امن کے بین الاقوامی نشانات
چند روز پہلے ایک دوست کا فون آیا اور انہوں نے حیرانی سے پوچھا کہ میں نے اپنے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارموں کی اپنی آئی ڈیز پر کیسا نشان لگایا ہوا ہے۔ میرا جواب یہ تھا کہ یہ نشان ☮️دنیائے امن کی مشہورِ زمانہ علامت ہے۔ جسے اکیس فروری انیس سو اٹھاون کو، امن کے قائل، امن پسند جیرالڈ ہولٹوم نامی برطانوی آرٹسٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔
اسرائیل کے لبنان پر حملے اور فلسطین کے مظلوموں پر نسل کشی جاری ہے۔ یوکرین روسی جنگ کے خاتمے کا کوئی دور دور تک امکان نہیں۔ اِنسانیت سے محبت کرنے والوں کی جتنی آج، امن کی شدید خواہش ہے شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
میری آئی ڈیز کا ☮️ نشان، جوہری ایٹمی اسلحہ کے خلاف لائی گئی CND، جوہری تخفیف اسلحہ نامی تحریک کا حصہ تھا۔ اس دور میں افریقی امریکیوں کی نسل پرستی مخالف شہری حقوق کے لئے مظاہرے ہو رہے تھے۔ بمطابق جیرالڈ ہولٹوم
سی۔ این۔ ڈی، بین الاقوامی ونکلر الفابیٹ سے ماخوذ ہیں اور ان کے خاکے بریڈ فورڈ یونیورسٹی میں محفوظ ہیں۔ ان کی اعلیٰ ظرفی کہ انہوں نے یہ نشان اپنے نام نہیں کرایا یعنی اس کا پیٹنٹ حاصل نہیں کیا تاکہ اسے دنیا کا ہر شخص استعمال کر سکے۔
ایک گول دائرے میں Elhaz/Algis۔ Rune نظر آتی ہے۔ ایک آدمی کا، ایٹمی خطرات کے پیشِ نظر، بے چارگی کے عالم میں اپنے بازوؤں کو نیچے لٹکانا دکھایا جا رہا ہے۔ یہ امن ☮️ کا نشان مردہ رون کو ظاہر کر رہا ہے۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ شروعات میں گول دائرے میں موجودہ رون کے برعکس رون کو امن نشان سمجھا جاتا تھا۔
آئرونیکلی اس نشان کا اوریجن عسکریت پسندی سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ نازی جماعت میں اسے زندہ یا مردہ رون کہا جاتا تھا۔ مشہورِ زمانہ ایس۔ ایس نازی گروپ کے لواحقین کی قبروں پر ان کی نشان دہی کے لئے یہ نشانات کنداں کیے جاتے تھے۔
اس نشان کو، ویتنام جنگ کے خلاف، مارٹن لوتھر کی تحریک یا/ اور بین الاقوامی ایٹمی اسلحہ کے خلاف مظاہروں میں استعمال کیا جاتا تھا/ہے۔ آج بھی تمام امن مارچوں میں مختلف انواع میں یہ نشان نظر آتا ہے۔
امن کی دوسری مشہور علامت نیلی زمین پر سفید کبوتر ہے۔ عیسائیوں کے عہد نامۂ قدیم کے مطابق، طوفان نوح کے بعد ایک کبوتر کو آزاد کیا گیا جس کی چونچ میں زیتون کی ٹہنی تھی اور وہ نوح کی کشتی کی طرف واپس آیا جس سے نوح کو معلوم ہوا کہ خشکی بھی موجود ہے۔ یہ نشان انیس سو اناسی کے نیٹو ڈبل ریزولیوشن کے تناظر میں متعارف کیا گیا تھا۔
زیتون کی ٹہنی بھی امن نشان کے طور پر مستعمل ہے۔ قدیم یونان اور قدیم روم میں بھی، زیتونی اور لاریل وریتھ امن کی علامت سمجھے جاتے تھے۔
قوس و قزح نشان کو امن علامات میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ بالخصوص قوس و قزح کا الٹا میلان۔ سن دو ہزار دو میں، امن کے لئے اطالوی لفظ PACE کو بین الاقوامی طور پر پذیرائی ملی جب اٹلی کے باشندوں نے، ایک امن مارچ کے لئے بنائے گئے جھنڈے، اپنے گھروں کی بالکونیوں میں سجا کر امن مظاہرے کیے تھے۔ انیس سو اناسی سے آج تک، قوس و قزح کے ایسے جھنڈے، ہم جنسوں کے لئے بھی ”گے پرائیڈ فلیگ کے نام سے مشہور ہیں۔
”ایٹم بم متاثرین کے حق میں مظاہروں میں“ پیپر کرین کے ساتھ امن کی علامت کے بینرز بنائے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے باہر تلواروں کا ایک مجسمہ، دنیا بھر میں تخفیف اسلحہ اور بین الاقوامی امن کے مقصد کو ظاہر کرتا ہے جو سن انیس سو اسی میں سابقہ مشرقی جرمنی میں آزاد تخفیف اسلحہ کی علامت بنا۔ بعد میں مغربی جرمنی کے کچھ حلقوں نے بھی اسے اپنا لیا۔
اولمپکس میں جلائی جانے والی مشعل بھی امن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ وکٹری سائین، اوپر کی طرف پھیلائی ہوئی، شہادت اور درمیانی انگلیاں بھی، بہت سے لوگوں کی امن خواہش ظاہر کرتی ہیں۔
سن انیس سو چھہتر سے، بین الاقوامی جنگ مخالف آرگنائزیشن، WRI، ہے جس کی رکن جرمنی کی سب سے قدیم اور بڑی آرگنائزیشن DFG۔ VK ہے۔ جن کا نشان ”ٹوٹی ہوئی رائفلیں“ ہیں۔ یہ علامت جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں مظاہروں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہاگر ضلعی جنگی آرڈینینس کے آرٹیکل بتیس کے مطابق ایک سفید جھنڈے کو بین الاقوامی قانونی تحفظ کی علامت ماننا ضروری ہے۔
جرمنی میں، عسکریت اور جنگوں کے خلاف با ضمیر معترض باشندوں نے، اپنی مخالفت ریکارڈ کرانے کے لئے، مزید مختلف پرامن طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔
- امن کے بین الاقوامی نشانات - 15/11/2024
- جرمنی میں حکومتی بحران - 08/11/2024
- یاد رفتگاں: عارف نقوی صاحب مرحوم - 01/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).