جنگ کے سائے میں
چیخوں اور دھماکوں کی آواز سے میرا سر پھٹا جا رہا ہے۔ اتنی بھیانک آوازیں ہیں کہ میرا دل اچھل کر باہر آ جائے، کبھی محسوس ہوتا ہے کہ دل نکل گیا ہے، بند ہو گیا ہے سب مگر قدرت مجھے آزاد نہیں کرنا چاہتی اور ایک باریک کانوں کے پردوں میں چھید کر دینے والی آواز ابھرتی ہے، کھڑکیوں میں سرخ روشنی چمکتی ہے تو خنجر پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتی ہوں۔ کالے دھویں کے بادل گروہ در گروہ مجھے اکساتے ہیں
ابو کبھی کبھی نظر آتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ کھانے یا زندہ رہنے کو تلاش کرتے ہیں جیسے منہ اندھیر جانور کھانا ڈھونڈنے نکلتے ہیں اپنے پلوں کو بلوں میں چھوڑ کر۔
مگر ہم جانوروں سے بدتر ہیں۔ کم از کم ان کی ماداؤں کو دوسرے جانور اٹھا کر نہیں لے جاتے، ان پر آگ کے گولے نہیں برساتے۔
امی کہتی تھی اللہ نے انسان کو سب سے اعلی مقام دیا ہے میں سوچتی ہوں کہ ہم اتنے ادنی کیسے بن گئے۔
امی بہت اچھی تھی پر وہ چلی گئی۔ ابو کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے پاس چلی گئی مگر جو ان کو لے کر گئے وہ تو بندوقیں لے کر آئے تھے، منہ پر نقاب تھے، وہ چیخ رہے تھے۔ درجنوں درندوں نے ابو کو اتنا مارا تھا کہ وہ رات گئے تک نہیں اٹھے، امی کو وہ گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے تھے، گھر کا ساز و سامان بکھیرتے ہوئے، امی نے میز کی ٹانگ پکڑی تھی جب اس نے بندوق کا پچھلا حصہ ان کی بازو پر مارا۔
موت کا فرشتہ ایسا ہوتا ہے؟
امی تو نیک خاتون تھی، وہ سب کا خیال کرتی، سب سے پیار کرتی تھی۔ موت کا قبضہ ہونے سے پہلے وہ پورے قصبے میں سویاں بانٹتی تھی۔
وہی سویوں کی چینی کی کولیاں وہ اٹھا کر پھینک رہے تھے، ننھے اور ابو کو بھی لگی تھی۔ میں الماری میں دبکی دیکھ رہی اور سسکیوں میں دعائیں کر رہی تھی۔ میری دعا قبول کیوں نہیں ہوئی؟ امی کہتی تھی سچے دل سے دعا کرو تو سنی جاتی ہے، میری کیوں نہیں سنی گئی؟
امی کو گھسیٹتے لے جا رہے تھے جب ان کا ہاتھ سبزی والے خنجر پر پڑا انہوں نے دبوچ کر چور نظروں سے میری طرف دیکھا، ان کی آنکھوں میں لمحہ بھر کے لئے میں جھانک سکی، وہ مجھے اور ننھے کو اتنی شدت سے گلے لگانا چاہتی تھی کہ ان کا لمس مجھے محسوس ہوا۔ وہ ہمیں یہاں سے لے کر بھاگنا چاہتی تھی، اسی شام میں جب ہم لکڑیاں اکٹھی کر کے گھر لوٹے تھے۔
جہاں اب لاشوں کا ڈھیر ہے وہاں مرغیاں چگا کرتی تھیں، ہمیں دیکھ کر مرغیاں چوزوں کو پروں میں لپیٹ کر پنجرے کو بھاگتیں، کاش امی کے بھی ایسے پر ہوتے اور وہ ہمیں چھپا کر اسی شام میں لے جاتی۔ ان آنکھوں میں تڑپ کی جگہ خوف نے لے لی، اس نے ایک آخری بار مجھے اور ننھے کو نگاہوں میں بھر کر ہمیشہ کے لئے اندھیرے کو گلے لگا لیا اور خنجر اپنی نبض پر پھیڑ دیا۔
فضا میں لال رنگ کی پھوار پھوٹی اور موت کے کارندے نے بندوق سے دھماکہ کیا، ابو اوندھے پڑے تھے، ننھا ان کی ٹانگ سے چپکا بس منجمد تھا۔ سب جام ہو گیا تھا، دھواں، غبار، نجانے کتنے گھنٹے میں ادھر رہی رات جب ننھے کی کراہ سنی اور ابو کی انگلیاں ہلتی نظر آئیں تو موت کے سائے میں زندگی کی رمق آئی۔ شکر ہے میں اکیلی نہیں تھی۔ اتنے موت کے کارندے صرف امی کو لے کر گئے تھے، وہ خنجر میں نے اٹھا لیا تھا۔
امی کمزور تھی شاید وہ نہیں لڑ سکی۔ اس نے کبھی کسی کو مارا ہی نہیں تھا، ابو بھی ظالم نہیں تھا سو مظلوم بن گیا۔ مگر میں ایسا نہیں کروں گی، میں طاقتور بنوں گی۔
جب ابو باہر کھانے کی تلاش میں نکلتا ہے میں شکار کی تلاش میں جاتی ہوں۔ لاشوں کے ڈھیر سے پہلے پہل چھوٹے اور اب بڑے شکار بھی نالے پر لے جاتی ہوں، خنجر وہیں دفن ہے، میں بہتر ہو رہی ہوں، شروع میں مشکل تھا مگر امی کہتی تھی ہارتا وہ ہے جو ہار مانتا ہے، میں نے ہار نہیں مانی، میں کمزور نہیں ہوں، مظلوم نہیں ہوں، میں ننھے اور ابو کو بچا لوں گی، میں خود کو نہیں موت کے کارندوں کو ختم کروں گی۔ مردار مارتے مارتے میں مردہ کرنا بھی سیکھ جاؤں گی۔
- جنگ کے سائے میں - 14/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).