کپتان کی سخاوت اور کارکنوں سے پیار کا ایک واقعہ
گزشتہ دنوں جید صحافی حبیب اکرم صاحب کا ایک کلپ دیکھا جس میں وہ ایک واقعہ بیان کر رہے ہیں جس میں کپتان کی مال و دولت سے بے نیازی اور اپنا سب کچھ کارکنوں پر وار دینے کا تذکرہ تھا۔ پہلے حبیب اکرم صاحب کا بیان کردہ واقعہ دیکھ لیتے ہیں۔
سچے صحافی حبیب اکرم راوی ہیں، ”ایک دفعہ، عمران خان صاحب اپنے کنٹینر پہ تھے۔ اور یہ دھرنے کے دنوں کی بات ہے۔ ان دنوں کیا ہوا کہ اچانک پتہ چلا پیسے ختم ہو گئے ہیں۔ اور پیسے بھی تھینکس ٹو اسٹیبلشمنٹ، اسٹیبلشمنٹ کی کہانی بھی ہم ہر جگہ گھساڑ دیتے ہیں نا، تو پیسے ختم ہو گئے۔ اور یہ بات ہو رہی ہے عصر اور مغرب کے درمیان۔ اور صبح ناشتے کے لیے پیسے نہیں ہیں جو کارکن وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اور اس وقت بڑے بڑے جید وہاں امیر لوگ جو تھے، وہ اس کنٹینر میں تھے۔ اور کون کون تھے؟ جہانگیر خان ترین صاحب، علیم خان صاحب، اور بھی لوگ۔ تو خان صاحب نے، جب انہیں بتایا گیا کہ سر پیسے ختم ہو گئے ہیں، تو انہوں نے بغیر کسی کی طرف دیکھے، انہوں نے اپنی گاڑی جو باہر کھڑی ہوئی تھی، ان کی اپنی ذاتی گاڑی، انہوں نے کہا یار یہ بیچ دو، کتنے کی بک جائے گی؟ آگے سے کچھ جواب کسی نے نہیں دیا۔ تو عمران خان صاحب نے کہا، کہ یار مجھے فلاں نے کہا تھا کہ یہ پینتالیس یا پچاس لاکھ کی گاڑی ہے۔ تو ایسا کرو نا، اس کو بیچو، معاملات چلاؤ، پھر جب یہ ختم ہوں گے پیسے، انشا اللہ میں اور بندوبست کر لوں گا۔ جب انہوں نے گاڑی بیچنے کا کہا، تو اس وقت پھر کئی دل پگھل گئے۔ اور اس میں، دل پگھلنے والوں میں پتہ کس کا نام تھا؟ اسٹیبلشمنٹ نہیں تھی، وہ آج پنجاب کا ایک معتوب لیڈر ہے جو صوبائی اسمبلی کا رکن بھی ہے، اور اس کا نام ہے میاں اسلم اقبال۔ یہ تھی اسٹیبلشمنٹ آپ کی اس دھرنے میں۔“
اب اس واقعے میں کئی پہلو غور طلب ہیں۔ کپتان کے حامی تو جانتے ہی ہیں کہ کپتان کے پاس کبھی کسی چیز کی کمی نہیں رہی۔ اس کے پاس دولت بھی تھی، شہرت بھی اور عزت کی بھی اسے کبھی کمی نہ ہوئی، پرستاروں نے اس پر دن رات نچھاور کی۔ لیکن کپتان کے مخالف یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ وہ مال دولت کا لالچی تھا، کبھی اس پر توشہ خانے کا بوگس مقدمہ بنا دیتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ اس نے ملک ریاض سے القادر روحانی سپر یونیورسٹی کے نام پر کروڑوں اربوں لیے، اور کبھی اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اس پر تحفے میں ملی گھڑی بیچ کر پیسے کھرے کرنے کا الزام لگا دیتے ہیں۔ خیر ان الزامات کی حقیقت سے تو زمانہ واقف ہے، ان کی کیا صفائی پیش کرنی۔ بات ہو رہی ہے کپتان کی بے نیازی کی۔
اندازہ لگائیں کہ ٹیسٹ میچ کا کپتان، جو طویل مدت کی پلاننگ کے ساتھ میدان میں اترتا ہے، کیا اسے اندازہ ہی نہیں ہو پایا تھا کہ دھرنے میں پیسے ختم ہو جائیں گے؟ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ اس نے تو یہ سوچا تھا کہ یہ مخالف شرم کریں گے اور ہفتے دس دن بعد حکومت چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ اسے بھلا کیا خبر تھی کہ 126 دن تک بھی شرم انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے گی۔ خیر دھرنا لمبا ہو گیا اور پیسے ختم ہو گئے۔ اس موقعے پر کوئی عام لیڈر ہوتا تو چندہ مانگنے لگتا۔ یا یہ کہتا کہ سب اپنے لیڈر کے لیے قربانی دیں اور اپنے کھانے پینے کا بندوبست خود کریں۔ لیکن کپتان کی حمیت نے یہ گوارا نہ کیا کہ جو کارکن ساون بھادوں کے برستے مینہ میں، ٹھنڈ کے تھپیڑوں میں، آنسو گیس کے بادلوں میں اس کے ساتھ کھڑے رہے، انہیں یوں تنہا چھوڑ دے۔ یہ کپتان کی مہمان نوازی کے خلاف تھا کہ اپنے مہمان کو کھانے پانی کا بھی نہ پوچھے۔
اب اس نے اپنے مہمانوں کی خاطر وہ بڑا فیصلہ کیا جو تاریخ میں اس سے پہلے صرف ایک شخص نے کیا تھا۔ چند لمحے توقف کریں، اس آدمی کا قصہ بھی سنا دوں گا۔ پہلے یہ بات تو ریکارڈ پر آ جائے کہ کپتان کو خبر ہی نہیں تھی کہ اس کی ذاتی گاڑی کی کیا قیمت ہے، اسے تو کسی نے بتایا کہ چالیس پچاس لاکھ کی ہے، یعنی آج کل کے حساب سے ڈیڑھ دو کروڑ کی۔ جس بندے کو روپے پیسے کا لالچ نہ ہو، اس نے بھلا قیمت پتہ کر کے کیا کرنا تھا؟ رب نے اپنے بے پایاں کرم سے اپنے نیک بندے کو غیب سے گاڑی عطا کر دی، اس نے شکر ادا کر کے رکھ لی۔
اب اس کے دھرنے میں موجود کارکنوں کے کھانے کی فکر ہوئی، تو مال و دولت اور جاہ و طلب سے بے نیاز اس شخص نے بغیر کسی توقف کے اپنی ذاتی سواری کی گاڑی قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ اپنی ذاتی گاڑی کتنی پیاری ہوتی ہے۔ بلکہ عربوں کے ہاں تو مثل بھی مشہور ہے کہ ایک عرب اپنی ماں کا بہت خیال رکھتا ہے، اپنی محبوبہ پر جان و دل نثار کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے، لیکن سب سے زیادہ محبت وہ اپنی سواری کے اونٹ ہی سے کرتا ہے۔ دیسی مردوں کی اپنی گاڑی سے محبت، عربوں کی اونٹ سے محبت جیسی تو نہیں، لیکن بہرحال پھر بھی بہت ہوتی ہے۔ اور یہاں حال یہ تھا کہ مال و دولت سے بے نیاز کپتان اپنی گاڑی بھی اپنے مہمانوں کو کھانا کھلانے کی خاطر قربان کرنے پر تل گیا تھا۔
عربوں کا ذکر چلا تو پھر مہمان نوازی کا وہ قصہ بھی بیان کر دیتا ہوں جس کا کچھ دیر پہلے وعدہ کیا تھا۔
تاریخ میں مرقوم ہے کہ سخاوت میں قبیلہ طائی کے سردار حاتم سے کوئی بڑھا ہوا نہ تھا۔ اس کی سخاوت اور دریا دلی کے قصے سن کر ایک بدو نے سوچا کہ حاتم کو آزمانا چاہیے، اس سے اس کی سب سے عزیز چیز مانگ لیتا ہوں۔ عربی گھوڑے مشہور ہیں، لیکن حاتم کے پاس تو عرب کا سب بڑھیا گھوڑا تھا جو اس کی ذاتی اور پسندیدہ سواری تھا۔ سو وہ بدو دن ڈھلے عصر اور مغرب کے درمیانی وقت حاتم کے پاس پہنچا، ابھی اس نے مدعا بھی بیان نہیں کیا تھا کہ حاتم نے اپنی نشست خالی کر کے اسے وہاں بٹھایا، اس کے ہاتھ منہ اور پاؤں دھلوائے۔ اور خدام کو اس کا کھانا تیار کرنے کا حکم دیا۔ عشا کے وقت تک گرما گرم تکے کباب اور پلاؤ قورمے مہمان کے سامنے دسترخوان پر سجے تھے۔ مہمان نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔
پھر خدام نے دسترخوان سمیٹا تو حاتم نے پوچھا کہ ”اے شخص تجھے کیا غرض میرے پاس لائی؟ کیا تجھے سونا چاندی درکار ہے؟ کیا تو اونٹوں کا گلہ مانگتا ہے؟ اپنی خواہش بتا تاکہ میں مہمان نوازی کا حق ادا کروں“ ۔
وہ شخص کہنے لگا ”اے قبیلہ طائی کے سردار حاتم، مجھے نہ تو سونا چاندی چاہیے اور نہ ہی مال مویشی۔ مجھے تو تیری ذاتی سواری کا گھوڑا درکار ہے جس کا شہرہ قیصر و کسریٰ کے درباروں تک میں ہے۔“
حاتم طائی نے یہ سن کر سر جھکا لیا۔ اس کے چہرے پر تاسف کے آثار نمایاں ہوئے۔ وہ بولا ”افسوس میں تجھے اپنی سواری کا گھوڑا نہیں دے سکتا“ ۔
وہ شخص دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ حاتم کی سخاوت کا بھانڈا اس نے پھوڑ دیا۔ وہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ حاتم نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور بولا ”اے میرے مہمان، جب شام گئے تو میرے پاس آیا تو میرے خدام میری بھیڑوں بکریوں اور اونٹوں کو چرانے کے لیے دور چراگاہوں میں لے کر گئے ہوئے تھے اور انہوں نے اگلے دن پلٹنا تھا۔ میری شان کے خلاف تھا کہ میں اپنے مہمان کو کھانے میں گوشت نہ دوں۔ میں نے خدام کو کہا کہ وہ میری ذاتی سواری کا گھوڑا قربان کر کے تیری دعوت کا بندوبست کریں۔ یوں تو نے جو کھایا یہ وہی گھوڑا تھا۔ اس وجہ سے میں تیری خواہش پوری کرنے سے قاصر ہوں“ ۔ یہ قصہ عام ہوا تو عربوں میں حاتم کی سخاوت کا سکہ اور جم گیا۔
خیر حاتم طائی کے بعد میرا کپتان عمران خان وہ دوسرا شخص ہے جس نے اپنے مہمانوں کو کھانا کھلانے کی خاطر اپنی مہنگی ذاتی سواری کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا۔ بلکہ انصاف کی بات کی جائے تو کپتان حاتم طائی سے بھی بڑھ گیا تھا، کہ اس کے مہمانوں کی تعداد ناقابل شمار تھی۔
ایک طرف اپنے کارکنوں پر اپنا سب کچھ نثار کر دینے والا عمران خان اور دوسری طرف یہ سب مطلب پرست سیاست دان۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں دونوں کا۔ افسوس صد افسوس کہ وہ جیل کی کال کوٹھڑی میں قید ہے اور اس کے نام پر اقتدار لینے والے اسے بھول کر مزے کر رہے ہیں۔
- تحریک انصاف کے کارکنوں کی ہلاکت۔ ایک سنجیدہ تحریر - 28/11/2024
- انصافی لیڈر شپ خان کی رہائی نہیں اپنے لیے چَوتھ چاہتی ہے - 23/11/2024
- کپتان کی سخاوت اور کارکنوں سے پیار کا ایک واقعہ - 19/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).