Constitutionality of ”sexual history“
سال 2021 کی بات ہے۔ ایک مقدمہ جو عدالتوں کی راہداریوں میں گونج اٹھا۔ عاطف ظریف بنام ریاست۔ اس مقدمے میں جسٹس منصور علی شاہ نے ایک ایسا فیصلہ دیا جس نے نہ صرف قانون کی کتابوں میں ایک نئی مثال قائم کی، بلکہ معاشرتی سوچ کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ فیصلہ کچھ یوں تھا: ”عورت، خواہ اس کا جنسی کردار یا شہرت کیسی بھی ہو، قانون کی مساوی حفاظت کا حق رکھتی ہے۔“ یہ الفاظ، بظاہر سادہ مگر اپنی حقیقت میں بے حد گہرے، عورت کی آزادی اور اس کی خود مختاری کے حق کو قانونی تحفظ دیتے ہیں۔
کسی بھی عورت کا مختصر لباس یا اس کے کسی کے ساتھ تعلقات اس بات کا جواز نہیں کہ اس کے ساتھ زیادتی کی جائے۔ یہ کہنا کہ ایسے عوامل کسی جرم کا سبب بن سکتے ہیں، نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ قانون کے بنیادی اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ معاشرت اور قانون دونوں متفق ہیں کہ ہر عورت اپنی مرضی سے لباس پہننے اور اپنی زندگی گزارنے کا حق رکھتی ہے۔ یہ حق اس کی عزت یا حفاظت میں کسی قسم کی کمی کا باعث نہیں بن سکتا۔
یہ فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جنسی زیادتی بذات خود ایک سنگین جرم ہے، جس کی کوئی بھی وجہ اسے قابلِ قبول نہیں بنا سکتی۔ عورت کا کردار یا لباس اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتا کہ اس کی مرضی کے خلاف اس کی عزت پر حملہ کیا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا یہ فیصلہ کہ عورت کی عزت اور حفاظت اس کی ذات کی ہوتی ہے، نہ کہ اس کی ظاہری حالت یا معاشرتی حیثیت کی نے عدلیہ کی دیواروں پر عورت کے حقوق کے حق میں ایک مضبوط، لازوال پیغام ثبت کر دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا یہ فیصلہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی فرد کی عزت اور حفاظت اس کے کردار یا ظاہری حالت کی وجہ سے مشروط نہیں ہونی چاہیے۔ قانونی نقطہ نظر سے، یہ فیصلہ اس اصول کو مضبوط کرتا ہے کہ کسی بھی متاثرہ کی ذاتی زندگی یا پس منظر جرم کی شدت کو کم یا اس کا جواز فراہم نہیں کر سکتا اور ہر انسان کو قانون کی نظر میں برابر کا تحفظ اور عزت ملنی چاہیے۔
Referece : Criminal Appeal No.251/2020 & Criminal Petition No.667/2020:
- سیاست شطرنج کی چال کی مانند ہے - 18/01/2025
- پاکستان بھارت کرکٹ یا دشمنی: فیصلہ کون کرتا ہے - 05/12/2024
- گورنر راج کی آئینی تشریح اور قانونی نفاذ - 01/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).