفی سلسلہ کی اسلامی ریاست قائم کرنے کی تجویز
بکتاشی جو کہ اصل میں لفظ بختاشی ہے، تیرہویں صدی میں ترکی کے علاقہ اناطولیہ سے آغاز ہونے والا ایک سنی صوفی سلسلہ تھا جو کہ سولہویں صدی تک اکثر شیعہ عقائد اپنا چکا تھا۔ مگر اس کے باوجود بکتاشی تمام صحابہ سے یکساں محبت اور احترام کے دعویدار ہیں۔ عثمانی سلطنت میں انہوں نے وسعت پائی مگر مشکل وقت بھی آئے۔ ان کے ہاں باقاعدہ درویشی سلسلہ ہے اور خانقاہوں کو تکیہ کہا جاتا ہے۔ درویشوں کا مربوط نظام ہے جو اپنے سلسلے کو جوابدہ ہوتا ہے۔
آگے چلتے ہوئے یہ مسیحی اور علاقائی عقائد اور رسم و رواج کو بھی اپناتے گئے۔ تمام انبیاء کو مان کر ان کی پیروی کا کہتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں، سور نہیں کھاتے۔ دو نمازیں زائد پڑھتے ہیں، کل انسانیت کے لیے۔ مگر دیگر مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ آزاد خیال، صلح جو ، اسلام کے تمام فرقوں بلکہ دیگر مذاہب کے ساتھ بھی یکساں احترام کے ساتھ محبت اور رواداری کے قائل ہیں۔
وحدت ادیان کے عقیدے کو خاص مقام دیتے ہیں۔ حضرت ابن عربی، امام غزالی اور حضرت رومی کا ان کے ہاں بہت درجہ ہے۔ مرشد کو لازمی سمجھتے ہیں اور اسے ”بابا“ کہتے ہیں۔ اس فرقہ کے آٹھویں مرشد اعلی آج کل ”بابا موندی“ ہیں جو البانیہ میں مقیم ہیں اور دنیا بھر کے دو کروڑ سے زائد بکتاشی ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ بکتاشیوں کی ایک کروڑ سے زیادہ تعداد ترکی میں مقیم ہے۔ البانیہ کی 27 لاکھ آبادی میں 60 فیصد یعنی تقریباً 16 لاکھ مسلمان ہیں اور ان میں سے 20 فیصد بکتاشی ہیں۔
دیگر صوفی سلسلوں کی مانند اپنے پیروکاروں کو مرشد جسے یہ بابا کہتے ہیں کی راہنمائی میں، شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت کا سفر کرنا ہوتا ہے۔ پہلے درجہ والے کو عاشق کہا جاتا ہے، پھر محب کا مقام اتا ہے، تیسرا درجہ درویش ہونے کا ہے۔ درویش ترقی کر کے بابا بنتا ہے۔ جو کہ عمومی طور پر ایک مخصوص علاقہ یا تکیہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ”دادا بابا“ کا مقام آتا ہے اور یہ دادا بابا ہی تمام بکتاشی فرقہ کا سربراہ کہلاتا ہے جو کہ آج کل بابا موندی ہیں۔
یہ سب تو ہوا عمومی تعارف۔ دوست مزید تحقیق خود کر سکتے ہیں جو بہت دلچسپی کا باعث بنے گی۔ اب آتے ہیں اس مجوزہ بظاہر خودمختار مسلمان صوفی ریاست کی جانب جو کہ یورپ کے ملک البانیہ میں مسیح ویٹیکن اسٹیٹ کی طرز پر بننے جا رہی ہے۔ میرے خیال سے یہ ایک دوررس ڈیویلپمنٹ ہے۔ کچھ سالوں سے جس صوفی اسلام کو ڈول برصغیر پاک و ہند میں ڈالا جا رہا تھا اس کا عملی اظہار یورپ میں ہونے جا رہا ہے۔ ایک ایسا قابل قبول مذہبی اظہار جو کسی قسم کے سیاسی معاشی مقاصد سے قطع تعلق کر کے عالمی قابل قبول ”اخلاقیات“ کے ساتھ مغرب کی سرپرستی اور قبولیت کے ساتھ سامنے آ ریا ہے۔ ایک ایسا صوفی سلسلہ جو مکمل طور پر آزاد خیال ہے، خود کو سنی کہتا رہا ہے مگر مکمل شیعہ رسم و رواج کی پیروی کرتا ہے۔ اور اگر درست پروموشن ملے تو دنیا بھر کے بہت سے شیعہ سنی ذہنوں کو متاثر اور متوجہ کر سکتا ہے۔
