گلوکار عاطف اسلم کا مذہبی ٹچ


مذہب بیچارہ مذہبی لوگوں کے بیچ ہی فٹ بال بنا ہوا ہے، ہر کوئی اپنے ذوق، پبلسٹی، پروفیشن یا خود کی انا کی تسکین کے لیے اسے استعمال کرتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے علاوہ بھی مسلم ممالک ہیں جو مذہب کو ذاتی دائرہ کار میں رکھتے ہوئے اپنے اپنے حساب سے اسے پریکٹس کرتے ہیں، ایک طرف ہم ہیں جنہیں یہ لگتا ہے کہ ہمیں قادر مطلق نے مذہب کے تحفظ اور تبلیغ کے لیے پیدا کیا ہے، دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہم حاضر ہو جاتے ہیں ان کے تحفظ اور دفاع کے لیے، بھلے اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے وطن کے انفراسٹرکچر کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ دنیا بھر میں مذہبی رسومات و معاملات نارمل طریقے سے سیلیبریٹ ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو بعض اوقات ایسے لگتا ہے جیسے مذہب کا ظہور ہی آج ہوا ہو۔

ہمارے محلہ میں ایک سیدھا سادہ سا بندہ ہوا کرتا تھا، تھوڑے بہت مذہبی احکامات پورے کرنے کے علاوہ اپنے گھر بار کی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے ایک بیوٹی سیلون بھی چلاتا تھا۔ بہت زبردست قسم کا کاریگر تھا، کٹنگ اور شیو میں بڑی مہارت رکھتا تھا۔ ایک دن تبلیغی جماعت کے ہتھے چڑھ گیا اور آہستہ آہستہ فنا فی المولوی ہو گیا۔ اپنی روزی کے متعلق ایک مولوی سے مسئلہ پوچھ بیٹھا۔

”کہنے لگا حضرت جی میں دین کی طرف راغب ہو چکا ہوں، یہ بتائیں کہ میں جو بال وغیرہ کاٹتا ہوں یا داڑھی مونڈتا ہوں کیا میری یہ روزی جائز ہے“ ؟ مولانا نے سنتے ہی کہا کہ بالکل حرام ہے، انتہائی کراہت سے کہا کہ تمہاری اور ”کنجری“ کی کمائی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بس پھر کیا تھا سنتے ہی وہ بھولا شخص بے قابو ہو گیا، اچھا خاصا چلتا سیلون بند کیا اور گدھا گاڑی پر سبزی وغیرہ بیچنے لگا۔

اب مولانا صاحب کو کون بتائے کہ طوائف کے دروازے کھٹکھٹائے والے کون ہوتے ہیں؟

ان کے ہونٹوں اور جسم کی لمس و گرمی سے لطف اندوز ہو کر یہ جنسی بھوک مٹانے والے مرد ہی تو ہوتے ہیں نا! کیا وہ اسی بدبودار سماج کا حصہ نہیں ہوتے؟

طوائف کے پاس تو کل اثاثہ اس کا جسم ہی ہوتا ہے جسے وہ مجبوری میں بیچ کر اپنا پیٹ پالتی ہے، کیا وہ اس بندے سے بھی بری ہوتی ہے جو اپنے مفاد کے لیے دین کا استعمال کرتا ہے؟

اب اس شخص کے تقویٰ و طہارت کا خمیازہ اس کی فیملی کو بھگتنا پڑا، خود تو تبلیغی دوروں پر رہنے لگا اور پیچھے بچیاں ٹیوشن وغیرہ پڑھا کر گزر بسر کرنے لگیں۔ سوال یہ ہے کہ نقصان کس کا ہوا؟ کیا مسئلہ بتانے والے مولوی کی روزی روٹی میں کوئی فرق پڑا؟ کیا تبلیغی جماعت کے امیر کبیر افراد کو کوئی فرق پڑا جو اپنے پیچھے کروڑوں کا بزنس اپنی اولادوں کے سپرد کر کے چلے پر نکل پڑتے ہیں؟

فرق پڑا تو اس بھولے بھالے سے بندے کو پڑا جس نے اپنا گھریلو ہنر، اچھی خاصی روزی روٹی محض اپنی فہم کو ایک مولوی کے سامنے گروی رکھتے ہوئے قربان کر دی۔

مذہب ہر ایک انسان کا انتہائی ذاتی اور خفیہ سا معاملہ ہوتاہے، جس کا کام انسان کے اخلاقیات و معاملات کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو مذہب دوسروں کو اچھا یا برا ثابت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، گناہ اور ثواب کے علاوہ ہمارے پاس انسانوں کو پرکھنے کا کوئی تیسرا اینگل ہی نہیں ہے۔

شنید ہے کہ حال ہی میں عاطف اسلم کو کنسرٹ کے لیے سعودی حکام نے مدعو کیا تو موصوف نے یہ کہہ کر اس پیشکش کو مسترد کر دیا کہ وہ مقدس مقام پر پرفارم نہیں کر سکتے۔ بندہ پوچھے کہ آپ کو مدعو کس نے کیا ہے؟ ظاہر ہے وہی لوگ ہیں نا جو حرم مقدس کے حکام ہیں، جو مقدس مقامات کی تزئین و آرائش کے علاوہ لوگوں کی روحوں کو گرمانے کے لیے سیر و تفریح اور کنسرٹ کا اہتمام کرتے ہیں۔ کیا وہ اتنے جاہل ہیں کہ انہیں حرم مقدس کی تقدیس کا خیال نہ ہو اور وہ شرعی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے بولڈ اور نیم عریاں لباس میں ملبوس دنیا بھر سے اداکاراؤں کو مدعو کریں؟ اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے نا کہ ان کا مذہبی فہم کمزور ہے یا مذہبی حدود و قیود سے نابلد ہیں؟ وہ جیسے بھی ہیں حرم کے خادم ہیں اور ہمارے ایقان کے مطابق قادر مطلق کی رضا مندی کے بغیر کوئی وہاں کا حکمران نہیں بن سکتا۔ وہ دین اور دنیا کو ساتھ میں چلاتے ہیں لیکن مذہب کو زبردستی دوسروں پر سوار نہیں کرتے جبکہ ہم ایسے منافق مذہب کا کاروبار کرتے ہیں اور اس کی آڑ میں اپنی دنیا کو چمکاتے رہتے ہیں۔

یہاں مقبولیت، شہرت اور فالوونگ بڑھانے کے لیے مذہب کو بطور ٹول استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاستدان، ادیب اور اداکار جہاں ضرورت پڑتی ہے مذہب کا خوب استعمال کرتے ہیں بلکہ کرداری کرتوتوں کو ڈھانپنے کے لیے بھی مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عمران خان ہو یا خلیل الرحمٰن قمر یا ہمارے مہان گلوکار عاطف اسلم، یہ سب معاشرتی تقاضوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور وقت کی ناؤ کے ساتھ بہتے ہیں۔ مطلب منافقت اور اندر کی خباثت کا پالن بھی کرنا ہے اور مذہب کا نام بھی استعمال کرنا ہے۔

عاطف اسلم سے پوچھنا تھا کہ جو موسیقی و اداکاری حرم مقدس کی سرزمین پر حرام ہے تو دنیا کے باقی حصوں میں جائز کیسے ہو سکتی ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments