سہیل اصغر: جو آدمی تھا ذرا وکھری ٹائپ کا


(رضی الدین رضی کی یاد نگاری)

یہ کم و بیش چالیس برس پرانی کہانی ہے۔ سال 1985ء اور مہینہ جون کا میں ملتان سے شمع ریل کار (جس کا نام بعد ازاں موسیٰ پاک ایکسپریس ہو گیا) پر لاہور جا رہا تھا ٹرین چونکہ ملتان سے ہی چلتی تھی اس لیے سیٹ بک کروانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ جیسے ہی ٹرین پلیٹ فارم پر آتی، ہم اپنے بیگ اٹھا کر اس میں سوار ہو جاتے اور کوئی بھی مناسب سیٹ سنبھال لیتے۔ میں اکثر کھڑکی کی طرف بیٹھتا تھا کہ گرمیوں کے موسم میں یہی نشست ”ہوادار“ ہوتی تھی۔ لاہور روانگی کا مقصد یہ تھا کہ مجھے معروف ناول نگار اور افسانہ نگار بشریٰ رحمن صاحبہ نے اپنے رسالے ”وطن دوست“ کے اجرا کے لیے بلایا تھا۔ اسی نام سے ان کا پبلشنگ ہاؤس بھی تھا جس کے زیراہتمام ان کے ناول اور دیگر کتابیں شائع کی جاتی تھیں۔ لاہور میں رہائش کہاں ہوگی؟ دفتر کیسا ہو گا؟ کھانے پینے کا نظام کیسے بناؤں گا؟ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا

 ”رضی صاحب کن سوچوں میں گم ہیں؟ کیا میں آپ کے سامنے والی نشست پر بیٹھ سکتا ہوں“

یہ سہیل اصغر صاحب کی آواز تھی۔ سہیل اصغر ملتان میں سٹیج ڈرامے کا بڑا نام تھا وہ صدا کار کے طور پر ریڈیو پاکستان ملتان کے ساتھ منسلک تھے۔ ان کے ہاتھ میں بھی ایک چھوٹا سا بیگ تھا جو انہوں نے اوپر سامان والی جگہ پر میرے سامان کے ساتھ ہی پھنسا دیا۔ سہیل اصغر کے ساتھ میری ملتان میں اچھی شناسائی تھی۔ ملتان آرٹس کونسل کا نوتعمیر شدہ ہال چونکہ میرے گھر کے قریب ہی تھا اس لئے میں اکثر سٹیج ڈرامے دیکھنے کے لیے وہاں چلا جاتا تھا۔

ٹرین میں پانچ گھنٹے کے سفر میں اگر کوئی شناسا مل جائے تو اس سے بھلا اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ سفر شروع ہوا تو ہماری گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم نے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کیا۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں روز گار کے سلسلے میں لاہور جا رہا ہوں تو سہیل اصغر نے بھی ملتان چھوڑنے کی وجہ بتا دی۔

 ”رضی بھائی ملتان چھوڑنے کو جی تو نہیں چاہتا لیکن کیا کروں اس شہر میں مجھ پر روزگار کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں میں لاہور اپنی قسمت آزمانے کے لیے جا رہا ہوں۔ اصغر ندیم سید صاحب نے مجھے کہا ہے کہ تم لاہور آ جاؤ۔ وہ پی ٹی وی کے لیے کوئی سیریل لکھ رہے ہیں شاید مجھے بھی موقع مل جائے“

سہیل اصغر نے یہ بھی بتایا کہ ریڈیو پاکستان ملتان کے سٹیشن ڈائریکٹر ناصر الیاس نے ان پر بلاوجہ پابندی عائد کردی ہے۔ ہم تمام راستے فنکاروں کی ناقدری پر گفتگو کرتے رہے، سٹیج اور ریڈیو کے دوستوں کا ذکر ہوتا رہا، فنکاروں کی باہمی چپقلش اور ادیبوں شاعروں کی گروہ بندیاں بھی زیر بحث آئیں۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور دس بجے شب ہم لاہور پہنچ گئے۔ ہم دونوں نے اپنا اپنا بیگ اٹھایا اور پلیٹ فارم کے ہجوم میں گم ہو گئے۔ مجھے لینے کے لیے سٹیشن پر سجاد بٹ موجود تھا۔ سجاد بٹ کا تعلق ملتان سے تھا وہ ایک خوش نویس کی حیثیت سے میرے ساتھ روزنامہ سنگ میل میں کام کرتا تھا اور مجھ سے پہلے لاہور منتقل ہو چکا تھا۔ سجاد نے شاہ نور سٹوڈیو کے سامنے محلہ سیدپور میں کرایہ پر ایک کمرہ لے رکھا تھا اور خود میو ہسپتال روڈ پر شادی کارڈز کی مارکیٹ میں خوش نویسی کرتا تھا۔ سہیل اصغر کے ساتھ پھر ایک طویل عرصہ ہماری ملاقات نہ ہوئی۔

