حنیف فوت ہو گیا ہے
اس آرٹیکل کے عنوان سے یقیناً آپ اندازہ لگا رہے ہوں گے کہ حنیف نامی شخص کوئی بڑا آدمی ہو گا۔ جس کی وفات کو ایک معروف ویب سائٹ پر ہائی لائٹ کیا جا رہا ہے۔ وہ یقیناً کوئی نہ کوئی وزیر مشیر ہو گا۔ ایم پی اے، ایم این اے ہو گا۔ کوئی بڑے قد کاٹھ کا سیاسی لیڈ ر ہو گا۔ اگر یہ سب نہیں تو پھر بیوروکریٹ ہو گا۔ کوئی دانش ور ہو گا، شاعر یا مصنف ہو گا، مفکر یا مدیر ہو گا، کوئی یوٹیوبر ہو گا، وی لاگر ہو گا یا کم از کم مقامی سطح پر ہی کوئی مشہور و معروف شخصیت ہو گی۔ نہیں وہ ان میں کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ وطنِ عزیز کے اُن دس کروڑ لوگوں میں سے ایک تھا۔ جو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
حنیف اس قبیلے کا ایک فرد تھا۔ جو اس عمر میں کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب اُن کے ہاتھ پاؤں اس قابل ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک کام کرتے رہتے ہیں۔ جب تک یہ ہاتھ پاؤں چلتے رہتے ہیں اور اس کے عوض انہیں مادرِ وطن سے وصول کیا ہوتا ہے۔ روکھی سوکھی روٹی فقرو فاقہ، مصیبت و پریشانی، احساس ِمحرومی، عدم تحفظ ناداری و مجبوری، بے کسی و بے بسی، اور محنت و مزدوری۔
حنیف ایم سی ماڈل ہائی سکول بورے والا میں درجہ چہارم کا ملازم تھا اور وہ وہاں پر ایک مالی کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ حنیف شروع سے ہی بہت محنتی اور نیک نیت تھا۔ وہ سارا دن سکول میں کام کرتا اور شام کو چھٹی کے بعد اپنی آمدنی میں اضافے کے لیے کوئی نہ کوئی جزو وقتی کام کرتا تھا۔ تاکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے جن کو قابو میں لاکر اپنے اہل ِ خانہ کی ضرورتوں کو اس حد تک ضرور پورا کرتا کہ اُن کے جسم اور روح میں موجود رابطے کے تسلسل کو برقرار رکھ سکے۔
سردیوں میں عموماً وہ رات کو انڈے اُبال لیتا اور انہیں تھرماس میں رکھ کر گرم انڈے گرم انڈے کی صدا لگاتے ہوئے فروخت کرنے کی کوشش کرتا۔ کبھی چار پیسے بج جاتے اور کبھی کبھار ایسے بھی ہوتا کہ کوئی انڈے فروخت کیے بغیر ہی اس کی واپسی ہوجاتی۔ ایک بار اس نے ترکھان کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔ وہ شام کو ایک فرنیچر والے کے پاس چلا جاتا اور اس کے ساتھ فرنیچر بنوانے میں اس کا ہاتھ بٹاتا اور اس کے بدلے میں اُسے معمولی مزدوری مل جاتی۔
اس کے بعد اس نے اس سے متعلقہ دوچار اوزار خرید کر اپنے پاس بھی رکھ لیے۔ اگر کبھی کبھار اُسے موقع ملتا تو وہ تھوڑا بہت کام بھی کر لیتا۔ پھر اس نے مختلف کوٹھیوں میں پودوں اور پھولوں کی دیکھ بھال کا کام شروع کر دیا۔ وہ مہینے میں تین چار بار ایک گھر میں جا کر باغیانی سے متعلقہ امور کو نمٹا لیتا اور اس طرح آٹھ دس گھروں میں وہ یہ کام کر کے اُن سے معمولی سا معاوضہ وصول کر لیتا۔
پوری عمر محنت کو شعار بنائے رکھا اور کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ حالاں کہ وہ ملازم تو سکول کا تھا لیکن میرے ساتھ اس کا بڑا نزدیکی تعلق تھا۔ گھر میں کوئی چھوٹا موٹا کام ہوتا تو میں بلا جھجک اُسے کہ دیتا اور سکول سے چھٹی کے بعد جب کبھی اُسے موقع ملتا تو وہ ذمہ داری سے اس کام کو نمٹا دیتا۔ کوئی بجلی کا چھوٹا موٹا کام ہوتا، لکڑی کا ہوتا، دانے پسوانے ہوتے یا کوئی اور کام ہوتا وہ خوشی خوشی آ کر کر دیتا۔
میری عادت تھی کہ میں عموماً اُسے سو پچاس روپے دے دیتا۔ اُسے پیسے دینے کے معاملے میں میں تو شاید کسی حد تک کنجوسی سے کام لیا کرتا تھا لیکن میری بیوی بڑی فراخ دلی سے اس کی مدد کیا کرتی۔ یہ اس کا ہمیشہ کا معمول تھا جب میں اُسے پیسے دیتا تو وہ پوچھتی کہ بھائی حنیف کو کتنے پیسے دیے ہیں میں کہتا کہ سو روپے تو فوراً حکم صادر ہوتا کہ اسے سو روپے اور دو غریب آدمی ہے اس کا حق نہیں رکھتے۔ اس کو ہمارے گھر کے فرد کی سی حیثیت حاصل تھی۔ کسی بھی بچے کو کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ کہتے کہ ابو انکل حنیف کو بلوا دیں۔ بلکہ ایک دو بار میں نے اُسے فیصل آباد بھی بھیجا وہاں سے شاید کوئی سامان وغیرہ منگوانا تھا۔
میری بیٹی کی شادی تھی ہم پینڈو لوگوں کو شادی پر سب سے زیادہ فکر روٹی کی ہوتی ہے کہ کہیں وہ نہ کم پڑ جائے اس کام کی نگرانی کے لیے میری نظر انتخاب حنیف پر پڑی میں نے اُسے بلایا اور اس کی ڈیوٹی لگا دی کہ گوشت کا تم نے اپنی موجودگی میں اوپر کھڑے ہو کر وزن کروانا ہے اور دیگوں کے اوپر ہی ڈیوٹی دینا ہے کہ روٹی پکانے والے کہیں کوئی گڑ بڑ نہ کریں۔
قائداعظم سٹیڈیم میں بارات کو بٹھانے اور کھانا وغیرہ کھلانے کے انتظامات کیے ہوئے تھے۔ وہاں پر مہمان ہماری توقع سے کہیں زیادہ آ گئے۔ فوری طور پر فالتو میز کرسیاں لگوائی گئیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اتنے شارٹ نوٹس پر کھانا تو اور نہیں پک سکتا تھا میں نے دیگوں کی طرف چکر لگایا۔ وہاں حنیف پوری ذمہ داری سے اپنی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ میں نے اُسے صورت حال بتائی تو کہنے لگا کہ سر آپ آرام سے جا کر بیٹھ جائیں کھانا مہمانوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے اور واقعی ایسا ہی ہوا مہمانوں کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانے کی بچی ہوئی دیگیں وہاں پر موجود پڑی تھیں۔ میرے تمام بچوں کی شادی میں سب سے زیادہ اہمیت اور ذمہ داری کا کام حنیف کے سپرد ہوتا اور وہ اُسے پوری دیانت داری اور خلوص نیت سے سر انجام دیتا۔
میری بیوی اُسے اکثر تاکید کرتی کہ حنیف اپنے بچوں کو ضرور پڑھانا ہے اس سلسلے میں اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو مجھے بتانا اس موسم میں عموماً وہ دانے ڈالنے والے بھڑولے کو چیک کرواتی کہ دانے کتنے باقی رہ گئے ہیں اور وقفے وقفے سے دو تین بار گندم کے تھیلے حنیف کو بھی دے دیتی۔
حالاں کہ میں 2011 میں ایم سی ہائی سکول کو چھوڑ چکا تھا لیکن حنیف کے ساتھ میرا رابطہ تادم مرگ رہا۔ غالباً اگست کے آخری ایام تھے کہ مجھے ایم سی ہائی سکول کے ہیڈماسٹر خالد مجید صاحب کا فون آیا کہ حنیف کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے اس کے ایک دو دن کے بعد بلال کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ حنیف میرے پاس آیا تھا اس کو جگر کا کینسر ہے اور اس سٹیج پر ہے کہ کہیں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بس اب صرف اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اسے تکلیف سے بچایا جائے، میں کیوں کہ اپنی بیوی کے سلسلے میں دو سال پہلے خود بھی اس مرحلے سے گزر چکا تھا۔ اس لیے مجھے علم تھا کہ اس مرحلے پر اس کی ادویات عام میڈیکل سٹورز سے نہیں ملتیں میں نے بلال کی خاص طور پر ڈیوٹی لگائی کہ حنیف کے لیے ان ادویات کی دستیابی تمہاری ذمہ داری ہے۔ جیسے تیسے ہو سکے ان کا انتظام تمہیں ہر حال میں کرنا ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی وہ تمہارے پاس آئے اس کی مدد کرنا ہے۔
شام کو بدر کو ساتھ لے کر میں اس کا پتہ لینے اس کے گھر گیا تو وہ چار پائی پر لیٹا ہوا تھا میں کافی دیر اس کے پاس بیٹھا باتیں کرتا رہا وہ مجھے کہنے لگا کہ کل مجھے یوں لگا جیسے باجی مجھے کہہ رہی ہو کہ تم پریشان کیوں ہو جاؤ بلال کے پاس چلے جاؤ اور اُسے اپنی بیماری کے بارے میں بتاؤ وہ تمہارا علاج کر دے گا۔ اب میں اس کی دوائی لے رہا ہوں اور مجھے کافی افاقہ ہے۔ وہاں سے اٹھ کر آتے وقت میں اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود کچھ پیسے اس کی مٹھی میں دے آیا اور یہ میں نے اس پر کوئی احسان نہیں کیا تھا بلکہ یہ ہمارے دیہی کلچر کا حصہ ہے کہ ہم لوگ جب بھی کسی بیمار کا پتہ لینے جاتے ہیں تو اپنی حیثیت کے مطابق مریض کو پیسے دے کر آتے ہیں۔
ہر ماہ حنیف کی بیمار پرسی کرنے کے لیے بدر کو تاکید کر دی کیوں کہ میں تین چار دنوں کے بعد اڑھائی ماہ کے لیے یورپ جا رہا تھا یورپ آ کر بھی ڈائریکٹ اس سے رابطہ تو نہیں تھا لیکن میں بدر کی وساطت سے حنیف کے ساتھ رابطے میں تھا۔
کل میں نے واٹس ایپ پر اس کی وفات کی خبر پڑھی تو دکھ ہوا۔ حالاں کہ اس کی حالت کے پیش ِ نظر یہ کوئی غیر متوقع خبر تو نہیں تھی بہرحال میری دلی دُعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے۔ سفرِ آخرت میں آسانیاں فرمائے۔ اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
میرے لیے حنیف کی رحلت کا صدمہ کسی بھی بادشاہ، وزیر، مشیر، بیوروکریٹ، بزنس مین یا مدبر و مفکر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ ایک ایسی ہستی تھی جس نے پوری عمر محنت کے ساتھ حق حلال کی کمائی کر کے اپنے اہلِ خانہ کو کھلایا۔
اصل میں یہی طبقہ تو ہے جو ارضِ وطن کے ماتھے کا جھومر ہے۔ میں اپنی طرف سے، اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے اپنے حلقۂ احباب کی طرف سے، ایم سی ہائی سکول بوریوالہ کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے اہالیان بوریوالہ کی طرف سے بلکہ ارض پاکستان کے سب باسیوں کی طرف سے حنیف کو ارضِ پاک کے لیے کی گئی اس کی خدمات کو پیار، محبت، عقیدت، احسان مندی اور سپاس گزاری کے بھرپور احساسات کے ساتھ سلیوٹ کرتا ہوں۔ خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں اور اس کی مغفرت کے لئے دعاگو ہوں۔
کاش کہ میرے پاس اس سے بہتر الفاظ ہوتے کہ میں معاشرے کے لیے اس کی خدمات کی مناسبت سے اس کو خراج ِعقیدت اور احساس نیاز مندی پیش کر سکتا لیکن ایسے الفاظ سے خالی کشکول میری ادبی مفلسی، غربت اور تہی دامنی کا اعلان کیے جا رہے ہیں اور میں انہی الفاظ پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے اس تشنہ مضمون کو ختم کرنے پر مجبور ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائیں۔ اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور اس کے اہل و عیال کو صبر جمیل عطا فرمائیں اور اُن کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ آمین!
- لکسمبرگ میں آخری دن - 19/01/2025
- خوشبوؤں، محبتوں اور روشنیوں کا شہر پیرس - 13/01/2025
- ڈہڈا بھیڑا عشقے دا روگ - 08/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).