مجوزہ خودمختار اسلامی ریاست کے اعلان کے بعد ایک انٹرویو میں بکتاشی لیڈر بابا موندی نے کہا کہ نئی ریاست میں شہریت صرف سلسلہ سے منسلک علما اور ریاست کے انتظامیہ میں مصروف افراد تک محدود ہوگی، جیسا کہ ویٹیکن سٹی میں شہریت کا ڈھانچہ ہے۔ انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ خودمختار حیثیت حاصل کرنے سے بختاشی سلسلہ کی قبولیت میں واضح اضافہ ہو گا۔ مسلم دنیا اور بین الاقوامی برادری کو متاثر کرنے والے بنیاد پرست نظریات سے لڑنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور اسلام کا اصل معتدل چہرہ سامنے آئے گا۔ پاسپورٹ کو سبز رنگ کا بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جو اسلام میں ایک گہرا علامتی رنگ ہے۔
بابا موندی نے اس اعلان کے کچھ ہی عرصے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ بہت سے ممالک، خاص طور پر جو مذہبی انتہا پسندی یا تناؤ کے نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں، بکتاشی سلسلہ جیسی پرامن اور اعتدال پسند اسلامی تحریکوں کی حمایت کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک اسلام کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اعتدال پسند تشریحات کو تقویت دینے کے لیے بکتاشی سلسلہ کی پرامن صوفی شیعہ روایت کی حمایت سے گراں قدر فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، انہوں نے تجویز پیش کی کہ چین جیسی، عسکریت پسند اسلام کے ساتھ اندرونی چیلنجوں کا سامنا کرنے والی ریاستیں تقسیم کو ہوا دیے بغیر، انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر بکتاشی سلسلہ کے ساتھ صف بندی کر سکتی ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ بہت جلد، بین الاقوامی برادری اعتدال پسند آوازوں کو بڑھانے کے فوائد کو تسلیم کرے گی اور بختاشی سلسلہ کی خودمختار مسلم ریاست کو امن، رواداری اور مکالمے کو فروغ دینے کی عالمی کوششوں میں ایک قابل قدر شراکت دار کے طور پر دیکھے گی۔
70 کی مذہبی شدت پسندی کو اکیسویں صدی کی ”روشن خیالی“ میں یورپ سے ترکی اور ترکی سے ایران و عرب تک یکساں توجہ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے اور عوام کے قلبی روحانی تشفی کے لیے ایک ایسی قابل قبول مذہبی شکل دی جا رہی ہے جہاں رند کے رند رہنے کے باوجود جنت کی بھی بشارت موجود ہے۔ رہ گیا برصغیر پاک و ہند تو یہاں تو ہمیشہ ہی عرب و ایران کی محبت میں عقائد اور رسم و رواج اختیار کیے جاتے ہین۔
چند معلومات تھیں جو پیش کر دیں۔ باقی آپ مطالعہ کریں گے تو مزید بہت کچھ واضح ہو گا۔ شاید ان سب معلومات کے بعد یہ سوال تشنہ نہیں رہا کہ البانیہ میں صرف پانچ فیصد آبادی کے باوجود، وہ کیا اہم وجوہات ہیں جو انہیں اس قدر اہمیت دے کر ایک باقاعدہ ریاست اور ماڈل کی شکل دی جا رہی ہے، چاہے علامتی ہی سہی۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).