دو، تین ماہ بعد شاید اگست یا ستمبر کا مہینہ تھا جب شاہ نور سٹوڈیو کے سامنے ایک ہوٹل پر میری اور قمر رضا شہزاد کی سہیل اصغر کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں سہیل اصغر ہمی بہت مایوس دکھائی دیے۔ لاہور نے ابھی انہیں قبول نہیں کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں روزانہ پی ٹی وی اور شاہ نور سٹوڈیو آتا ہوں لیکن ابھی تک مجھے کوئی چانس نہیں ملا۔ کہنے لگے اگر دو تین مہینے یہی صورتحال رہی تو شاید میں واپس ملتان چلا جاؤں۔ پردیس میں روز گار کے بغیر گزارہ بہت مشکل ہے۔ پھر مجھ سے انہوں نے دریافت کیا کہ آپ سنائیں کیا آپ کو کام مل گیا۔ ہم بہت دیر تک بیٹھے رہے اس ملاقات میں میں نے اور قمر رضا نے ان کی ہمت بندھائی کہ فکر نہ کریں آپ ضرور کامیاب ہوں گے۔

پھر ایک طویل وقفہ ہے سہیل اصغر کے ساتھ لاہور میں دوبارہ کوئی ملاقات نہ ہوئی کہ اصغر ندیم سید نے وعدہ پورا کر دیا تھا سہیل اصغر پی ٹی وی لاہور میں مصروف ہو گئے تھے۔ میں ابھی لاہور میں ہی تھا کہ اصغر ندیم سید کی سیریل مشہور ہو گئی وہی ڈرامہ جس میں انہوں نے ”رُلیا“ کے نام سے کردار ادا کیا اور انہیں ملک گیر شہرت مل گئی۔ ”خواہش“ نام کے اس ڈرامے میں سہیل کا ڈائیلاگ ”صدقے تھیواں، ہم آدمی ہیں ذرا وکھرے ٹائپ کے“ زبان زد عام ہو گیا تھا۔ پی ٹی وی لاہور سے ان کے کچھ اور ڈرامے بھی معروف ہوئے اور پھر کچھ عرصے بعد وہ کراچی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہو گئے اور ان کے ڈرامے کراچی سے نشر ہونے لگے۔ لاہور میں قیام کے دوران انہوں نے ایک فلم میں بھی کام کیا اور پی ٹی وی ایوارڈ سمیت بہت سے اعزازات حاصل کیے۔ 1988ء میں میں ملتان واپس آ گیا اور ان کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ رہنے لگا۔ وہ بعد میں ایک دو مرتبہ مختلف تقریبات میں ملتان بھی آئے شاید ان کی فیملی میں شادی کی تقریبات تھیں لیکن میری ان سے دوبارہ ملاقات نہ ہو سکی۔ پھر فیس بک کا زمانہ آیا تو 2014 ءمیں ہمارا فیس بک پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہو گیا۔ اب کبھی کبھار فیس بک پر میں انہیں کسی مضمون یا کسی کالم کا لنک ارسال کر دیتا تھا اور وہ مجھے میسنجر پر جواب دے دیتے تھے۔ برادرم حسنین جمال نے یاور حیات کے انتقال پر ”یادوں کے مزار اور پی ٹی وی کا شہر عشق“ کے نام سے ”ہم سب“ پر 6 نومبر 2016ء کو جو کالم تحریر کیا اس میں سہیل اصغر کا ذکر بھی موجود تھا۔ حسنین جمال نے ان کا ”ایک روپا، ایک روپا، دو دھڑ والا بچہ دیکھو، ایک روپا“ والا ڈائیلاگ دہراتے ہوئے انہیں بہت محبت کے ساتھ یاد کیا تھا۔ یہ کالم میں نے سہیل اصغر کو بھی ارسال کیا۔ ان کا اسی رات جواب آیا ”شکریہ رضی صاحب ابھی یاور حیات صاحب کے لیے مستنصر کا کالم پڑھ کر آنسو پونچھ رہا تھا کہ آپ کا میسج آ گیا اللہ آپ کو خوش رکھے دل اداس بھی ہوا اور خوش بھی، سلامت رہیں“

5 ستمبر 2019 ء کو نامور اداکار عابد علی کا انتقال ہوا تو میں نے سہیل اصغر کوایک تعزیتی پیغام ارسال کیا ”آپ کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں، دعاگو ہوں عابد صاحب کے درجات بلند ہوں اور آپ کو حوصلہ ملے، پرسہ قبول کیجئے“ ۔ ”ساڑھے بارہ بجے شب ان کا جواب موصول ہوا آمین یارب العالمین، سلامت رہیں“ یہ سہیل اصغر کے ساتھ میرا آخری رابطہ تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ سہیل اصغر خود اس وقت موت و حیات کی کشمکش میں ہیں انہیں جگر کا کینسر تھا ایک سال قبل ان کی معدے کی سرجری بھی ہوئی تھی ان کے قریبی دوستوں کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم تھا کہ مرض جان لیوا ہے۔ عابد علی کی موت نے سہیل اصغر کو توڑ کر رکھ دیا، ان کی تمام امیدیں ختم ہو گئیں کہ عابد علی سے وہ محبت بھی بہت کرتے تھے۔ سہیل اصغر 15 جون 1954 کو ملتان میں پیدا ہوئے اسی شہر کی گلیوں میں پلے بڑھے اور اسی شہر کے لہجے نے انہیں شہرت کی بلندیاں عطا کیں۔ سہیل اصغر کے بارے میں اپنی یادوں کو بارہا قلم بند کرنا چاہا لیکن ہر مرتبہ میں ان پر لکھنے کی ہمت نہ کر سکا آج ان کی تیسری برسی پر یہ قرض اتار رہا ہوں اور اس شخص کو یاد کر رہا ہوں جو واقعی وکھری ٹائپ کا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments