گرین اکانومی : موسمیاتی تبدیلیاں اور سرمایہ دارانہ نظام


پچھلے کچھ برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں پر بڑے زور و شور سے بات ہو رہی ہے۔ سائنس دانوں سے سیاست دانوں تک ہر کوئی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی وجوہات اور ان کے سدباب پر اپنی رائے دے رہا ہے۔ عالمی ادارے اور حکومتیں کانفرنسیں کر رہے ہیں اور پروگرام چلا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان تمام سرگرمیوں میں ایک قسم کی منافقت، تکبر اور ہٹ دھرمی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالے ادارے پالیسیاں اور پیسہ بنا کر غریبوں کو الو بنا رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے بچنے کے نام پر ”گرین اکانومی“ واقعی سبز باغ کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ان موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ ترقی کا نظریہ ہے جسے کولمبیا یونیورسٹی کے مشہور مستشرق وائل حلاق نے ”عقیدۂ ترقی“ کا نام دیا ہے۔ ترقی کا عقیدہ یہ ہے کہ ماڈرن انسان مادی ترقی اور بہتری کے لیے کرۂ ارض کی ہر شے کا استحصال کر سکتا ہے۔ دنیا تباہ ہو جائے، زمین رہنے کے قابل نہ رہے، کوئی مسئلہ نہیں، ترقی کا سفر ہرگز رکنا نہیں چاہیے۔

واضح رہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ عقیدہ ”پراگرس“ اور ترقی پذیر ملکوں میں ”ڈویلپمنٹ“ کے نام سے موجود ہے۔ یہ عقیدہ اتنا خطرناک ہے کہ جرمنی میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات پر تحقیق کے لیے قائم کردہ ایک ادارے کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر وولف گنگ ساکس نے 2010 ء میں اپنی کتاب ”ڈویلپمنٹ ڈکشنری“ میں اس عقیدے سے ”مرتد“ ہو جانے کی درخواست کی ہے۔

تاہم ترقی یافتہ مغربی ملک اتنے راسخ العقیدہ اور کٹر ہیں کہ اس عقیدے سے منحرف ہونے کو ناممکن خیال کرتے ہیں۔ یہ کوئی الزام نہیں بلکہ سامنے کی چیز ہے جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے، بس اس کی نظر ٹھیک کام کرتی ہو۔ البتہ اگر کسی کو شبہ ہو کہ یہ محض الزام اور شدت پسندی ہے تو اسے سرمایہ دارانہ نظام کی تنقید پر لکھی جانے والی بے شمار کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب ہی پڑھ لینی چاہیے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ واضح دعویٰ کرتے ہیں کہ اس نظام کے علاوہ کوئی دوسرا نظام انہیں قبول نہیں۔ اس ڈھٹائی کے ہوتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں پر بحث مباحثہ اصل میں منافقت اور ایک نیا کاروبار ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کر کے سیارہ زمین کو ناقابل تلافی تباہی سے دوچار کر رہا ہے۔ اس تباہی کے نتائج غریب ملک اور عوام بھگتیں گے۔

حکومتی اور علمی حلقوں میں برملا اعتراف کیا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں روکنے کے لیے سب کو ذمہ داری لینی چاہیے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ موسمیاتی تباہی اور بحران کے اصل مجرم کون ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تمام تر ذمہ داری مغربی صنعتی ملکوں پر عائد ہوتی ہے لیکن وہ نہ صرف اس ذمہ داری کو قبول نہیں کرتے بلکہ اپنا صنعتی سفر حسبِ معمول جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کے ٹھیکے دار بنے یہ ملک ماحولیاتی بحران کے نتائج میں تو سب کو برابر اور مساوی ذمہ دار بتا رہے ہیں لیکن یہ چھپا رہے ہیں کہ یہ بحران ان کی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یورپی یونین کا ”کاربن ایڈجسٹمنٹ میکانزم“ اور اقوام متحدہ کے ”کاربن پرائسنگ“ اور ”کاربن فنانس“ کے تصورات اس منافقت اور کاروباری اپروچ کا ثبوت ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں روکنے کے دعوے دار کاربن ٹیکس، کاربن پرائسنگ اور فضائی آلودگی ٹریڈنگ جیسے طریقوں سے دنیا پر واضح کر رہے ہیں کہ جو دولت انہوں نے دوسری قوموں اور خطوں کے استحصال سے جمع کر لی ہے اس سے وہ اس کے بھیانک نتائج بے گناہوں تک منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ کاربن اور دوسری گیسوں کا اخراج جاری رکھیں گے کیونکہ وہ اس کام کا جرمانہ ادا کر سکتے ہیں۔ یہ دوسرے ملکوں کے لیے انتباہ ہے کہ ترقی کے سفر میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا۔

غریب ملکوں کے پاس تو وہ ٹیکنالوجی بھی نہیں ہے جو عالمی حرارت میں اضافہ کرتی ہے لیکن انہیں پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ گرین اور کلین ٹیکنالوجی اختیار کریں ورنہ بھاری قیمت ادا کریں۔ دوسری طرف ان ترقی یافتہ ملکوں نے توانائی کھپانے والی صنعتیں غریب ملکوں میں منتقل کر دی ہیں تاکہ مضر گیسیں ”برآمد“ ہو سکیں اور وہ خود ان کے اثرات سے بچے رہیں۔ ماحولیاتی تباہی کی قیمت پر بننے والی مصنوعات کا سب سے زیادہ حصہ ترقی یافتہ ملک ہی استعمال کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطابق عالمی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے پہلے والی سطح پر لانا ہے تو فوری طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج نصف کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ مصنوعات کی کھپت اور پیداوار میں پچاس فیصد کمی کرنا ہو گی اور اگر اتنی کمی ہو گئی تو قومی پیداوار اور شرح ترقی لازماً کم ہو جائے گی۔ یہ کمی کسی بھی ملک کو منظور نہیں۔ جی ڈی پی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہر ملک کی اولین ترجیح ہے۔ اسی لیے موسمیاتی تبدیلی پر بنے انٹرگورنمنٹل پینل کا تخمینہ ہے کہ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو درجہ حرارت کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ یہی منافقت ہے۔

ترقی کے پرستاروں کو خوب معلوم ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں فوری کمی کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ اگلے دس بیس برس تک کاربن کے اخراج میں کوئی اضافہ نہ ہو۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے کاربن پرائسنگ کے انتظامات مارکیٹ کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ اب یہ کسی سے مخفی نہیں کہ مارکیٹ سرمائے میں اضافے کے لیے سرمایہ داری کا بنیادی ادارہ ہے۔

عالمی ادارے سرمایہ دارانہ سوچ کے تحت کاربن ٹیکس لگانے پر کام کر رہے ہیں لیکن نا انصافی یہ ہے کہ کاربن ٹیکس غریب ملکوں سے بھی لیا جائے گا۔ کسی بھی ٹیکس سسٹم کی طرح یہاں بھی ٹیکس بچانے والے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لیں گے اور شامت غریب کی آئے گی۔ کاربن پرائسنگ کے تحت گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والے سزا کے مستحق ہوں گے لیکن اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ ان گیسوں کے اخراج سے متاثر ہونے والوں کا ازالہ اور مداوا کون کرے گا۔

مثلاً ایک کارپوریشن گرین ہاؤس گیس خارج کرتی ہے اور کاربن پرائسنگ کے مطابق اس کا جرمانہ بھی دے دیتی ہے تو کیا یہی انصاف ہے؟ اس اخراج سے عام لوگوں کی صحت پر ہونے والے مضر اثرات کی قیمت کا اندازہ کون لگائے گا؟ پھر یہ بھی اندازہ نہیں کہ کون کون سی صنعتیں کاربن خارج کر رہی ہیں اور ان سے کون کون متاثر ہو رہا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ مارکیٹ کی طرف راغب کرنے کے لیے کاربن پرائسنگ میں ڈسکاؤنٹ دینے کا پروگرام بھی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ صرف مارکیٹ کا دھندا ہے اور اس کا سماجی بہبود یا عام لوگوں کی صحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا سبب بننے والے نظاماتی محرکات کا بھی کوئی ذکر نہیں بلکہ اسی نظام کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ روس یوکرائن جنگ میں روس کی مخالفت بڑھانے اور یقینی بنانے کے لیے حکومتوں کو فوسل فیولز میں سبسڈی دی گئی جس سے بہت سے ملکوں میں 2022 ء میں کاربن پرائسنگ منفی ہو گئیں۔ یورپ میں عالمی درجہ حرارت میں اضافہ بدستور جاری ہے بلکہ ماضی کی نسبت اس میں تیزی آئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب خود تو ترقی کے جہنم میں گرے گا، اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے جانے کا سفاک ارادہ رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments