ٹرمپ کو عرب نژاد امریکیوں کے اکثریتی شہر ڈیئر بورن میں کامیابی کیسے حاصل ہوئی؟
ویب ڈیسک۔
ڈیئر بورن شہر میں ایک لاکھ دس ہزار عرب نژاد امریکی آباد ہیں۔
یہاں پر صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس نے ری پبلیکن ٹرمپ کے مقابلے میں 2,500 کم ووٹ حاصل کیے۔
ٹرمپ اس شہر سے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی سن 2000 میں کامیابی کے بعد فتح یاب ہونے والے پہلے ری پبلیکن امیدوار ہیں۔
اسرائیل کی امداد کے مخالفین میں سے 58 فیصد نے الیکشن میں ہیرس کی حمایت کی۔ ان میں سے 39 فیصد نے ٹرمپ کی حمایت کی۔
ہیرس نے ڈیئر بورن کے ڈیمو کریٹک میئر عبداللہ حمود سے ملاقات کی تھی لیکن وہ کبھی بھی اس شہر میں خود نہیں آئیں
ریاست مشی گن کے شہر ڈیئر بورن کی رہائشی سہیلہ ایمن کے سامنے پانچ نومبر کے الیکشن میں امریکہ کی دو بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کی صورت میں دو انتخابی آپشنز تھے اور وہ دونوں کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ انہوں نے کسی ایک کا بھی انتخاب نہ کیا۔
اس کی بجائے عرب امریکی شہریوں کے گڑھ ڈیئر بورن میں عرصے سے ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی ایمن نے تیسری پارٹی صدارتی امیدوار کی حمایت کی۔ یوں انہوں نے اپنی آواز اس اہم تبدیلی کی آواز میں شامل کر دی جس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مشی گن ریاست میں کامیابی کر لی اور صدارت بھی جیت لی۔
ڈیئر بورن شہر میں ایک لاکھ دس ہزار عرب نژاد لوگ آباد ہیں۔ یہاں پر صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس نے ری پبلیکن ٹرمپ کے مقابلے میں 2,500 کم ووٹ حاصل کیے۔ ٹرمپ اس شہر سے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی 2000 سال میں کامیابی کے بعد فتح یاب ہونے والے پہلے ری پبلیکن امیدوار ہیں۔
پانچ نومبر کے الیکشن میں ہیرس ہمسایہ شہر ڈیئربورن ہائٹس میں بھی ٹرمپ سے ہارگئیں حالانکہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں کئی مسلم اکثریتی ملکوں پر امریکہ سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔
ہیرس کی ڈیٹرائٹ ایریا کے عرب امریکیوں کی آبادی کے دو بڑے شہروں میں شکست کئی مہینوں کے انتباہ کے بعد سامنے آئی جس میں مقامی ڈیموکریٹس نے بائیڈن اور ہیرس کی انتظامیہ کی اسرائیل کی غزہ جنگ میں اٹل حمایت کے بارے میں خبر دار کیا تھا۔
کچھ لوگوں نے کہا کہ انہوں نے الیکشن سے چند روز قبل، ٹرمپ کے شہر کے دورے، لبنانی نژاد امریکی شہری کے ریستوران میں اسٹاف اور گاہکوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور مشرق وسطی میں تشدد ختم کرنے کی راہ نکالنے کی یقین دہانی کے بعد سابق صدر کی حمایت کی۔
ایمن جیسے شہر کے دوسرے لوگوں نے ٹرمپ کی حمایت نہیں کی۔ ایمن کے مطابق بہت سے عرب امریکی کہتے ہیں کہ ہیرس کے ساتھ جو ہوا وہ اس کی مستحق تھیں۔ تاہم، وہ ٹرمپ کی کامیابی پر جشن نہیں منا رہے۔
اس سلسلے میں ایمن نے بتایا، ”معاملہ چاہے ٹرمپ کا ہو یا ان کے ارد گرد کے لوگوں کا، مجھے اس بات پر پریشانی لاحق ہے۔ لیکن آخر کار جب دو برے لوگ الیکشن لڑ رہے ہوں، تو آپ کے پاس کیا بچتا ہے؟“
گزشتہ منگل کو جب یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ ٹرمپ نہ صرف الیکشن جیت لیں گے بلکہ ڈیئر بارن میں بھی فتح یاب ہوں گے تو یہاں کے سٹی کونسل ممبر مصطفی حمود نے ڈیٹرائٹ میٹرو ایریا میں لوگوں کے موڈ کو ”اداس“ قرار دیا۔
پھر بھی انہوں نے کہا کہ الیکشن کا نتیجہ حیران کن بالکل نہیں ہے۔
ڈیئر بارن میں تبدیلی کے نتیجے میں ٹرمپ نے 18,000 ووٹ حاصل کیے جبکہ ہیرس نے 15,000 ووٹ حاصل کیے۔
اس طرح یہ تبدیلی چار سال قبل کے حالات کے مقابلے میں حیران کن ہے کیونکہ پچھلے الیکشن میں جو بائیڈن نے اس شہر میں ایک کے مقابلے میں تین کی شرح سے کامیابی حاصل کی تھی۔
کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے
یہ نتائج حیران کن نہیں تھے۔ کئی ماہ سے مقامی ڈیموکریٹس پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کو کھلم کھلا انتباہ کر رہے تھے کہ اگر امریکی حکومت اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے نمٹنے کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں لاتی تو عرب امریکی ووٹرز ان کے خلاف ہوجائیں گے۔
بائیڈن اور ہیرس کی حکومت سات اکتوبر 2023 کے حماس کے سفاکانہ حملے سے شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیل کی کٹر اتحادی رہی ہے۔ حماس کے دہشت گرد حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 200 سے زیادہ کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران فلسطینی صحت عامہ کے حکام کے مطابق غزہ میں 43,000 لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا شمار شہریوں اور جنگجوؤں میں تفریق نہیں کرتا۔
جبکہ ہیرس نے جنگ پر اپنے بیانات میں نرمی پیدا کی، انہوں نے اسرائیل اور غزہ جنگ کے متعلق ایسی کوئی ٹھوس پالیسی تجویز نہیں کی جو موجودہ انتظامیہ سے مختلف ہوتی۔ اگر ان کے پاس کوئی ایسی تجویز تھی بھی تو اس سے ڈیئر بورن جیسی جگہوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
حمود نے کہا کہ ہیرس کو لبنان اور غزہ میں صرف جنگ ہی تو بند کروانی تھی اس طرح وہ یہاں ہر ایک کا ووٹ حاصل کر سکتی تھیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ”ووٹ کاسٹ“ نامی قومی سطح پر 120,000 ووٹرز کے کیے گئے سروے نے ظاہر کیا کہ زیادہ لوگوں کا خیال تھا کہ ہیرس کے مقابلے میں ٹرمپ مشرق وسطی کی صورت حال سے بہتر طور پر نمٹیں گے۔ ووٹروں کی نصف تعداد نے کہا کہ ٹرمپ زیادہ موزوں رہیں گے جبکہ ایک تہائی لوگوں نے کہا کہ ہیرس بہتر ہوں گی۔
اسرائیل کی امداد کے مخالفین میں سے 58 فیصد نے الیکشن میں ہیرس کی حمایت کی۔ ان میں سے 39 فیصد نے ٹرمپ کی حمایت کی۔
یہاں تک کہ ہیرس کے بعض حامیوں کو بھی اس بارے میں شبہ تھا۔ ان کے مشی گن کے ووٹرز میں سے تین چوتھائی نے کہا کہ ہیرس حالات سے بہتر انداز سے نمٹ سکتی ہیں۔ کچھ نے ٹرمپ کو ترجیح دی لیکن ہر دس میں سے دو نے کہا کہ دونوں امیدوار برابر یعنی ایک جیسے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس معاملے میں بہتر ثابت نہیں ہو گا۔
ہیرس کے لیے عرب امریکی کمیونیٹی میں عدم حمایت کے وقت ٹرمپ اور ان کے اتحادی اس صورت حال میں داخل ہو گئے۔
عرب امریکی مشی گن کے الیکٹوریٹ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ٹرمپ نے اس ریاست میں 2016 کے الیکشن میں 11,000 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ وہ سال 2020 کے انتخابات میں بائیڈن سے 154,000 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔
ریاست کے عرب امریکی باشندے مہینوں تک ٹرمپ کے اتحادیوں سے ملاقاتیں کرتے رہے جنہوں نے عرب امریکیوں کی ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔
ستمبر میں حالات بدلنا شروع ہوئے جب شہر ہیم ٹرامک کے ڈیموکریٹک مسلم میئر نے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس کے فوراً بعد ٹرمپ نے وہاں انتخابی مہم کے ایک دفتر کا دورہ کیا۔
ٹرمپ کے ساتھ، عرب امریکیوں کے تعلقات کی رہنمائی کرنے والے مسعود بولوس نے اس دورہ کو تبدیلی کا سنگ میل قرار دیا۔
بولوس کے بیٹے، مائیکل، ٹرمپ کی بیٹی ٹفنی کے شوہر ہیں۔
بولوس نے بتایا کہ عرب امریکیوں کی برادری نے ٹرمپ کے دورے اور اس کے کے نتیجے میں عزت کے احساس کا بہت زیادہ خیر مقدم کیا۔
”یہ پہلی بڑی کامیابی تھی،“ مسعود بولوس نے بتایا کہ اس دورے کے بعد کئی اماموں اور مسلم رہنماؤں نے ان کی توثیق کی۔
مہم کے آخری ہفتے میں ٹرمپ کے حق میں تبدیلی
ہیرس کے لیے حمایت میں کئی ماہ سے کمی واقع ہو رہی تھی، خاص طور پر اس وقت سے جب ان کی مہم نے اگست میں ہونے والے ڈیموکریٹک نیشنل کنوینشن میں فلسطین کے حامی ایک مقرر کو بولنے کی اجازت نہ دی۔
لیکن بعض ووٹروں کا کہنا ہے کہ مہم کا آخری ہفتہ فیصلہ کن ثابت ہوا۔
مشی گن میں 30 اکتوبر کو منعقد کی گئی ایک ریلی سے خطاب میں سابق صدر بل کلنٹن نے کہا کہ حماس شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے اور وہ، ”اگر آپ اپنا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سویلینز کو مارنے پر مجبور کرے گی۔“
بل کلنٹن نے کہا، حماس فلسطینیوں کے لیے وطن کی پرواہ نہیں کرتی۔ وہ اسرائیلیوں کو مارنا چاہتی تھی اور اسرائیل کو رہنے کے قابل نہیں دیکھنا چاہتی۔
انہوں نے کہا، ”میرے پاس ان کے لیے یہ خبر ہے کہ وہ وہاں پہلے موجود تھے، ان کے عقیدہ سے بھی پہلے وہ وہاں موجود تھے۔“
ہیرس کی مہم چاہتی تھی کہ وہ کلنٹن کی ریلی کے بعد وہاں جار کر تقریر کریں۔ یہ بات ان دو لوگوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتائی جنہیں اس بات کی براہ راست معلومات تھیں۔
لیکن کلنٹن کے ریمارکس پر ردعمل کے بعد ایسا کوئی دورہ نہ ہو سکا۔
ڈیٹرائٹ کے دیہی علاقے میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد شہری امین ہاشمی نے اس سلسلے میں کہا کہ بل کلنٹن کے تبصرہ بڑا ذکر رہا۔
”ان کے ریمارکس نے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو ٹھیس پہنچائی جو ان کو چاہتے ہیں۔“
ہاشمی جو اپنے آپ کو ایک کٹر ڈیموکریٹ بتاتے ہیں کہتے ہیں کہ ان کے لیے ٹرمپ کو ووٹ دینا ایک زلزلے کی مانند تھا جو کہ انہوں نے ووٹنگ بوتھ پر 25 منٹ تک کھڑے رہنے کے بعد ڈالا۔
الیکشن سے قبل کے جمعہ کو ٹرمپ نے ڈیئر بورن شہر میں ایک لبنانی نژاد شہری کے ریستوران، ”دی گریٹ کامنز“ کا دورہ کیا۔
ٹرمپ کا یہ دورہ ہیرس کے مقابلے میں متضاد نظر آیا۔ ہیرس نے صرف ڈیئر بورن کے ڈیمو کریٹک میئر عبداللہ حمود سے ملاقات کی تھی لیکن وہ کبھی بھی اس شہر میں خود نہیں آئیں۔ حمود نے ہیرس کی حمایت کا اعلان نہیں کیا تھا۔
ڈیئر بورن کی ایک شہری سامعہ حامد نے ٹرمپ کے دورے کے متعلق کہا، ”وہ ڈیئر برن آئے، انہوں نے رہائشیوں سے بات کی۔ کچھ لوگ کہیں گے یہ کوئی حقیقی دورہ نہیں تھا لیکن پھر بھی انہوں نے ایک کوشش کی۔ وہ لوگوں سے ملے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کی، کم از کم انہوں نے لوگوں کی بات سنی۔“
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی سے لی گئی ہیں )
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).